پی پی پی کا سب سے بڑا لیڈر بھٹو
مر حوم کو تصور کیا جاتا ہے۔اور آج بھی چاہے کوئی بھی سیاسی جلسہ ہو کوئی
بل پاس ہو یا کوئی بھی اور ایسا موقع ہو جہاں عوام اکٹھی ہو تو پی پی پی کے
جیالے نہ صرف ان کے نعرے لگاتے ہیں بلکہ ان کی خدمات کو خراج تحسین بھی پیش
کرتے ہیں۔بعض لوگوں کی نظر میں وہ بھی ایک فوجی عامر کے ساتھ ہاتھ ملانے کے
جرم میں شریک تھے۔مگر حقیقت کچھ بھی ہو۔ان کی سیاسی زندگی اور ان کی سیاسی
کاوش سے کسی صورت بھی انکار ممکن نہیں۔اور جمہوریت کے لیے ان کی قربانیوں
کو ہمیشہ ےاد رکھا جائے گا۔ان کے نزدیک پاکستان کا آئین ہی پاکستان کی
معتبر دستاویزات میں سے ایک ہے اور آئین ہی سب سے بالا تر ہے۔مگر آج جب وہ
اس دنیا میں نہیں رہے تو ان کی بنائی گئی پارٹی جسے بے نظیر صاحبہ کی کوشش
اور شہادت ایک بار پھر حکومت میں لانے میں کامیاب ہوگئی ،کئی بڑی غلطیوں کی
مرتکب نظر آتی ہے۔اور آئین کی کئی شقوں سے براہراست انحراف دیکھا جا سکتا
ہے۔آئین کا آرٹیکل 41اس بات کا چیخ چیخ کر مطالبہ کر رہا ہے کہ صدر کو ملک
کے اتحاد کا نشان ہونا چاہیے۔ایسے میں اگر ایک صدر کسی سیاسی پارٹی کا چیر
مین بھی ہو اور اس سیاسی پارٹی کے اجلاسوں کی صدارت بھی کرے تو میری کم
عقلی میں ےہ فعل آئین کی توہین تصور کرکے ان کے خلاف ایک کاروائی ہونی
چاہیے۔مگر آج تک ایسا نہ ہوسکا۔کچھ لوگ مطالبہ کرتے تھے۔پھر چپ ہوگئے کیسے
اور کیوں اس کا جواب شائد بچہ بچہ جانتا ہے۔مگر اس پر نہ صرف تمام سیاسی
پارٹیاں بلکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی خاموش ہے۔جو کہ خطرے کی علامت ہو
سکتا ہے۔بی بی مرحومہ نے کئی بار اپنی زندگی میں ان خدشات کا اظہار کیا تھا
کہ مشرف چونکہ ایک پارٹی کا ساتھ دے رہے ہیں تو ان کے زیر سایہ شفاف
انتخابات ممکن نہیں۔اب ویسا ہی حال ہے۔ایک ایسے صدر محترم موجود ہیں جو کہ
ایک پارٹی کے چیرمین بھی ہیں۔اور انکی انتخابی مہم کا حصہ بھی ہیں وہ آئندہ
انتخابات کرانے جا رہے ہیں۔نہ صرف ےہ بلکہ اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ یہاں
آئین کے رکھوالے اندھے ،گونگے اور بہرے ہیں۔ساتھ ہی وہ کچھ کرنے سے بھی
معذور ہیں۔پاکستان کے صدر کئی بار اپنے پارٹی ورکروں سے خطاب میں پی پی پی
کے متعلق جو ہمدردانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔میری طالبعلمانہ سوچ کے نزدیک
اس کی اجازت آئین میں موجود نہ ہے۔نہ صرف یہ بلکہ اگر اس سے بڑھ کے دیکھا
جائے تو آئین کا آرٹیکل 25 اور26اس بات کا دعوے دار ہیں کہ پاکستان کی
حکومت ملک میں تمام لوگوں کو برابری کا درجہ دے اور پانچ سال سے سولہ سال
تک کے بچوں کو تعلیم مہیا کرنا بھی ان کا فرض ہے۔اور 26تمام پبلک مقامات پر
عوام کی رسائی کے متعلق ہے۔مگر جب کبھی عید کا موقع ہو جو کہ آگے جلد دیکھا
بھی جا سکتا ہے تو جہاں پاکستان کا صدر اور وزیراعظم عید کی نماز ادا کریں
وہاں عام عوام کو داخلے تک کی اجازت نہیں ہوتی۔اور گزشتہ برسوں بھی کئی لوگ
شاہ فیصل مسجد کے قریب عید کی نماز کے لیے جانے کا انتظار کرتے رہے مگر پی
پی پی کے منتخب وزیراعظم کی سیکیورٹی اس امر کی اجازت نہ دیتی تھی کی وہاں
پر رہنے والے لوگ ان کے ساتھ نماز ادا کریں۔تعلیم اور صحت کے حالات اس سے
مختلف نہ ہیں۔نہ تو دیہاتوں میں تعلیم کو یقینی بنایا جا رہا ہے اور نہ ہی
وہاں پر کسی قسم کی کوئی کاروائی صحت کے شعبے کو برقرار رکھنے کے لیے کی
جارہی ہے۔عوام الناس کو آئین پاکستان اس بات کی اجازت اور حق دیتاہے کہ ہر
پاکستانی عوام سے متعلقہ معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔تو اس غرض سے آج
تک اس ملک کی غریب عوام پی پی پی کی وہ حکومت جو آئین قانون کی دعوے دار
نظر آتی ہے اس سے اپنے مستقبل کے متعلق کئی سوالات کرتی ہے۔آج تک نہ مشرف
سے متعلق کیس پر عوام کو آگاہ کیا گیا۔ نہ ہی بی بی شہید کے قتل کے متعلق
کوئی پیش رفت ہوئی۔سوال تو کئی ذہن میں اٹھتے ہیں۔کہ پی پی پی کی اپنی
حکومت اپنا مکمل عرصہ پورا کرنے کے بعد بھی بی بی کے قاتلوں کا اگر پتہ نہ
لگا سکی اور جب الیکشن کے دن قریب آئے تو انہو ں نے پھر ٹرائیل کامیاب
کرانے کے دعوے شروع کردیے ۔ایسے میں مجھے تو نعروں میں اور کاوشوں میں محبت
سے ذیادہ سیاست نظر آتی ہے۔جن پر بی بی کے قتل کا الزام لگاتے رہے۔آج ان کے
ساتھ ہاتھ ملا بھی لیا اور آئیندہ بھی ایسا کرنے کا ارادہ بنا لیا۔تو عوام
کو کب ان سوالوں کے جواب دیے جائیں گے۔کہ اگر بے نظیر نے چیف جسٹس کوبحال
کرانے کا ایک عزم شروع کیا تھا تو کیا پی پی پی نے اس کو اسی عزم سے آگے
بڑھایا، ےا اس کے در پردہ سیاست بھی چمکائی گئی۔سیاست کی چمک ذیادہ دکھائی
دیتی ہے کیونکہ اس عدلیہ جس کو خود سامنے لائے اس کے ہی فیصلوں کو ماننے سے
انکار اور ان پر عملدرآمد نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ پی پی پی نے عدلیہ
بحالی تحریک کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔وہی امریکہ جس سے بننے
والے مشرف کے تعلقات کے متعلق بی بی نے اپنی کتاب میں تشویش کا اظہار کیا
تھا آج اس امریکہ کی سپلائی یہیں سے جاتی ہے۔اوراس کا اس ملک میں عملدرآمد
کس حد تک ہے اس سے اس ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔آج بھی عوام سوال کرتی ہے
کیوں ایسے قانون بنائے جا رہے ہیں جن کو عوام کی فلاح کی بجائے سیاستدانوں
کے فوائد تک محدود کیا جاتا ہے؟کب عوام کو اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ
اوگراہ میں ایک نااہل شخص کو کیوں تعینات کیا گیا؟عوام کا یہ حق ہے کہ وہ
سوال کریں کیوں سابقہ قاتل لیگ کو سیاست کے ایوانوں میں پی پی پی نے آنکھوں
پر بٹھا لیا؟کیوں عدلیہ کے وہ فیصلے جو پی پی پی کے خلاف ہوں ان کو نہیں
مانا جاتا ؟کیاالیکشن کمیشن کمزور ہے جو صدر کو دو عہدے رکھنے پر کوئی روک
ٹوک نہیں کرتا؟کیا اس کے پاس اختیارات ہیں اور کچھ ذاتی مجبوریاں ان کو
ایسا کرنے سے روک رہی ہیں؟میرے نزدیک ایسے حالات میں شفاف انتخابات کرانا
ایک ناممکن عمل ہے۔اور اگر الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ عدلیہ بھی خاموش رہی
تو عوام کو جو اعتبار کچھ اداروں پر باقی رہ گیا ہے اس کا بھی اختتام ہو
جائے گا۔او ر پھر اس کا نتیجہ فرانس کے انقلاب سے بڑھ کر ہوگا۔مگر اس کا رد
عمل عوام کے سر ہوگا کیونکہ تمام تر سیاسی لیڈر مشکل وقت میں یہاں سے بھاگ
جائیں گے۔مگر پی پی پی سے آج بھی یہی توقعات کی جا رہی ہے کہ وہ آئین اور
قانو ن کی سر بلندی کی کوشش کریں اور اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا ازالہ
کریں۔ورنہ ایسا نہ ہو کہ کوئی بھی مداوا نہ کرسکے۔کیونکہ جب بھی عام کے صبر
کا پیمنہ لبریز ہوا تو انتشار کو روکنے کے لیے بوٹوں کی طرف دیکھا جائے
گا۔اور ہمیں اپنے ذہن میں یہ بھی رکھنا ہوگا کہ کسی بھی قسم کا احسان کر کے
بوٹوں والوں مجبور نہیں کیا جاسکتا۔پھر تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر
فرعون نے موسیٰ کو اپنی ہی آغوش میں پالا۔ |