اسلام کی سچائی اور اعترافِ سائنس

اسلام کا سورج چودہ سو سال پہلے عرب میں طلوع ہوا تھا اور یہ ایسا سورج ہے جس کی چکا چوند نے پوری دنیا کو روشن کر دیا۔ آنحضرتﷺ کی بعثت ہوئی تو اللہ نے آہستہ آہستہ اپنا کلام نازل کرنا شروع کیا۔قدرت کا خزانہ نعمتوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ نعمتیں کس کس شکل میں اور کہاں کہاں ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے مگر انسان اپنے عقل و دانش کے سہارے ان کی جستجو میں ضرور سرگرداں رہتے ہیںاور اس کوشش میں انہیں کافی ڈھیر ساری کامیابیاں نصیب ہوئیں ہیں۔ بلاشبہ کامیابیوں میں سائنس کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ سائنس دانوں نے ایسی کردار نگاری دکھائی ہیں جس کا لوگوں کو پہلے وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ اکثر یہ غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ سائنس قدرتِ الہٰی کی امور میں مداخلت کرتی ہے ، شاید ایسا نہیں ہے کیونکہ سائنس اور سائنسدان تو قدرت کی نعمتوں کی تلاش میں مصروف ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات بھی ہیں ان نعمتوں کا استعمال بجا یا بے جا کرتا ہے، کہیں وہ اپنے حد سے تجاوز تو نہیں کر رہا ہے؟ ان پر قبضہ کرکے اپنے سے کم ہمت انسانوں کو ان لوازمات سے محروف کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہا؟ جسیا کہ انسان ہر دور میں اپنے سرشت کے مطابق کرتا چلا آیا ہے۔ انسان تو ایسے موقعوں پر کوئی بھی حربہ اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیتا۔ اور نتیجہ تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں نکلتا۔

سائنس کی تحقیق کے مطابق کیسٹ کے فیتے میں وہی مادہ دستیاب ہے جو مادہ انسانی جلد میں موجود ہوتا ہے۔ کیسٹ کا فیتہ بولتا ہے، انسانی جلد بھی ایسے کرے گی بلکہ اپنے اندر ریکارڈ ہونے والی باتوں کو وہ حشر کے روز المعید کے سامنے اُگلے گی ضرور۔ یہی ہمارا عقیدہ اور ہمارے مذہب کا ہمیں درس ہے۔ ہر عہد کا اپنا ایک معیار ہوتا ہے کہ جس کے مطابق انسانی نظریات پر تجزیہ کیا جاتا ہے ۔ یورپ میں نشاة کے آغاز سے ہی سائنس اپنے محاورہ بن چکا تھااور ہر گزرنے والے ماہ و سال اس کے محکم ہونے پر اپنا مہرِ تصدیق ثبت کر رہے ہیںایسے میں اگر درپیش صورتحال کا مثبت جواب دینے کی ضرورت لازمی درپیش ہوئی۔ یہ بات تو اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے کہ سائنس نے جو دریافتیں بیسویں صدی اور اس کی آخری دہائیوں میں حاصل کی ہیں ، قرآنِ کریم انہیں آج سے چودہ سو سال پہلے بیان کر چکا ہے۔قرآنِ کریم نے کائنات کی وسعت پذیری کا اصول سورہ فاطر میں بیان کیا ہے۔ مفہوم: تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین کو (بلا نمونے کے ابتداً) بنانے والا ہے۔ وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے بڑھاتا جاتا ہے۔ بے شک اللہ ہر شئے پر قادر ہے۔ (فاطر: 135)

جدید سائنس تحقیق کی روشنی میں عام فاقے اور اسلامی روزہ کے فرق کو بہت اہمیت حاصل ہے روزہ صرف فاقے کا نام نہیں ہے کیونکہ فاقہ کی صورت میں خوراک کی مقدار اور نوعیت کی پابندیاں ہوتی ہیں جب کہ سحر اور افطار میں آپ پر خوارک کی نوعیت اور مقدار کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں ہوتی لہٰذا کسی جسمانی کمزوری یا معذوری کا کوئی خطرہ نہیں۔مذہب کی سائنسی توجیہہ کے حوالے سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں، جدید سائنس قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلام کی حقانیت و صداقت کی تائید کرتی نظر آتی ہے، اسلام کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوششیں یورپ میں بھی جاری و ساری ہیں۔

یہاں پر مشہور محقق اور ذاکر : ڈاکٹر ذاکر نائیک کے چند جملے تحریر کرنا چاہوں گا جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ” قرآنِ حکیم جو عقیدہ اسلامی کا مرکزی سر چشمہ ہے اپنے پیروکاروں یعنی مسلمانوں کے مطابق بنیادی اور کلی طور پر الہٰیاتی ہے، ہر مسلمان کا یہ ایمان بھی ہے کہ قرآنِ مجید میں تمام نوع انسانی کے لئے ہدایت موجود ہے۔ چونکہ پیام قرآنِ حکیم ہر وقت اور ہر زمانے کے لئے نازل ہوا، پس اسے لازماً ہر وقت اور ہر زمانے کے پہلو بہ پہلو ہونا چاہیئے مگر کیا قرآنِ حکیم اس معیار پر پورا اترتا ہے؟ دنیا کی تہذیبی تاریخ میں ایک زمانہ ایسا تھا کہ معجزہ یا وہ شے جسے ہم معجزہ گردانتے ہیں ، انسانی عقل اور منطق پر فوقیت رکھتا تھا، بلاشبہ معجزے کی عمومی تعریف واضح طور پر یہی ہے کہ ہر وہ شے یا واقعہ جو زندگی کے عمومی دھارے سے بالاتر پیش آئے اور انسان اس کی وضاحت سے عاجز ہو معجزہ ہے۔“

پاکستان میں اس موضوع پر کام کرنے والوں میں ایک مستند نام ” ڈاکٹر خالد غزنوی “ کا بھی ہے جنہوں نے ” طبِ نبوی ﷺ اور جدید سائنس “ کے عنوان کے تحت احادیث میں وارد مختلف پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیاءکے خواص پر مستند بحث کی ہے اور انہیں مختلف امراض میں نافع قرار دیا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد میں آغا اشرف (معراج اور سائنس)، ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری (سائنسی انکشافات قرآن و حدیث کی روشنی میں) اور پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد قادری (قرآن کے سائنسی معجزے ) کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں ۔

سید نا انس ؓ حضور سرورِ کائنات ﷺ کے معمول بیان کو اس طرح ذکر کرتے ہیں: مفہوم: رسولِ مکرم ﷺ نے اپنے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں اور اخد عین (گردن کے دونوں طرف کی رگوں ) کے بیچ میں تین سنگی کھنچوائے۔(سنن ابو داﺅد، ۲:184)

اسلام اور سائنس پر صرف اسلامی دنیا میں ہی کام نہیں ہو رہا بلکہ اسلام کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوششیں یورپ میں بھی جاری و ساری ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اوّل نام فرانس کے سائنس دان اور ماہرِ امراض قلب ڈاکٹر موریس بوکایئے کا ہے، جن کی تحقیقی کاوش بصیرت افروز ہے۔ ان کے بارے میں مختلف کتابوں میں ذکر ہے کہ وہ سعودی شاہ فیصل بن عبد العزیز کے ذاتی معالج رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے کہا تھا کہ مورس بکایئے نے صحیح بخاری کی منتخب سو روایات میں سے اتھانوے روایات میں بیان کردہ سائنسی حقائق کو لفظ بہ لفظ درست قرار دیاتھا۔

آبِ زم زم سے متلعق آج سے کچھ سال پہلے ایک مضمون اخبار میں شائع ہوا تھا جس میں جاپان کے ایک مشہور و معروف ڈاکٹر ساروا ایموٹو کے ایک انکشاف نے دنیا بھر کو حیرت میں مبتلا کر دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ آبِ زم زم میں خصوصیات پائی جاتی ہیں جو دنیا کے کسی اور پانی میں موجود نہیں۔ نینو نامی ٹیکنالوجی کی مدد سے کی جانے والی متعدد تحقیقات میں ڈاکٹر ساروا ایموٹو نے یہ بات ثابت کی کہ اگر آبِ زم زم کا ایک قطرہ عام پانی کے قطروں میں مل جائے تو اس میں بھی وہی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔ سبحان اللہ، اسی لئے کہا گیا ہے کہ ” اور اے انسان تم اپنے رب کی کونسی کونسی نعمتوں کو جھٹلاﺅ گے۔“

مندرجہ بالا تحریر جو اوپر درج کی گئیں ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام اور سائنس کا چولی اور دامن کا ساتھ ہے۔ جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ سب کچھ قرآنِ پاک میں اور نبی مکرم ﷺ نے چودہ سو سال پہلے ہی بیان کر دیا تھا۔ یہ اللہ کی عظمت کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے۔ فروغِ علم کے باب میں سائنسی ترقی خود اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے مترادف ہے کیونکہ کہ علم کا حصول اور اس کا فروغ ، اسلامی تعلیمات کا ہی حصہ ہے۔
Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368356 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.