بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت جابررضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہںس کہ''نبی کریم صلی اللہ تعالٰی
علہھ وسلَّم نے ذبح کے دن دو مینڈھے سینگ والے چت کبرے خصی کیے ہوئے ذبح کے
جب ان کا مونھ قبلہ کو کیا یہ پڑھا:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ
عَلٰی مِلَّۃِ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ
اِنَّ صَلَا تِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ
الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ
الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُّحَمّدٍ وَّاُمَّتِہٖ
بِسْمِ اللہِ وَاللہُ اَکْبَرُ.
اس کو پڑھ کر (جانور)ذبح فرمایا
[سنن أبي داود''،کتاب الضحایا،باب ما یستحب من الضحایا،الحدیث:۲۷۹۵]
سوال نمبر1:یورپ ممالک میں رہنے والے پاکستا نی اکثر اپنی قربانی پاکستان
میں کرتے ہیں تو پاکستان میں ابھی عید نہیں ہوئی ہے مگر ان کے ملک میں عید
ہوچکی ہے ایسے میں کیا وہ پاکستان میں عید سے پہلے قربانی کرسکتے ہیں یا
نہیں نیزکیا پاکستان میں رہنے والا شخص اپنی قربانی عرب شریف میں کر وا
سکتا ہے یا نہیں جبکہ ابھی پاکستان میں قربانی کا وقت نہیں آیا ہے ۔
جواب: قربانی میں قربانی کے جانور کے مقام کا اعتبار ہے کہ جس مقام پر
قربانی کا جانور ہے وہا ں قربانی کا وقت ہوچکا ہے یا نہیں اگر وہاں قربانی
کے وقت میں قربانی کی تو قربانی ہوجائے گی اورصحیح قول کے مطابق اگرچہ
قربانی کرنے والے کے مقام پر قربانی کا وقت نہ آیا ہو یہ قربانی ہوجائے گی
اور اگر قربانی جس مقام پر کی جارہی ہو وہاں قربانی کے وقت کی ابتدا نہیں
ہوئی تو اس مقام پرابھی قربانی نہیں ہوسکتی اگرچہ کہ قربانی کرنے والا جس
شہر میں موجود ہے وہاں قربانی کا وقت ہوچکا ہو
الدرالمختار میں ہے ’’المعتبر مکان الاضحیۃ لا مکان من علیہ ‘‘
یعنی ،’’جہاں قربانی کا جانور ہے اس جگہ کا اعتبار ہے جس پر قربانی واجب
ہوئی اس کی جگہ کا اعتبارنہیں‘‘۔
[الدرالمختار،کتاب الاضحیۃ ،ج:۹،ص:۴۶۱،مکتبہ امدادیہ ملتان ]
اور بہتر یہی ہے کہ قربانی کرنے والے اور جس جگہ قربانی کی جارہی ہو دونوں
مقام پر قربانی کاوقت ہوچکا ہو پھر قربانی کی جائے۔کیونکہ ایک قول کے مطابق
دونوں مقام پر قربانی کے وقت کا ہونا لازمی ہے لہذا احتیاط بہتر ہے۔
فتاوی عالمگیر ی میں ہے
’’ان الرجل اذاکان فی مصر واھلہ فی مصر آخر فکتب الیھم لیضحوا عنہ فانہ
یعتبر مکان التضحیۃ فینبغی ان یضحوا عنہ بعد فراغ الامام من صلاتہ فی المصر
الذی یضحی عنہ فیہ ،وعن الحسن انہ لا یجوز حتی یصلی فی المصر ین جمیعاکذا
فی الظہیریۃ ‘‘
یعنی،’’ اگر کوئی مرد کسی شہر میں رہتا ہواور اس نے اپنے گھر والوں کو جو
کہ دوسرے شہر میں رہتے ہوں خط لکھا کہ اس کی طرف سے قربانی کر دی جائے تو
قربانی کے جانور کی جگہ کا اعتبار ہو گا پس جس شہر میں وہ قربانی کررہے ہیں
ان کے لئے مناسب یہ ہے کہ امام کے نماز سے فارغ ہو جانے کے بعد اس کی طرف
سے قربانی کریں۔اور امام حسن سے روایت ہے کہ اس وقت تک قربانی کرنا جائز
نہیں ہوگی جب تک دونوں شہروں میں نماز نہ پڑھ لی گئی ہو اسی طرح ظہیریہ میں
ہے ‘‘۔
[فتاوی عالمگیری ،کتاب الاضحیۃ ،باب بیان محل اقامۃالواجب،ج:۵،ص:۳۶۷،مکتبہ
،قدیمی کراچی]۔
سوال نمبر2: قربانی کا جانور مر جائے یا گم ہوجائے یا اس میں کوئی عیب پیدا
ہوجائے تو ا ب شرعا کیا حکم ہے
جواب:قربانی کا جانور مرجائے یا گم ہوجائے یا ایسا عیب پیدا ہوجائے کہ جس
کی وجہ سے قربانی ناجائز ہو تو غنی (یعنی جس پر قربانی کرنا واجب تھی) پر
لازم ہے کہ وہ دوسرا جانور خرید کر قربانی کرئے ہاں اگر اب فقیر (یعنی جو
زکوۃ لینے کا مستحق ہو) ہوگیا ہو تو اس پر دوسرا جانور خرید نا لازم نہیں
ہے ۔
اگر فقیر نے نفلی قربانی کے لئے جانور خریدا تھا اس میں عیب پیدا ہوجائے تو
وہ اسی کو قربان کردے اور گم ہوجانے یا مرجانے پر اس پر دوسرا جانور خرید
کر قربانی کرنا لازم نہیں ہے ۔
یاد رہے کہ اگر بوقت ذبح جانور اچھلا کودا جس کی وجہ سے اس میں عیب پیدا
ہوجائے تو یہ عیب مضر نہیں۔
سوال نمبر3: قربانی کے جانور کا دودھ پینا یا بیچنا جائز ہے یانہیں
جواب: قربانی کے لئے خریدے گئے جانور سے کسی بھی قسم کا انتفاع (نفع
اٹھانا) قبل قربانی ممنوع ہے لہذا اگر کسی نے گائے یا بکری یا اونٹ کا دودھ
نکال لیا کسی بھی غرض سے خواہ اس لئے کہ تھنوں میں دودھ کا باقی رکھنا
جانور کے لئے نقصان دہ ہو تو اس پر اس دودھ کو صدقہ کرنا لازم ہے اس کو
اپنے ا ستعمال میں نہ لائیں ۔ حتی کہ فقہا فرماتے ہیں کہ قربانی کے جانور
پر سواری کرنا بھی ممنو ع ہے اگر اس پر سواری کی اور اس کی وجہ سے قربانی
کے جانور کی قیمت میں کمی آگئی تو اس کمی کی قیمت صدقہ کرنا اس پر لاز م ہے
سوال نمبر4: اگر حاملہ جانور غلطی سے خرید لیا گیا ہو تو کیا اب اس کی
قربانی کی جاسکتی ہے یا نہیں نیز کیا اس قربانی کے جانور کو فروخت بھی کیا
جاسکتا ہے یا نہیں
جواب:اگر حاملہ جانورغلطی سے خرید لیا تو اس کو فروخت کیا جاسکتا ہےتو اگر
وہ فروخت ہوجائے یا مالک مل جائے اور اس کو واپس کردیا جائے تو بہتر ہے اور
اگر یہ دونوں صورتیں ممکن نہ ہو اور دوسرا جانور خریدنا بھی ممکن نہ ہو تو
اسی حاملہ جانور کو قربان کردیا جائے قربانی ہوجائے گی
حاملہ کی قربانی پسندیدہ نہیں ہے مگر اب بحالت مجبوری کوئی کراہت نہیں ہے
اور اگر وقت قربانی سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے یا جانور کو ذبح کردیا اور
بچہ زندہ نکلا تو دونوں صورتوں میں اس بچےکو بھی ذبح کردیا جائے اور اس کو
بھی کھایا جائے گا اور اگر بچہ مردہ پایا جائے تو اس کو پھینک دیا جائے
سوال نمبر5: قربانی کی کھال مسجد و مدرسہ میں دی جاسکتی ہے یانہیں
جواب :قربانی کی کھال صدقہ نافلہ ہے اور اس میں تملیک بھی ضروری نہیں ہے
اسے ہر نیک و جائز کام میں دیا جاسکتا ہے۔اورمسجدکی تعمیراورامام ومؤذن کی
تنخواہ اورمسجدکی مرمت وغیرہ پرخرچ کرنابھی نیک کام ہےلہٰذامسجدمیں بھی
قربانی کی کھال دیناجائزہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے اضحیہ کی نسبت ارشاد فرمایا ’’تصدقوا‘‘ یعنی صدقہ کرو۔
اسی طرح اس کی نسبت یہ بھی ارشاد فرمایا ’’ وائتجروا‘‘ یعنی وہ کام کرو جس
میں ثواب ہو۔
[سنن ابو داؤد باب فی حبس لحوم الاضاحی حدیث نمبر۲۸۱۲،۲۸۱۳]
تو مسجد میں دینا ثواب کا کام بھی ہے اور صدقہ کرنا بھی ہے لہذا مسجد میں
قربانی کی کھال دینا جائز ہے
چنانچہ امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں’’
قربانی کے چمڑوں کولِلّٰہ(اللہ کی رضاکے لئے )مسجدمیں دے دیناکہ انہیں یاان
کی قیمت کومتولی یامنتظمانِ مسجد،مسجدکے کاموں مثلاًڈول ،رسی ،چراغ ،بتی
،فرش ،مرمت ،تنخواہِ مؤذن ،تنخواہِ امام وغیرہامیں صرف کریں ۔بلاشبہ
جائزوباعثِ اجروکارثواب ہے ‘‘۔
[فتاویٰ رضویہ،ج:۲۰،ص:۴۷۶،رضافاؤنڈیشن ،لاہور]
سوال نمبر6: قربانی کی کھال یا گوشت قصاب کو جانور قربان کرنے کی اجرت کے
طور پر دینا شرعا کیسا ہے
بعض لوگ اس طرح بھی کرتے ہیں کہ کچھ رقم جو کہ عام قربان کرنے کی اجرت سے
تقریبا ہزار اسےپندرہ سو روپے کم قیمت پر جانور قربان کرتے ہیں اور پھر
کھال اور پیسے وصول کرتے ہیں ۔
جواب: اگر تو قصاب کھال اور گوشت ملنے کی وجہ سے ہی اپنی اجرت کم کر رہا ہے
کہ اگر کھال دوگے تو تین ہزار روپے اور کھال نہ دوگے تو چارہزار پانچ سو
روپے لوں گا تو یہ بھی معنیً اجرت ہی ہےاور فروخت کرنا ہے اورقربانی کے
جانور کے کسی عضو کواپنے لئے فروخت کرناشرعا جائز نہیں ہے اگر ایسا کیا تو
کھال کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے
ہاں اگر اجرت کا معاملہ نہ تھا اورقصاب کو اس کی اجرت پوری دینے کے بعد اگر
وہ قصاب واقعی مستحق ہو تو اس کو صدقہ کے طور پر کھال اور گوشت دینا جائز
ہے وگرنہ نہیں۔
سوال نمبر7: حلال جانور کے کن اعضا کو نہ کھایا جائے
جواب :(۱)ذبح کے وقت بہنے والا خون،(۲)علامات مادہ ونر (پیشاب کا
مقام)،(۳)کپورے،(۴)پاخانے کا مقام (۵)مثانہ حرام مغز (۶)اوجھڑٰ ی(۷) اور
آنتیں
ان میں دم مسفوح حرام قطعی ہے اور باقی اجزا مکروہ تحریمی ہیں۔
سوال نمبر8:کیا قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں
جواب: قربانی کے گوشت کو تین دن سے زائد رکھنا جائز ہے اورجو احادیث مبارکہ
میں ممانعت ہے وہ منسوخ ہے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد
کی وجہ سے کہ ’’کلوا وادخروا وائتجروا ‘‘۔ کھاؤ ،ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو۔
[سنن ابو داؤد باب فی حبس لحوم الاضاحی حدیث نمبر۲۸۱۲،]
اسی طرح قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا لازمی نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اگر
کوئی تمام قربانی کا گوشت اپنے استعمال میں لائے تو یہ جائز ہے منع نہیں ہے
قربانی کاطریقہ
قربانی کا جانور ان شرائط کے موافق ہو یینہ جو اس کی عمر بتائی گئی اس سے
کم نہ ہو اور ان عیوب سے پاک ہو جن کی وجہ سے قربانی ناجائز ہوتی ہے اور
بہتر یہ کہ عمدہ اور فربہ(صحت مند) ہو۔ قربانی سے پہلے اسے چارہ پانی دے
دیں ۔یعنی بھوکا پیاسا ذبح نہ کریں اور ایک جانور کے سامنے دوسرے کو نہ ذبح
کریں اور پہلے سے چھری تیز کرلیں ایسا نہ ہو کہ جانور گرانے کے بعد اس کے
سامنے چھری تیز کی جائے۔ جانور کو بائںے پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ کو
اس کا مونھ ہو اور اپنا سیدھا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے جلد
ذبح کر دیا جائے اور ذبح سے پہلے یہ دُعا پڑھی جائے۔
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ
حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ
وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لاشَرِیْکَ لَہٗ وَ
بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ
بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ.
اسے پڑھ کر ذبح کر دے۔ قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دُعا پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلَ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ
اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ وسلَّم.
اور اگر کسی اور کی طرف سے ہو یا گائے اونٹ وغیرہ میں دیگر شرکا بھی ہوں تو
اس صورت میں’’تقبل منِی ‘‘کی جگہ ’’تقبل مِن ‘‘اس کے بعد قربانی کرنے والوں
کے نام ذکر کئے جائیں۔
اس طرح ذبح کرے کہ چاروں رگںہ کٹ جائںس یا کم سے کم تین رگیں کٹ جائیں۔ اس
سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چھری گردن کے مہرہ تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ کی
تکلیف ہے پھر جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہو جائے یعنی جب تک اس کی روح بالکل نہ
نکل جائے اس کے نہ پاؤں وغرہ کاٹیں نہ کھال اتاریں اور اگر وہ مشترک جانور
ہے جسے گائے اونٹ تو وزن سے گوشت تقسیم کیا جائے محض اندازے سے تقسیم نہ
کریں۔ پھر اس گوشت کے تین حصے کر کے ایک حصہ فقرا پر تصدّق کرے اور ایک حصہ
دوست و احباب کے یہاں بھجے اور ایک اپنے گھر والوں کے لے رکھے اور اس مں سے
خود بھی کچھ کھالے اور اگر اہل و عیال زیادہ ہوں تو تہائی سے زیادہ بلکہ کل
گوشت بھی گھر کے صرف مں لاسکتا ہے۔
قربانی کرنے والا بقر عید کے دن سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے اس سے
پہلے کوئی دوسری چیز نہ کھائے یہ مستحب ہے اس کے خلاف کرے جب بھی حرج نہیں
[ملخص از بہار شریعت]
تکبیر تشریق :
اَللهُ اَکْبَرُ اَللهُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللهُ واَللهُ اَکْبَرُ
اَللهُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
نویں ذی الحجہ کی کو صبح سے ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کی عصر تک ہر نماز
کے بعد با آواز بلند ایک مرتبہ مذکورہ تکبیر کہنا واجب ہے۔
جماعت سے نماز ادا نہ کرنے والے پر امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے
نزدیک تکبیر تشریق واجب نہیں ہے جبکہ صاحبین (امام محمد اور امام ابو یوسف
)کے نزدیک اس پر بھی واجب ہے لہذا اس کو بھی چاہیے کہ وہ تکبیر تشریق پڑھے۔
والسلام مع الاکرام
ابو السعد محمد بلال رضا قادری |