پھر حج کا موسم آیا

سب سے پہلے حلقہ درس کی ساتھی کشور ظفر نے بتا یا کہ میں حج پر جا رہی ہوں ! حج کا موسم آ گیا !!
فورا دل میں خیال آ یا بالکل اس طرح جیسے کوئل کی کوک موسم بہار کی آ مد کی اطلاع دیتی ہے جبکہ در حقیقت موسم بہار کا ہو یا حج کا اس کی تیاری پورے سال پر محیط ہو تی ہے ۔ یہ بات وہ لوگ بہت بہتر سمجھ سکتے ہیں جو اس سارے عمل کا حصہ ہوتے ہیں خواہ وہ منتظمین میں سے ہوں یا حج پر جانے والے ! لیکن وہ جو ایک دفعہ بھی اس مقدس سفر پر چلا جائے اس کے دل کی ایک دھڑ کن وہیں رہ جاتی ہے اور پھر وہ وہا ں کی ہر جنبش سے vibrate ہوتی ہے!کبھی کسی خوشبو کا جھونکا ،کبھی کوئی آواز یا کوئی تصویر یا کوئی بھی چیز وہاں پہنچادیتی ہے خواہ کتنا ہی فا صلہ ہو یا وقت گز رجائے!

ہمیں حج کیے ہوئے دو سال ہو چکے ہیں مگر اس کا ایک ایک لمحہ یادوں میں اسی طرح تازہ ہے! محو ہونا بھی چاہے تو نہیں ہو پا تا !! الماری کے اوپر رکھا سیاہ رنگ کا سوٹ کیس جس کے ھینڈل میں نشا نی کے طور پر بندھی کپڑے کی دھجی جو آ غاز سفر میں باندھی گئی تھی ، کمرے میں رکھی ہو ئی سیاہ چپل جو 160 روپے میں حاجی کیمپ سے خریدی گئی تھی اور جس پر حج کا پورا سفرطے ہوا کبھی بھولنے دیتی ہے؟ جوگرز اور سینڈل جو خاص حج کے دنوں کے لیے خریدے گئے تھے یوں ہی دھرے کے دھرے رہ گئے اور اس چپل نے ہمارے ساتھ حج کے تمام ارکان ادا کر لئے۔ اس کا پس منظر عرض ہے کہ 7ذو الحج کو جب ہم سب منٰی جانے کو نہا دھو کر تیار تھے چائے کا پرو گرام بنا ۔چائے صبح شام بنائی اور پی جاتی ہے مگر اس وقت کچھ انہونی یوں ہوئی کہ گرما گرم چائے ہمارے پاﺅں پر اس بری طرح سے گری کہ آنکھوں کے آگے تارے آ گئے ۔ تکلیف اور اس سے بھی زیادہ اس بات پر آ نسو کہ اس زخمی پیر کے ساتھ کیسے ارکان ادا ہو سکیں گے؟ اب تو موقع آ یا تھا حج کے لیے کشید کی گئی توا نائی کو استعمال کر نے کا؟ ایمر جنسی سی ایمر جنسی رہی! خیر اﷲکا شکر کہ سوائے اس کے کہ طواف اضافہ وہیل چئیر پر کر نا پڑا باقی تمام ارکان بخیر و عافیت اسی پاﺅں اور چپل کے ساتھ ادا ہو ئے۔ آج پاﺅں کے اس حصے پر جلنے کا کوئی نشان نہیں ہے مگر بہر حال چپل کا حاجی ہونے کااعزاز برقرار ہے ! کمرے میں پاپوش پر رکھی اس چپل کا فخر کبھی اس سفر کی یاد کو ماند نہیں ہو نے دیتا! اور ساری چیزوں کو چھو ڑیں توکبھی ہماری دراز میں رکھی ساختہ مصر کی بینڈیج کا پیکٹ( جو استعمال کے بعد بچ گیا تھا ) ہمیں منٰی اور عرفات اور مکہ پہنچا دیتا ہے۔

اس ایک خا ص واقعے کے علاوہ بھی یادوں کا ایک سمندر ہے جو کبھی خشک نہیں ہو تا ! کبھی بستر پر لیٹے لیٹے خود کو شہر مکہ کے ایک علاقے النزھة میں شاہراہ منصور پرواقع نو منزلہ بلڈنگ برج ایمن کے چوتھی منزل پر واقع ایک کمرے میں موجود پاتی ہوں جہاں سات خواتین قیام پذیر ہیں ! اس کمرے کی موجود واحد کھڑ کی جس سے بہت دور تک کا منظر صاف اور واضح نظر آ تا تھا ۔کیونکہ یہ عمارت نسبتا مضافاتی علاقے میں تھی چنانچہ دور تک محض ٹیلے اور پہاڑیاں تھیں جن میں لڑکوں کی ٹو لی کبھی کبھی کھیلوں میں مصروف رہتی تھی۔ ہم اکثر اے سی آ ف کر کے کھڑ کی کھول کر اس خوشبو اور منظر کو اپنے اندر جذب کر نے کی کوشش کرتے جو ہمیں اس زمانے میں لے جا تا جب محمدﷺ یہاں موجود تھے!!

کتنی حیرت انگیز خوشی کی بات ہے کہ ہمارا یہاں قیام پورے ایک ماہ کا رہا! 26 ۱کتوبر سے 27نومبر تک! گویا ہم یہاں مکین تھے !قصر کے بجائے پوری نمازیں ادا کر رہے تھے۔ رسول اﷲﷺ جہاں ترپین سال رہے وہاں ہم ایک ماہ رہ کر ان کے محبوب شہر کے مکین ہونے کا فخر رکھتے ہیں ! اس یقین کے ساتھ کہ ہم نے ان کی دعوت پر لبیک کہا ہے ،اﷲ ہمارا انجام بخیر کرے!

کمرہ یاد آ یا تو وہاں کے ساتھی مکین بھی ! عمر، مزاج ، ذوق کی اقسام کے باوجود ایک لڑی میں پروئے ہوئے تھے ہم سب !فاطمہ نے سب سے کم عمر ہونے کے باعث کمرے کی صفائی کی ذمہ دار ی رضاکارانہ طور پر اپنے اوپر لی ہوئی تھی۔ قالین کو گتے کے ٹکڑوں سے صاف کر نا آسان نہ تھا مگر بقیہ خواتین اس کو سراہنے کے باوجود اس کی مدد کرنے سے قاصر تھیں بوجوہ تقاضائے عمر اور صحت ! عمر پر یاد آیا جب پہلی دفعہ گروپ کے ارکان ملے تو ایک خاتون کی دوسرے کوآ نٹی کہنے پر بد مزگی ہوتے ہوتے بچی (بزرگی کی قبا کوئی پہننے کو تیار ہی نہیں ہوتا!!)مگر فوراہی اس کا ڈراپ سین ہوگیا جب ہنس کریہ ظاہر کیا گیاکہ جیسے لڑکیاں مذاق میں اپنی دوستوں کو آ نٹی یا ہم عمر کو بیٹا کہہ کر پکارا کرتی ہیں شکر ہے !ورنہ اس تلخی کے ساتھ ایک کمرے میں رہنا کتنا تکلیف دہ ہو تا؟

ممتاز مفتی نے گھروالوں کے آپس میں تعلقات کے بارے میں ایک جگہ لکھاتھا کہ یہ یا تو الماری میں رکھے سامان کی طرح ہو تے ہیں کہ ہر چیز الگ الگ کر کے رکھی جا تی ہے یا پھر ہا نڈی کی طرح ہو تے ہیں جس میں تمام مصالحہ جات آپس میں یکجان ہو کر مزہ اور ذائقہ دیتے ہیں !اور ہمارا کمرہ گویا چولہے پر دھری ہا نڈی کی طرح تھا ۔ چولہے کے ذکر پر اس بلڈنگ کا الیکٹرک چو لہا یا د آ یا جو ہر کچن میں موجود تھا اور جس پر محض کھاناگرم یا چائے بنائی جا سکتی تھی مگر ذہین پا کستا نی قوم کا کیا کہنا !اس پر بڑے تجربے کیے جا رہے تھے اور پھر وہ ایک دن غا ئب بھی ہو گیا ۔ ابھی تو یہ بہت معمولی بات لگ رہی ہے مگر اسوقت اس کے بغیر کافی مسائل ہوئے تھے۔ مسئلے پر یاد آ یا ہمارے کمرے کے با ہر ایک شاندار محل وقوع کا واش روم تھا مگر اس میں کنڈی نہ تھی لہذا کوئی اندرہوتا تو دو سرا باہر چوکیداری کے لیے موجودہوتا اور اگر یہ ممکن نہ ہو تا تو واشنگ مشین دروازے کے ساتھ لگانی پڑجا تی ۔ایک دفعہ دوسرے فلور والے موقع سے فائدہ اٹھا کر واشنگ مشین لے گئے کہ یہاں تو استعمال ہی نہیں ہو رہی۔ بڑی مشکل سے بازیاب کروائی کہ یہ تو ہمارے دروازے کی سیکورٹی ہے!

اس جملہ معترضہ کے بعد یہ کہنا ہے کہ ساری خواتین کے شیر و شکر ہونے کی وجہ سے ہمارا کمرہ توجہ کا مرکز بن کر رہ گیا تھا۔ خوش ذوق، خوش باش گفتگو کی شوقین زینب خضر تو گویا انسائیکلو پیڈیا تھیں تو ہر ایک کی خیر خواہ خاتون بیگم المعروف خا لہ ( یہ واحد خاتون تھیں جو اس لقب پر بظا ہر معترض نہ تھیں ) ، سگھڑ اور میٹھی زبان والی صبیحہ ، کم گو اور سادہ مزاج زبیدہ ،سب کی معاون اور مددگار رضیہ اور فاطمہ ! ہماری خوبی لکھاری ہونے کے سوا کچھ نہ تھی کہ جس کو جان کر بقیہ سب ہم سے تعلقات اچھے رکھنے پر مجبور تھے کہ ہمارے بارے میں کچھ نہ لکھ دیں ! (اپنے قلمکار ہونے کا ہم نے کسی کو نہ بتا یا تھا مگر رات کو جب ڈا ئری میں تمام دن کی روداد لکھ رہے ہوتے تو سب ہم کو بتارہے ہوتے کہ آ پ یہ بھی لکھیں ،افسوس کہ وہ ڈائری رمی کے دوران ہم سے بچھڑ گئی اور روداد حج یادداشت کی بنیاد پر لکھنی پڑی )
یہ ہفت رنگ کمرہ اس وقت اور چہک اٹھتا جب برابر کے کمرے سے ہمارے گروپ کی بقیہ ساتھی ثنائ، فوزیہ،نادیہ اور ذکیہ آجا تیں ۔ کبھی ایک ساتھ یا کبھی اکیلے اکیلے! یہاں اس کمرے کی رونق ایسی تھی کہ ہر وقت کہنے اور سننے والے موجودرہتے تھے۔ ہم سب حج کے مقدس سفر میں تھے لہذا ہر دلچسپی اور گفتگو کا محور اسی کے گرد رہتا تھا مگر پھربھی انسانی جبلتّ کے ہاتھوں خواتین ہونے کے ناطے اور خصو صا کھانے پکانے اور گھریلو مسائل سے بری ہونے کے باعث عام گفتگوکے لیے بھی وافر وقت ہوتا جس میں شعر و شاعری و شکاریات سے لے گھریلو ٹو ٹکے تک شامل ہوتے ۔ ہم تو جلد سونے والوں میں تھے ایک دن آ نکھ کھلی تو صابن بنا نے کی ترکیب بتائی جا رہی تھی ۔ ہم نے چونک کر گھڑی دیکھی تو گیارہ بج رہے تھے۔ ہم کو اٹھتے دیکھ کر قصہ گو اور سامعین جلدی سے کمبل اوڑھ کر سونے لگے کہ اب بقیہ باتیں بعد میں ہو ں گی۔ مسکرا کر ہم نے بھی کروٹ لے لی تھی جب کوئی شاپنگ کر کے آ تا تو ایک بازار یہیں سج جاتا۔بھاﺅ تاﺅ سے لے کر پسند ناپسند تک ،پھر اس سامان کے سوٹ کیس میںبند ہونے اور نکلنے کے مراحل بار بار دہرائے جاتے حتٰی کہ سب اس کو evaluate کر لیتے!

دیکھا آ پ نے قارئین ! ایک موتی اٹھاﺅ تو یادوں کی پوری لڑی سامنے جگمگا اٹھتی ہے ۔ اس کو یہیں چھوڑ کر موضوع پر آ تے ہیں
یعنی اس سال کا حج جس سے اس کالم کا آ غاز ہوا تھا!

پھر تو ہرطرف سے حج پر روانگی کی خبریں آ نے لگیں ۔گلی ، محلہ،خاندان، حلقہ درس، آشنا نا آ شنا ! جوق در جوق ،گروپ در گروپ ! اظفر اور نگہت پچھلے سال محروم رہ گئے تھے اس سال ماشاءﷲسعادت حاصل کر رہے ہیں ۔ رابعہ کے بھائی بھابھی ننھے بچوں کو ان کے حوالے کر کے جارہے ہیں تو نصرت اپنی بہن بہنوئی کی روانگی کے بعد بچوں کی دیکھ بھال کر کے اجر کما رہی ہیں ۔فرحانہ کی بیٹی سعودی عرب میں ہیں وہ اس کے پاس جانا چاہ رہی تھیںاس طرح کہ حج سے بھی مستفید ہو سکیں مگر کچھ مسئلہ اٹک سا گیا تھا ۔بالآ خر 4 ذو الحج کو وہ بھی روانہ ہو گئیں الحمد ﷲ! دنیا کے ہر کونے میں ہلچل مچ اٹھی ! کوئی امریکہ سے جا رہا ہے تو کوئی کینیڈا سے ! بر طانیہ سے جانے والوں کی بھی کمی نہیں ! ایک لہر ہے جس نے پورے گلوب کو لپیٹ رکھا ہے ! کچھ خواتین و مرد بیرون ملک جارہے ہیں اپنی اولاد کی اولاد کو سنبھا لنے کہ وہ اس مقدس دورے پر جا سکیں جبکہ کچھ اپنے چھوٹے بچوں کو وطن لا کر اپنے عزیزوں کے پاس رکھ کر خود اطمینان سے حج پر جارہے ہیں !! کچھ اپنے بچوں کو حالت امتحا ن میں اور کچھ بیماری میں! جب سفر کا اذن مل جائے تو کوئی بھی رکاوٹ نہین رہتی ۔ یہ ہی تو فلسفہ قر بانی ہے !!

اب ہونا تو یہ تھا کہ اتنے عظیم اور عالمی اجتماع کے ہر پل کی خبر میڈیا فراہم کر کے اس سے دابستہ مقاصد کو واضح کیا جاتا۔ جذبات کو مہمیز کیا جا تا ! لبیک کی صداﺅں سے فضا ئیں گونجنا شروع ہو جاتیں ۔حج کی update فراہم کی جاتی !دنیا میں کہیں بھی 30لاکھ سے زیادہ لوگ جمع ہوں اور کوئی خبر نہ ہو ! مگر یہ ہمارا میڈیا تھا اور ہے جو T 20جیسے معمولی پروگرامز میں لوگوں کو الجھائے رکھتا ہے،اس سے فر صت ملے تو انڈیا کے اور غیر ملکی مردہ اور زندہ فنکاروں کی موت او پیدائش کے دن لے کر بیٹھ جا تا ہے ۔ کیا دنیا میں حج سے بڑا اجتماع ممکن ہے ؟؟؟؟ یقین کریں اگر یہ ان کفار کے پاس ہو تا تو وہ خوشی سے پاگل ہوتے۔! کیونکہ یہ ہی موقع تھا جب دین کے مکمل ہو نے کی سعادت ملی تھی ۔اسی دن دنیا کا سب سے پہلا انسانی چارٹر عطا ہوا تھا۔ عورتوں کے حوالے سے جامع اور بہترین حقوق ملے تھے ! دنیا کا کوئی بھی مذ ہب یہ نہیں رکھتا ! دیگر مذاہب کے پاس سوایے سالگرائیں منانے کے کچھ بھی نہیں ! قربانی کی جتنی خوبصورت مثال ہمارے پاس ہے اگر ان کو نصیب ہوتی تووہ بے چارے انڈے رنگ رنگ کر تہوار منا رہے ہو تے یا کدو چھیل چھیل کر زیمبیز نہ بنا رہے ہو تے!!کیا ہمیں اس کا احساس ہے ؟ یقینا ہے !جبھی تو جوق در جوق لوگ اس سفر پر روانہ ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ان شا ءاﷲ! مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کی روح کو سمجھ نہیں پا رہے۔

اگر میڈیا کا جائزہ لیں توذو الحج کا مہینہ شروع ہونے کے بعد بھی وہی بھیڑ چال !سارے حاجی حج کو پہنچ چکے ہیں ! فضائیں لبیک کی آوازوں سے گونج رہی ہیں اور ہمارا میڈیا زیمبیز کی تیاری کی خبریں دے رہاہے! کراچی اور کونے کونے میں ہونے والے فیشن شوز کی خبریںاور رپورٹ دے رہا ہے ۔ عید الضحٰی کے حوالے سے جانوروں کی گرانی اور بکرامنڈیوں میں ان کی کیٹ واک سے آ گے نہیں بڑھ پا رہا۔ رپورٹ بھی ہو تی ہے تو یہ کہ بچوں سے سوال کہ آپ اتنی محبت کررہے ہیں تو کیا ان کو کاٹ کر افسوس نہیں ہو گا ؟؟ یعنی سارا زور اس بات پر کہ کہیں قر بانی ، مشقت اور دین کے لیے کٹ مر نے کا جذ بہ نہ بیدار ہو جائے ! لوگ مہنگائی کا رونا سن کر قربانی سے رک جائیں !

یادش بخیر کبھی واحد چینل ہوتا تھا مگر رمضان سے ہی حج کی تیاری اور مدینہ منورہ کی تعمیرکی فلم آناشروع ہو جاتی تھی ۔بار بار ایک ہی فلم دیکھ کر بھی دل نہ بھر تا تھا! بلکہ شوق اور لگن پیدا ہو جاتی تھی ۔اور آ ج ستر سے زیادہ چینل ، ہر بچے کے پاس موبائیل ! جدید ترین ٹیکنالو جی مگر حج کے نام پر کوئی خبر چل جاتی ہے یا پھر کسی مولانا کو بٹھا کر تقریر ! اﷲ اﷲخیر صلا! نہ کوئی جدت کا استعمال نہ کسی قسم کی تخلیقی صلا حیتوں کو آ زمانا !

نا معقول اور فضول رسومات کو اتنا گلیمرائزڈ کرنا اور حقیقی وروحانی واقعات کو بھولی ہوئی داستان بنا دینا ! کمر شلائزیشن کے باوجود حج کا اس کی قدر سے کم اہمیت دینا ! کیا دین و دنیا کے الگ ہونے کی ذہنیت کا مظا ہرہ نہیں ہے ؟؟

چا ر ہزار سال سے جا ری ایک رسم جو تا ابد قائم رہے گی کاکتنے زاویوں سے جا ئزہ لیا جا سکتا ہے ، پیش کیا جاسکتا ہے ؟ کیا اس چیلنج کو ہم قبول کر تے ہیں یا صرف افسوس کرتے رہیں گے؟ دل ان ہی سوچوں میں مصروف تھا کہ ایک دن جیو ٹی وی سے اچانک ہیڈ لائنز میں حاجی کا ترانہ ،تلبیہیہ گونجنے لگی۔ ابھی ہم جوابی لبیک کہہ بھی نہ پائے تھے کہ ایک آدمی کو حالت احرام میں دکھایا گیا اور پھر بریکنگ نیوز نشر ہوئی کہ عامر خان ( انڈین اداکار) کی فریضہ حج کیادائیگی کے لیے روانگی!! اناّ ﷲ! کیا اب حج کی خبر بھی انٹر ٹنمنٹ کے طور پر سنی جائے گی! جو لاکھوں لوگ پہنچے ہیں وہ کوئی بریکنگ نیوز نہیں ؟ کیا اس سے بڑا event کوئی اور ہو سکتا ہے؟؟ کچھ دن بعد خبر آ ئی کہ شا ہد آ فریدی حج پر روانہ ! کھیل کے شائقین بھی خوشی سے جھوم اٹھے! کسی کا رب سے تعلق چیک کر نا ہم میں سے کسی کا بھی منصب نہیں مگر حج کو ایسے افراد سے یاد کرنا جن کی شہرت لہو و لعب ( کھیل اور تماشا) ہو کیا مذاق نہیں !!!

المختصر یہ کہ کیا ہم اس عظیم الشان عبادت کو جو شیطان پر اصلی اور بڑی ضرب لگا تا ہے ۔ دل و دماغ کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں ؟؟

اﷲ کرے کہ آ ئندہ جب حج کا موسم آئے تو حقیقی بہار دکھائے!!
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 80547 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.