کسان خواتین کی خدمات و ضروریات٬ شہد کی خصوصیات

ترقی دیہات و زراعت میں خواتین کے کردار کو اجاگر کرنے کے لئے لوک سانجھ فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام رتوال زرعی مرکز میں مکالمہ برائے ترقی کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈاکٹر فریدہ افتخار پرنسپل سائنٹیفک آفیسر شعبہ مگس بانی قومی زرعی تحقیقاتی مرکز اسلام آباد نے خواتین کی آمدن میں شہد کی مکھیاں پالنے سے اضافے اور سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار بڑھانے کے لئے پولی نیشن پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اس موقع پر مکالمہ برائے ترقی میں شریک کسان خواتین فائزہ، گلناز اور نازیہ نے نامیاتی کھادیں بنانے کی ٹیکنالوجی کی منتقلی، سبزیوں کی مارکیٹنگ اور فروخت، بکریوں اور مرغیوں کی فراہمی سمیت دیہی خواتین کی ترقی کے لئے لوک سانجھ فاﺅنڈیشن کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا اور روزانہ کی بنیاد پر اپنی آمدن میں اضافے کےلئے بھینس قرضے کے اجراءکا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی کے ترقیاتی ادارے کی پروگرام آفیسر کلثوم مونیکا نے کسان خواتین سے براہ راست سوالات بھی کیے اور اب تک ترقی کے حوالے سے ان کی کامیابی کی کہانیاں بھی معلوم کیں۔ اس موقع پر خواتین کی ترقی سے منسلک شاہدہ رانی نے کہا کہ بہتر حکمت عملی سے خواتین دستیاب مواقع اور وسائل سے بھی ترقی و خود کفالت کرسکتی ہیں۔ کسان خواتین نے شہد کی مکھیاں پالنے کےلئے ڈاکٹر فریدہ افتخار کی پیشکش اور معاونت میں خصوصی دلچسپی لی جس پر مکالمہ برائے ترقی میں ڈاکٹر فریدہ افتخار نے شہد کی مکھیوں اور پولی نیشن کے ذریعے ذرائع آمدن اور پھلوں سبزیوں کی پیداوار میں اضافے کےلئے تفصیلات سے آگاہ کیا۔ ڈاکٹر فریدہ افتخار کا کہنا تھا کہ بھیڑ، بکریوں، بھینسوں، گائیوں اور مرغیوں کی پرورش و پیداوار میں آج کل سب سے زیادہ پریشان کن پہلو ان کی مہنگی ترین خوراک ہے جبکہ شہد کی مکھیاں پالنے کی صورت میں وہ اپنی خوراک بھی خود ہی حاصل کرتی ہیں اور کسان خواتین کے لئے آمدن میں قابل ذکر اضافے کا سبب بھی بنتی ہیں۔ صرف سردیوں میں شہد کی مکھیوں کو دوسرے علاقوں میں منتقل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن کسان خواتین اگر ایسا نہ کرسکیں تو شکر کے شیرے کے ذریعے ان کو خوراک کی فراہمی جاری رکھ سکتی ہیں۔ شہد کے فوائد بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر فریدہ افتخار نے کئی خوشگوار انکشافات کیے۔

برلن کے پروفیسر کلیمپرز کے مطابق ایک بڑا چمچ شہد غذائی اعتبار سے مرغی کے ایک انڈے کے برابر ہے۔ شہد دودھ سے چھ فیصد زیادہ توانائی رکھتا ہے اور اس میں زیادہ غذائی اجزاءشامل ہیں۔ شہد کی خوشبو بھی بہت اہم ہے کیونکہ اس سے منہ میں پانی آتا ہے جو نظام ہضم کو بڑھاتا ہے۔ شہد میں اینٹی آکسیڈنٹ بھی موجود ہوتے ہیں شہد جتنا زیادہ گہرے رنگ کا ہو اسی قدر زیادہ اینٹی آکسیڈنٹ ہونگے۔ جو جسم میں فری ریڈیکل کو ختم کرتے ہیں۔ یہ فری ریڈیکل صحت مند خلیوں کو نقصان پہنچا کر بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ یہ فری ریڈیکل جسم میں نظام ہضم، ماحولیاتی آلودگی، دھواں، سگریٹ اور سورج سے جلنے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور یہ فری ریڈیکل عمر بڑھنے کے اثرات کو زیادہ کرتے ہیں۔ سائنس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ شہد کو پرانے زخموں، جلنے کے زخم، گینگرین وغیرہ کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ افادیت شہد کی اینٹی بیکٹیریل خصوصیت کی وجہ سے ہے جس کا انحصار شہد میں موجود مختلف کیمیکل اجزاءپر ہے۔ اگر آپ کا گلا خراب ہے تو آپ شہد کے ایک چمچ میں لیموں کا رس ڈال کر استعمال کریں اس کے ساتھ پانی نہ لیں۔ یہ خوراک چار چار گھنٹے بعد لینے سے خراب گلا ٹھیک ہو جائے گا۔ اگر اس میں کالی مرچ بھی ڈال لی جائے تو گلے میں خون کا دورانیہ تیز ہو جائے گا اور جلد افاقہ ہوگا۔ شہد کے اندر پودوں میں موجود مختلف کیمیکلز بھی ہوتے ہیں اس لئے اگر خراب زخموں پر شہد کی پٹی رکھی جائے اور یہ عمل بار بار دہرانے سے زخم جلد مندمل ہو جاتا ہے۔ اگر جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی ہو جائے تو شہد کو پانی میں ملا کر پینے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شہد کا استعمال خون کی کمی، دمہ، گنجا پن، تھکاوٹ، سردرد، ہائی بلڈپریشر، کیڑے کا کاٹا، نیند کی کمی، ذہنی دباﺅ اور ٹی بی جیسے امراض میں بھی فائدہ مند ہے۔

مکالمہ برائے ترقی میں ڈاکٹر فریدہ افتخار کی شہد کی مکھیوں اور پولی نیشن سے متعلق دی جانے والی تفصیلی بریفنگ من و عن نذر قارئین کی جاتی ہے۔ شہد کی مکھیاں اڑنے والے کیڑے ہیں۔ پاکستان میں چار طرح کی مکھیاں پائی جاتی ہیں۔ ڈومنا مکھی، پہاڑی مکھی چھوٹی اور یورپی مکھی۔ پہلی تین لوکل پاکستانی مکھیاں ہیں۔ یورپی مکھی (Apis mellifera) آسٹریلیا سے لائی گئی تھی۔ ڈومنا اور چھوٹی مکھی کو پالنا ممکن نہیں ہے۔ پہاڑی مکھی اور یورپی مکھی کو پالنا ممکن ہے۔ سب سے اچھی مکھی یورپی مکھی ہے کیونکہ یہ دوسری مکھیوں کے مقابلہ میں زیادہ شہد پیدا کرتی ہے۔ شہد کی مکھیوں کو پالنے کے طریقہ کار کو مگس بانی یا اپی کلچر (Apiculture) کہتے ہیں۔

شہد کی مکھیاں پولی نیشن (Polination) میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ جب خوراک لینے کے لئے پھولوں پر جاتی ہیں تاکہ نیکٹر اور پولن جمع کرسکیں تو ان کے جسم کے ساتھ پھولوں کے زردانے (pollen) چپک جاتے ہیں پھر جب یہ مکھی دوسرے پھولوں پر جاتی ہے تو یہ زردانے اس پھول کے سٹگما پر گرتے ہیں اور چپک جاتے ہیں۔ پولن ٹیوب کے ذریعے یہ زردانے اووری کے اندر موجود اویول تک پہنچ کر بار آووری کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بیج اور پھل بنتا ہے۔ شہد کی مکھیاں انٹارکٹکا کے علاوہ کرہ ارض کی تمام جگہوں پر پائی جاتی ہیں اور پھول دار پودے جو پولی نیشن کے لئے کیڑوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ان میں پولی نیشن کے عمل میں مدد کرتی ہیں۔

تمام پھول دار پودے جو بیج اور پھول پیدا کرتے ہیں ان میں پولی نیشن بہت ضروری ہے اور اچھی پولی نیشن کے ذریعے پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے۔ زردانے کا ایک پھول سے دوسرے پھول پر منتقل ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ اس طرح بیج اور پھل بنتا ہے پھر بیج سے نئے پودے بنتے ہیں جو پودوں کی نسل برقرار رکھنے اور اس کرہ ارض پر زندگی کو قائم رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔

پولی نیشن مختلف قسم کی ہوتی ہے ایک تو خود زیرگی (Self Pollination) ہے جس میں ازخود پھولوں کے زرگل سٹگما پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ دوسری بارزیرگی (Cross Pollination) ہے جس میں ایک پھول سے دوسرے پھول پر جو ایک ہی پودے پر موجود ہوں یا مختلف پودوں پر موجود ہو زرگل (Pollen) منتقل ہوتا ہے اس کے لئے پولی نیٹرز (Pollinators) کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام یا تو ہوا، پانی یا کشش ثقل کی وجہ سے ممکن ہے یا مختلف جاندار جس میں حشرات الارض شامل ہیں کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔ ان میں شہد کی مکھی، تتلی، ماتھ، مکھیاں اور پرندے شامل ہیں حقیقت میں یہ جاندار پودوں سے اپنی خوراک لیتے ہیں مگر پولن ان کے جسم کے مختلف حصوں کے ساتھ چپک جاتا ہے اس طرح ایک پھول سے دوسرے پھول پر جانے سے یہ پولن بھی ٹرانسفر ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں بیج اور پھل بنتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں میں مختلف خاصیتیں پائی جاتی ہیں جو ان کو اچھا پولی نیٹر (Pollinator) بناتی ہیں۔ شہد کی مکھی کے جسم پر چھوٹے چھوٹے بالوں کی موجودگی جن کے ساتھ پولن چپک جاتا ہے۔ ان کی پچھلی ٹانگوں میں ٹوکریاں (Pollen Basket) بنی ہوتی ہیں جن میں پولن جمع کرتی ہیں۔ شہد کی مکھی پھولوں کو زخمی نہیں کرتی ہیں۔ شہد کی مکھی کو سال کے تمام دنوں میں پولن کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف پھولوں پر جاتی ہیں اور انہیں پولی نیٹ کرتی ہیں۔شدید موسم میں بھی اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔

شہد کی مکھیاں اپنی ضرورت کے مطابق یا تو نیکٹر جمع کرنے پر زیادہ توجہ دیتی ہیں یا پھر پولن جمع کرنے پر زیادہ توجہ دیتی ہیں ۔ مکھیاں جب نیکٹر جمع کرتی ہیں تو بھی پولی نیشن میں مدد کرتی ہیں مگر جب پولن جمع کررہی ہوتی ہیں تو زیادہ اچھے پولی نیٹر (Pollinator) کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اس بات کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ انسانی خوراک کا 1/3 فیصد حصہ کیڑوں کے ذریعے پولی نیشن پر انحصار کرتا ہے جس میں زیادہ کردار شہد کی مکھی اور خصوصاً یورپی مکھی کا ہے۔ بہت سے ممالک میں شہد کی مکھیاں پالنے والوں کو معاوضہ دیا جاتا ہے کہ وہ پودوں کی پولی نیشن ک لئے شہد کی مکھیاں مطلوبہ فصلوں پر رکھ دیں۔ فصلوں پر بہت زیادہ سپرے کی وجہ سے شہد کی مکھیوں اور دوسرے پولی نیٹرز کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
Shumaila Javaid Bhatti
About the Author: Shumaila Javaid Bhatti Read More Articles by Shumaila Javaid Bhatti: 15 Articles with 10636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.