اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کا نظام
اسباب کے ساتھ جوڑا ہے۔ اسی لیے اسے دارالاسباب کہا جاتا ہے۔ علت و معلول
اس دنیا میں لازم و ملزوم ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی مشیت و قدرت کسی سبب
کی محتاج نہیں۔ وہ جیسا چاہتے ہیں، جب چاہتے ہیں، بغیر اسباب کے اپنی قدرت
سے کرتے ہیں۔ لیکن عمومی طور پر نظام ِکائنات میں حکمتِ الہٰیہ یہی کارفرما
نظر آتی ہے کہ ہر علت کا کوئی معلول بھی ضرور ہوتاہے ۔ کامیابی ہے تو ضرور
اس کے پیچھے صحیح نہج پر اَن تھک محنت اور اخلاص بھی ضرور ہو گا۔ ناکامی ہے
تو اس کے پیچھے کاہلی اورطفیلا پن بھی ہو گا۔
کوئی قوم روز بروز ترقی کے مدارج طے کر کے بام عروج پر پہنچ رہی ہے اور
اپنی سربلندی کے پھریرے دنیا میں لہرا رہی ہے تو یہ ترقی اور سربلندی اس
قوم کو پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی گئی ہے بلکہ اگر کھوجا جائے تو اِس کے
پیچھے کئی نسلوں کی اَن تھک محنت، فکراوراپنے مقصد سے عشق نظر آئے گا۔اس
قوم میں باہمی اتحاد اورجوش و جذبہ کے ساتھ تحمل و تدبر کی غیر معمولی صفات
بھی ضرور ہوں گی۔اس کے برعکس ایک قوم ماضی کی رفعتوں کے گیت گارہی ہو لیکن
حال یہ ہو کہ پستی میں پاتال کو شرما رہی ہو اورذلت میں سر تا پا غرق ہو تو
یقین جانیے اس کی وجہ تقدیر یاصرف دشمنوں کی ریشہ دوانیاں نہیں بلکہ یہ ذلت
و پسپائی اس قوم کی کاہلی، طفیلا پن اور باہمی انتشار کی نشانی ہے....
اب مندرجہ بالا دونوںمثالوں کو آپ ملک عزیز پاکستان اور پاکستان کے بدخواہ
ممالک پر منطبق کیجیے تو آپ بخوبی جان جائیں گے کہ ہماری انتہائی پستی کی
وجہ کیا ہے اور جن کو ہم اپنا حریف سمجھتے ہیں، ان کی سربلندیوں کی وجہ کیا
ہے؟ یہ بات نہیں کہ ہمیں اسباب نہیں دیے گئے ہیں۔ ہم پر تو قدرت کی بے بہا
فیاضیاں ہیں، بلکہ شاید میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ قدرتی نعمتوںمیں
پاکستان کے خطہ کا پوری دنیا میں کوئی مقابل نہیں.... ایک چھوٹے سے خطہ میں،
اتنے قدرتی مگر متنوع وسائل کا ایک ساتھ جمع ہونااور پھر ان کو برتنے کے
لیے صلاحیتوں سے مالا مال ایک انبوہ کثیر....! بے شک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں
کو کون جھٹلا سکتا ہے!.... لیکن پینسٹھ سال میں ہوا کیا، ہم پوری دنیا میں
تو کیا صرف اپنے خطہ جنوبی ایشیا میںبھی کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھا
سکے۔یہاں کوئی یہ نہ کہے کہ ہم ایٹمی قوت بن گئے ہیں جو دنیا میں ہمارے
علاوہ صرف چھ ممالک کے پاس ہے! تو جناب یہ مناسب دلیل نہیں کیوں کہ اپنے
غیر سب جانتے ہیں کہ ہمارا ایٹمی قوت بننا محض بھارت کی اسلحہ کی دوڑ کے
ردعمل کے طور پرایک دباو ¿ کا نتیجہ تھا۔ اگر مخصوص حالات و عوامل نہ ہوتے
، تو ہم ایسا سوچتے بھی نا، کیوں کہ ٹیکنالوجی کا تعلق تو تعلیم کے ساتھ ہے
اور تعلیم کا ہمارے ملک میں یہ حال ہے کہ پوری دنیا کی پانچ سو بہترین
یونیورسٹیوں میں ایک بھی پاکستان میں نہیں....اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ
تمام عالم اسلام کا یہی حال ہے جس کا پاکستان بزعم خودلیڈر بنتا ہے۔ ایک
حالیہ جائزے کے مطابق دنیا بھر میں ایک سال کے دوران شایع شدہ ایک کروڑ
پندرہ لاکھ (11.5 ملین)تحقیقی مقالہ جات میں اسلامی ممالک کے مقالات کی
تعداد محض دو فیصدکے قریب ہے۔بدقسمتی سے اس معاملے میں ہم باقی دنیا سے بہت
پیچھے بلکہ دوڑ کے میدان میں شامل ہی نہیں۔ آپ ایمانداری سے اپنے چاروں طرف
دیکھ لیجئے، کیا آپ موجودہ دور کی کسی بھی ایسی اختراع کو پاکستانیوں یا
مسلمانوں کی ایجاد کہہ سکتے ہیں جس سے ساری دنیا مستفید ہورہی ہو؟
ہمارے پاس اٹھارہ کروڑ کی آبادی کا تین چوتھائی جوانوں کی صورت میں موجود
ہے لیکن یہ وہ نوجوان ہیں جو بے سمت خود رَو جھاڑیوں کی طرح بڑھ رہے ہیں۔ان
کی اکثریت کو قلم پکڑنا نہیں آتا، ہاں اسلحہ استعمال کرنا خوب جانتے ہیں۔
اور بات یہیں تک رہتی تو غنیمت تھی، اب تو پچھلے دو تین سالوں سے تواتر کے
ساتھ ایک مذاق یہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میںاچانک ایسے افراد سامنے آ
رہے ہیں جو بڑے دھڑلے سے سائنس کے میدان میں کسی دھماکے دار ایجاد کا دعویٰ
کرتے ہیں۔ اورستم پر ستم یہ ہے کہ ان کے دعوے کو سائنسی انداز میں پرکھے
بغیر مین اسٹریم میڈیاوہ دھمال مچاتا ہے کہ یہ دعوے دارراتوں رات شہرت کی
بلندیوںپر پہنچ جاتے ہیں.... لیکن صرف چند مہینوں کے بعد تجربات سے یہ ثابت
ہوجاتا ہے کہ یہ دعوے محض ڈھکوسلے تھے۔مثال کے طور پر 2011ءمیں پنجاب کے
شہر سرائے عالمگیر کے رہائشی غلام سرور نے صرف ایک پیالی پانی سے گاڑی کو
ایک ہزار کلومیٹر چلانے کا دعویٰ کیا اور مقامی و قومی سطح پر خوب مقبولیت
پائی۔ قومی سطح کے اخبار ات نے تو اس ایجاد کو فروغ نہ دینے پر حکومت
پاکستان کی خوب مذمت کی اور دعویٰ کو جانچنے کا انتظار کیے بغیر دھڑا دھڑ
کالم شایع کیے۔غلام سرور کے بعد ایک نوجوان عمار افضل صاحب کو بھی ایک
جینئس کے طور پر میڈیانے پیش کیا۔دعویٰ یہ کیا گیا کہ عمار کی ”صلاحیتوں“
سے براہ راست امریکہ نے کسبِ فیض کیا اور اس مسئلے کو جسے دنیا بھر میں
کوئی حل نہ کر سکا، برخوردار عمار نے چند منٹ میں حل کر دیالیکن ....بعد
میں اس کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی اورمعلوم یہ ہوا کہ سب فراڈ اور جھوٹ
تھا۔یوں عمار صاحب بھی ایک جینئس فراڈ یے ثابت ہوئے۔عمار کے بعد جولائی
2012ءمیں ایک بار پھر میڈیا میںخیر پور سے تعلق رکھنے والے آغا وقار کے
حوالے سے پانی سے چلنے والی کار کا تذکرہ شروع ہوا ۔ انہوںنے ایک ایسی کار
بنانے کا دعوی کیا جو کلی طور پر اپنی توانائی پانی سے اخذ کرتی ہے اور
بغیر کسی ایندھن کی موجودگی کے باآسانی چارج بھی ہو جاتی ہے۔ سندھ سے تعلق
رکھنے والے اس جوان کو نا صرف میڈیا ہیرو بنا کر پیش کرتا رہا بلکہ اس بار
یہ دعویٰ قوم پرستی کو فروغ دینے کا بھی ایک ذریعہ بنا۔ کیوں کہ آغا وقار
کی لسانی شناخت کوخوب ابھارا گیا اور سندھ کے وزیر قانون نے اس ایجاد کو
سندھی قوم کی صلاحیت کا ایک نمونہ قرار دیا۔
اپنے پیش رو کے مقابلے میں آغا وقار صاحب ٹی وی شوز میں بڑی باتیں کرتے
دکھائی دیے،مثلاً یہ تھیوری کہ پانی کو برق پاشیدگی کے ذریعے گیسوں میں توڑ
کر بطور ایندھن انجن میں چلایا جا سکتا ہے، خالص ان کی انقلابی تھیوری
ہے۔یہ ایسا کھلاجھوٹ تھا جو شاید پاکستان میں ہی بولا جا سکتا ہے۔ آج سے
ڈیڑھ سو سال پہلے کے سائنس دان بھی یہ جانتے تھے کہ پانی کو گیسوں میں توڑا
جا سکتا ہے اور انجن میں جلایا جا سکتا ہے اور آج سے پچاس سال پہلے پانی کے
ذریعے یورپ میں گاڑی چلانے کے کئی کامیاب تجربے بھی ہوچکے ہیں ، جس کے بارے
میں انٹرنیٹ پر خاصا مواد موجود ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ کوئی روکٹ سائنس
نہیں ہے، مگر بات یہ ہے کہ یہ طریقہ بڑے پیمانے پر اور ایفی شینسی کے ساتھ
قابلِ عمل نہیں ہے ورنہ امریکہ، جاپان جیسے کارساز ممالک جن کے پاس بے پناہ
وسائل بھی موجود ہیں، اب تک اس میں کامیاب ہو چکے ہوتے۔اس کے برعکس ہمارے
پاکستانی موجدتمام ثابت شدہ سائنسی اصولوں کو ڈھا کر بغیر کسی توانائی کے
صرف پانی سے کلی طور پر انجن چلا نے کا دعویٰ کر رہے تھے، اور اسے انتہائی
سستا اور قابل عمل میتھڈ بھی بتا رہے تھے! یہاں تفصیل کا موقع نہیں کہ
سائنس دانوں نے ان بے نظیر دعووں کا جو پوسٹ مارٹم کیا ہے، وہ پیش کیا جائے
لیکن اب بہرحال اس کا بکواس ہونا ثابت ہو چکا ہے۔
بات گھوم پھر کر وہیں آ جاتی ہے کہ بے شک ہمارے پاس بہترین صلاحیتوں والے
نوجوان موجود ہیں، مثال کے طور پر دس سالہ ارفع کریم مرحومہ، بارہ سالہ
بابر اقبال، تیرہ سالہ موسیٰ فیروز، پندرہ سالہ شاداب رسول اور سترہ سالہ
شاہ زیب حسین کا نام لیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنی کم عمری میں ہی دنیا بھر
سے اپنی صلاحیتوں کو منوا لیا۔ انہوں نے جھوٹے دعوے کرنے کی بجائے اپنے کام
سے دنیا کو متاثر کیا جس کے نتیجہ میں ان کودنیا کے انتہائی معتبر اداروںسے
ایوارڈ اور سرٹیفیکٹ ملے ہیں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ملک کا نام روشن کرنے
والے ان ہونہار بچوں کی صلاحیتوں کو ہمارے میڈیا نے اس طرح ہائی لائٹ نہیں
کیا جس طرح ان ایجادیوں کو کیا ہے جن کے عجیب وغریب دعوے پاکستان کی جگ
ہنسائی کا باعث بنے ۔ یہ چند بچے ہمارے لیے فخر کا باعث ہیں لیکن درحقیقت
یہ سارے بچے اپنے والدین کی انفرادی توجہ اور خاص ماحول کی وجہ سے سامنے آ
سکے ہیں، ورنہ کروڑوں کی آبادی کے اس ملک میں عمومی طور پرعلم و تحقیق کے
لیے ایسی سازگار فضا نہیں کہ قابل جوہر چھٹ کر اوپر آ سکے اور اپنا اور
اپنے ملک کا نام روشن کر سکے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کے رجحان کے پیش نظر ان کے روشن مستقبل کے لیے
راہیں تلاش کی جائیں۔ انہیں فنون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہترین
سہولیات مہیا کی جائیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں نقائص کی
وجہ سے بچوں کے رویے اور رجحانات کو جانچا اور پرکھا نہیں جاسکتا۔ اگر ہم
اپنے تعلیمی نظام کی خرابیوں کی نشان دہی کر کے ان کا حل تلاش کرلیں، اگر
ہم اپنے ملک میں ایک بھی عالمی معیار کی جامعہ بنا سکیں ،جہاں ذہین اور
صلاحیت مند طلباءکو میرٹ کی بنیاد پر ہر طرح کی سہولیات دی جائے تا کہ وہ
خالص علمی انداز میں تحقیق کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے طلباءکوئی ایسا
اچھوتا کام کر کے دکھائیں جو دنیا بھر میں ہمارے لیے سبکی کے بجائے فخر کا
موجب بن سکے۔
آخر میں جون ایلیا مرحوم کے مضمون سے ایک اقتباس:”تم نے تاریخ سے ایسا کون
سا معاہدہ کیا ہے کہ تم وقت سے ہٹ کر چلو اور وقت تمہیں راستہ دے دے۔ کیا
ہنر کی نقالی ہنر سے جیت سکتی ہے؟ کیا خریدی ہوئی مہارت حقیقی مہارت کا
سامنا کر سکتی ہے؟ |