مکرمی! میرے ہرد ل عزیز دوست
ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی مہاراشٹر کے اردو مرکز شہر مالیگاؤں کے ایک
ذہین نعت گو شاعر ، قابل محقق اور عمدہ نثر نگار ہیں۔ ڈاکٹرموصوف میرے بعد
آئے رجسٹریشن کروایا اور ڈھائی سال کی قلیل مدت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری
حاصل کرکے اپنی سنہری یادیںچھوڑ کر ہم سے رخصت ہوگئے ۔ وہ بلا کے ذہین ،
منکسرالمزاج، اور مخلص دوست ثابت ہوئے ۔ علمی ، ادبی اور تحقیقی حلقوں
میںان کی ذات غیر متعارف نہیں اردو ادب کی بلند پایہ شخصیتوں سے ان کے
مراسم ہیں ۔ ڈاکٹر مُشاہدؔ رضوی کے مضامین ومقالات اخبارات و رسائل کی زینت
بنتے رہتے ہیں۔ دل شکنی کی حد تک ناقدری کے اس عہد میں انھوں نے نہ ستایش
کی تمنا نہ صلہ کی پروا کے مصداق اپنا تالیفی و تصنیفی سفر مسلسل جاری رکھا
ہے ۔ اب تک ان کی دینی و علمی ، شعری و ادبی موضوعات پر مبنی ۸؍ کتب و
رسائل منظر عام پر آکر خراج تحسین وصول کرچکی ہیں ۔ فی الحال انھوں نے ایک
منفرد کتاب’’ تشطیراتِ بخشش ‘‘ سے مجھے نوازا ہے۔ جو ان کی دوسری شعری کاوش
اور نویں پیش کش ہے ، بہ قول ڈاکٹر مُشاہدؔ رضوی اردو کی غیر معروف صنعت
’’صنعتِ تشطیر‘‘ پر شہر مالیگاؤں کا شایدیہ پہلا شعری مجموعہ ہے ۔ یہ
مجموعہ ۵۶؍ صفحات پر مشتمل مختصر سہی لیکن موٹی موٹی کتابوں پر بھاری ہے ۔
اردو کی صنعتی شاعری میں اسے ایک عمدہ اضافہ قرار دینا غیر مناسب نہ ہوگا ۔
قارئین کی معلومات کے لیے درج ہے کہ’’ صنعتِ تشطیر اس صنعت کو کہتے ہیں جس
میں شاعر جب کسی شعر کے دومصرعوں کے بیچ میں موضوع سے ہم آہنگ مزید
دوتضمینی مصرعوں کا اضافہ کرتا ہے ۔‘‘
ڈاکٹر مُشاہدؔ رضوی نے اس کتاب میں امام احمدرضا بریلوی، علامہ مصطفی رضا
نوریؔ بریلوی اور علامہ اختررضا ازہری بریلوی کے چالیس چالیس اشعار پر
تشطیر کا عمل کام یابی کے ساتھ کیا ہے جن میں بہ قول مفتی توفیق احسنؔ
مصباحی ، ممبئی ’’ خیالات کی ندرت، جذبے کا تقدس، افکار کی بلندی اور شعریت
کی جھلکیاں نمایاں ہیں ۔ہم وزن ، ہم قافیہ ، ہم رنگ اور ہم مضمون خیال کو
ایک ساتھ برتنا کتنا مشکل ہے یہ مُشاہدرضوی ہی جان سکتے ہیں۔ کسی زمین میں
کوئی شعر کہہ دینا اُتنا دقت طلب نہیں جتنا کسی مخصوص وزن و قافیہ کی رعایت
کے ساتھ موضوع و خیال کی ہم آہنگی کا التزام کرتے ہوئے کوئی شعر قلم بند
کرنا ہے اور مُشاہدؔ رضوی نے اس مشکل ترین سفر کو کام یابی کے ساتھ مکمل
کیا ہے۔‘‘…ڈاکٹر مُشاہد رضوی کی کتاب’’تشطیراتِ بخشش‘‘ سے چند مثالیں پیش
کی جاتی ہیں ؎
’’تیری نسلِ پاک میںہے بچہ بچہ نور کا‘‘
تیرے صدقے پالیا سب نے خزینہ نور کا
ہر گلِ تر نور کا ہر ذرہ ذرہ نور کا
’’توہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا‘‘
………
’’سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہوجائے ‘‘
دور نقصان و زیاں شاہِ امم ہوجائے
کشتِ بے نخل کی قسمت کو سنوارے گیسو
’’چھائیں رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو‘‘
………
’’سرشار مجھے کردے اک جامِ لبالب سے‘‘
الطاف و عنایت کا طالب ہوں شہا کب سے
جلووں سے چمک جائے اس دل کا نہاںخانہ
’’تا حشر رہے ساقی آباد یہ مَے خانہ‘‘
………
’’گردشِ دور یانبی ویران دل کو کرگئی‘‘
یورشِ کب و ابتلا حیران دل کو کرگئی
شاہِ مدینہ لیں خبر اب مجھ پہ وقت سخت ہے
’’تاب نہ مجھ میں اب رہی دل میرا لخت لخت ہے‘‘
’’تشطیراتِ بخشش ‘‘ کے اخیرکے تین صفحات ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی کے
پہلے نعتیہ دیوان ’’لمعاتِ بخشش‘‘ کی نعتیہ شاعری پر اردو کے ممتاز ناقدین
کے تاثرات سے سجے ہوئے ہیں جن میں ڈاکٹر شکیل الرحمان باباسائیں(ہریانہ)،
سلطان سبحانی(مالیگاؤں)، ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی(الٰہ آباد)، ڈاکٹر
سیفی سرونجی(ایم پی) ، ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط(بال بھارتی اردو پونے)، سلیم
شہزاد(مالیگاؤں)، بیکل اُتساہی (بلرام پور)، ناوک حمزہ پوری (بہار) وغیرہ
قابلِ ذکر ہیں ۔ ان کے علاوہ علیم صبا نویدی( چنئی) ، منظور دایک( سری نگر،
کشمیر) ، مولانا ادریس رضوی(کلیان) لطیف جعفری(مالیگاؤں) ، پروفیسر مظہر
صدیقی (مالیگاؤں) ، پروفیسر ساحل احمد ( دہلی) ، ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی،
ظہیر غازی پوری وغیرہ جیسی دنیاے ادب کی مشہور شخصیات نے بھی ڈاکٹر مُشاہد
ؔ رضوی کی نعت گوئی پر اظہار خیال کیا ہے ۔ ڈاکٹر مُشاہد رضوی اسی طرح اپنا
علمی و فکری سفر مسلسل جاری رکھیں ایسی میری نیک خواہشات اور دعائیں ہیں
۔اتنی کم عمری میںایسے گوناگوں کارہاے نمایاں اللہ تعالیٰ کی مُشاہدؔ بھائی
پر خصوصی عطا ہے ، دعا ہے کہ اللہ انھیں نظرِ بد سے بچائے۔ (آمین) |