عبدالرشید صدیقی ……پروانۂ شمعِ اردو ہوگیا خاموش اب

محترم عبدالرشید صدیقی سرایک بہترین استاذ و معلم ، اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت اور فروغ و ارتقا کے لیے خاموشی کے ساتھ مصروف و مشغول اردو کے مایۂ ناز ادیب و انشا پرداز، طلبہ کے تئیں مخلص و مشفق ، سنجیدگی و متانت کے ساتھ ساتھ بذلہ سنجی اور ظرافت کے پیکر و مجسمہ تھے۔ آپ کی شگفتہ بیانی اور خوش گفتاری بھی اپنی مثال آپ تھی جس کی یاد تادیر نہاں خانۂ دل میں محفوظ رہے گی۔ آپ کی گراں قدر علمی و ادبی شخصیت کے کئی گوشے تھے اور ہر گوشہ اپنے آپ میں امتیازی وصف کا حامل نظر آتا تھا ۔ اپنے طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ ہمیشہ متحرک اور فعال پائے گئے۔ اردو زبان کی تدریس سے متعلق آپ شہر مالیگاؤں کے منفرد اساتذہ میں نمایاں مقام و مرتبے کے حامل تھے۔ تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ غیر تدریسی سرگرمیوں میں بھی آپ نے ہمیشہ بہترین شراکت داری کا مظاہرہ کیا ۔ تقریری مقابلوں ، ہزل خوانی، غزل سرائی ، لطیفہ گوئی اور ڈرامہ کمپی ٹیٖشن وغیرہ کے لیے اپنی اعلا صلاحیتوں کو بروے کار لاتے ہوئے طلبہ کی تربیت کرتے رہے ۔ آپ کا انتقال نہ صرف اے ٹی ٹی کیمپس اور آپ کے خاندان کا عظیم نقصان ہے بل کہ مہاراشڑت بھر کے اردو طلبہ اور اساتذہ کا بھی نقصان ہے جس کی تلافی اس عہدِ قحط الرجال میں ممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتی ہے۔

عبدالرشید صدیقی سر نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں جو کردار ادا کیا اور اپنی زنبیلِ حیات میں ۳۷؍ کے لگ بھگ کتب و رسائل یادگار چھوڑے ہیں وہ آپ کو دنیاے ادب میں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ اے ٹی ٹی ہائی اسکول سے طلبہ کو تقریری مقابلوں میں شرکت کے لیے جب آپ تقاریر تحریر کرکے مکمل تربیت کے ساتھ روانہ کرتے تو وہ تقریر ضرور بہ ضرور انعام کی حق دار ہوتی ۔ ان تقاریر کا دل کش مجموعہ ’’اندازِ بیاں‘‘ کے نام سے کئی مرتبہ شائع ہوکر مقبولِ خاص و عام ہوچکا ہے۔ مذکورہ کتاب پر آپ کو ’’سرسید ادبی ایوارڈ‘‘ کے علاوہ اردواکادمی مہارشٹر سے بھی اعزاز حاصل ہوئے۔

آپ کی شگفتہ و سلیس ، رواں دواں اور سلاست و روانی کا بانکپن لیے ہوئے عمدہ نثر نگاری سے میں بہت زیادہ متاثر رہا ۔ ایک مرتبہ عرض کیا :’’ سر! آپ کی اردو اتنی صاف و شستہ اور اچھی کس طرح ہوئی؟ تو آپ نے کہا: ’’ بیٹا! مطالعہ کی عادت ڈالو، مطالعہ جتنا وسیع ہوگا الفاظ کا ذخیرہ اتنا زیادہ بڑھے گا۔‘‘ چوں کہ وہ مجھ سے اچھی طرح واقف تھے اس لیے مزید کہا کہ :’’ علامہ مشتاق احمد نظامی کی کتابیں ، علامہ ارشدا لقادری کی تصانیف اور پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی مجددی(پاکستان) کے رسائل خوب غور و خوض سے زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے پڑھو ، ان شآء اللہ زبان کی نوک پلک میں نکھار آجائے گا اور تمہیں بھی مضمون نویسی میں رفتہ رفتہ دَرک حاصل ہوجائے گا۔‘‘بعد ازاں سر کی نصیحت پر عمل کیا جس کے مثبت ثمرات حاصل ہوئے اور آج میں کچھ نہ کچھ لکھنے کے قابل ہوں۔

اردو مضمون نویسی اور قواعد، مختلف جماعتوں کے لیے اردو مضمون کے گائیڈس جو آپ نے تیار کیے ان میں آپ نے طلبہ کی نفسیات اور عمر کے اعتبار سے جس احسن انداز میں رہنمائی فرمائی اس کے مفید اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ ترقی تعلیم پبلی کیشن کے توسط سے آپ کے مرتبہ گائیڈس مہاراشٹر بھر کے اردو اساتذہ اور طلبہ میں بے پناہ مقبول ہیں ، اسی طرح کمزور طلبہ کی تعلیمی ترقی میں اضافہ کرنے کے لیے ’’ٹمٹماتے چراغ‘‘ نامی آپ کی مرتبہ کتاب اپنے موضوع و مواد کے اعتبار سے نہایت کار آمد اور معلومات افزا کتاب ہے ۔

جب راقم نے ’’اردو کی دل چسپ اور غیر معروف صنعتیں ‘‘نامی کتاب ترتیب دی تو آپ نے مشفقانہ پذیرائی کرتے ہوئے اس کی اصلاح کی اور ناچیز کا ایک تعارف بھی تحریر کیا۔ اسی طرح میری مرتبہ’’ عملی قواعدِ اردو‘‘ پر بھی آپ نے اصلاح و نظرِ ثانی فرماکر سندِ اعتبار عطا کی ۔ علاوہ ازیں جب بھی اردو نثر ونظم، زبان و قواعد اور املا سے متعلق مجھے کوئی دشواری در پیش ہوئی تو میں نے سر سے رجوع کیا ، محترم نے نہ ستایش کی تمنا نہ صلہ کی پروا کے مصداق علم کی روشنی پھیلانے سے کمی نہیں ہوتی اس نظریہ کے تحت مخلصانہ رہنمائی فرمائی ، اللہ انھیں جس کا بہتر صلہ عطا فرمائے ۔

محترم عبدالرشید صدیقی سرایک کثیر المطالعہ شخصیت تھے۔ دین و دانش ، علم و ادب اور تاریخ و سماجیات آپ کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ امام احمدرضا محدثِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے پی ایچ ڈی کے لیے آپ نے غالباً پچیس سال قبل رجسٹریشن کروالیا تھا۔ جب آپ نے اس تحقیقی کام کا بیڑا اٹھایا تو جہاں رضویاتی ادب کے بہت سارے جید علما نے آپ کی حوصلہ افزائی کی تو وہیں بعض لوگوں نے آپ کی قلمی امداد و اعانت کی بجاے حوصلہ شکنی بھی کی جس کا اظہار موصوف نے ناچیز سے اسی سال ۲۶؍ رجب المرجب ۱۴۳۲ھ کو بعد عصر اپنے مکان پر کیا ۔ اسی دوران آپ نے پاکستان کے معروف محقق، ماہرِ رضویات پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی مجددی علیہ الرحمہ کا ایک حوصلہ بخش خط بھی سنایا جو پروفیسر علیہ الرحمہ آپ کو پچیس برس قبل امام احمدرضا محدث بریلوی کی نعتیہ شاعری پر تحقیقی کام کے سلسلے میں حوصلہ افزائی کی غرض سے روانہ کیا تھا۔ بعض ناگزیر وجوہات کے سبب اے بسا آرزو کہ خاک شدہ یہ تحقیقی کام مکمل نہ ہوسکا جس کا آپ کو قلق رہا اور گاہے بہ گاہے سنجیدہ افراد کے سامنے اس کااظہار بھی کرتے رہے۔ اسی ملاقات میں صدیقی سر نے بتایا کہ :’’ کل میں محکمۂ تعلیمات ناسک میں ایک تحقیقی پروجیکٹ جمع کرنے جارہا ہوں ، اس کے بعد قرآنِ کریم کے حوالے سے ایک کام کا ارادہ ہے جو شاید میرا آخری کام ہو کیوں کہ اب میں تھکن محسوس کرنے لگا ہوں۔‘‘اس کام کا آغاز ہوا یا نہیں اس سے ناچیز نابلد ہے۔

بہ ہر کیف! طلبہ میں ہر دل عزیز، ہم منصب اساتذہ میں پسندیدہ، اہل و عیال میں خوش اخلاق و مشفق، رشتہ داروں میں خلیق ، اور ملنے جلنے والوں میں ملنسار ، اردو کی ترویج و بقا کے لیے ہمیشہ متحرک اور فعال رہنے والے پروانۂ شمعِ اردو عبدالرشید صدیقی صاحب کا یوں خاموش ہوجانا گہرے رنج و غم کا باعث ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل آپ کے گناہِ صغیرہ و کبیرہ کو معاف کرتے ہوئے مغفرت فرمائے(آمین)
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 646685 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More