مادہ پرستی ، حبِ جاہ و منصب اور
طلبِ دنیا سے جدا ہوکر روحانیت پسندی، آخرت کے یقینِ کامل کے ساتھ نفیِ
ذات، تزکیۂ نفس اور طہارتِ قلب و ذہن کرتے ہوئے خالق کائنات جل شانہٗ کی
معرفت کا حصول، اتباعِ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت مطہرہ کے
اصولوں پر استقامت کا نام تصوف ہے۔ شاعری کے بارے میں محققین و ناقدین
کاخیال ہے کہ یہ دراصل رمز و خفا، حقائق کی دریافت اور وجود وعدم کے تصورات
میں خاص دل چسپی لیتی ہے، جاننا چاہیے کہ یہ امورشریعت کے ساتھ ساتھ تصوف و
سلوک سے بھی پیوستہ ہیں۔ اس اعتبار سے ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق و مغرب کی
شاعری محسوس و غیر محسوس طور پر ان ہی تخیلات کے گرد گردش کرتی ہے یا بہ
الفاظِ دیگر اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ شاعری میں عموماًتصوفانہ
رنگ و آہنگ بہ کثرت جلوہ گر ہوکر اپنی خوشبوئیں بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مذہبی فکر و نظر سے ہم رشتہ یا تصوف کے کسی بھی سلسلے میں بیعت کا شرَف
حاصل کیے ہوئے شعرا جب عرفان و آگہی کے مضامین نظم کرتے ہیں تو خود بہ خود
تصوف رنگ اشعار زیبِ قرطاس ہونے لگتے ہیں ۔ پرانی اردو شاعری میں تو تقریباً
سبھی شاعر تصوف پسندی کے حامل نظر آتے ہیں کیوں کہ ہر ایک کے کلام میں
تصوف کا رنگ و آہنگ کسی نہ کسی روپ میں موج زن ضرورملتا ہے۔ مظہرؔ جانِ
جاناں، ولیؔ دکنی، سراج ؔاورنگ آبادی ، خواجہ میر دردؔ ، آتشؔ ، مصحفیؔ ،
مومنؔ ، غالبؔ ، ذوقؔ اور نظیرؔ وغیرہ نے اپنے اپنے کلام میں تصوفانہ
خیالات کے جودل کش نقوش ابھارے ہیںوہ اب بھی تازگی و طرفگی کے حامل دکھائی
دیتے ہیں۔ اِن میں خواجہ میر دردؔ اردو کے ایک ایسے صوفی شاعر گذرے ہیں
جنھوں نے دیگر شعرا کی طرح محض منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے تصوف کو اپنی
شاعری کا موضوع نہیں بنایا بل کہ وہ اس بحرِ ناپیدا کنار کے مشاق غواص بھی
تھے۔
دورِ متقدمین کے شعرا ے گرامی سے لے کر اب تک ہماری اردوشاعری بہت سارے
ادبی رجحانات و نظریات کے حصار میں بھی مقید کی جاتی رہی، لیکن جب ہم شاعری
کا بہ نظرغائر مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ ہر
دور میںایسے شعراموجود رہے ہیں جنھوں نے تصوفانہ رجحانات کو محبوب و مرغوب
رکھا۔ فی زمانہ مادہ پرستی، فیشن زدگی ، مغربی افکار و نظریات، عریانیت و
فحاشیت اور ابتذالی تخیلات میںبہت سارے شعرا و ادباجکڑتے جارہے ہیںلیکن یہ
بڑی خوش آیند بات ہے کہ زیادہ تر شعرا ایسے وقت میں بھی شاعری کے ذریعہ
اصلاحِ مفاسد کا کام لیتے ہوئے اپنی شاعری کو اچھائی کا نمونہ بنارہے ہیں
۔تزکیۂ نفس اور طہارتِ قلب و نظر کے سازو سامان سے اپنی شاعرانہ ریاضتوں
کو آراستہ و مزین کرنے والوں میں شہرِ ادب مالیگاؤں کے کہنہ مشق اور
استاذ شاعر جناب اظہارؔ سلیم صاحب کا بھی شمار کیاجانا چاہیے، موصوف اپنی
نگارشات میں جگر کا لہو ملاتے ہوئے ’’حصارِ شب‘‘ اور ’’اجلی برف درختوں
پر‘‘ کی خالص روایتی اور علاماتی شاعری کے میدان میں سرگرمِ سفر رہنے کے
بعد اپنے سلسلۂ بیعت کو مزید استحکام و توانائی عطا کرنے کے لیے اپنے
شہبازِ تخیل کو تصوفانہ رنگ و آہنگ سے مزین کرکے تزکیہ آمیز شعری اظہار
کی طرف پرواز کرانے میں مصروف ہیں۔
محترم اظہارؔ سلیم صاحب نے یکم اپریل ۱۹۴۲ء کو شہرِ عزیز مالیگاؤں کے
صنعتِ پارچہ بافی سے منسلک ایک متوسط خاندان میں اپنی آنکھ کھولی۔ تعلیم و
تربیت سے فراغت کے بعد تقدیسی پیشے درس و تدریس سے جڑ کر تعلیم و تعلم کے
میدان میں عمدہ نقش مرتب کیا اور طلبہ کی تعلیم و تربیت میں نمایاں کردار
ادا کیا۔ مصوری اور شاعر ی سے آپ کو گہر الگاو ہے یہی دونوں باتیں آپ کا
امتیازی شناخت نامہ بھی ہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں جب کہ ناچیز میونسپل
اردو اسکول نمبر ۶۸ میں زیرِ تعلیم تھا اظہارؔ سلیم صاحب غالباً اسکول نمبر
۶۲؍ میں فریضۂ تدریس ادا کررہے تھے، اپنی مصوری کے فن کو بروے کار لاتے
ہوئے درسی کتب میں بنی ہوئی تصاویر کو نقشِ دیوار کردیا جس کی یاد اب بھی
ذہن پرتر و تازہ ہے ۔ شاعری آپ کا ذوق و شوق ہی نہیں بل کہ غذاے روح کی
طرح وجدان وشعور میں پیوست ہے ، اس میدان میں استاذ الشعرا محترم اسیرؔ
امیدی برہان پوری کے آپ چہیتے شاگر دہونے کے ساتھ ساتھ جانشین بھی ہیں کہ
موصوف نے باقاعدہ اظہارؔصاحب کواپنی گدّی سونپ دی،اظہارؔ سلیم صاحب مصوری
اور شاعری کے دل داہ تو ہیں ہی تصوف نے بھی آپ کو اپنی گرفت میں لیا اور
آپ نے مولانا حافظ محمد سعید خاں صاحب منگراواں سے شرَفِ بیعت حاصل کیا ۔
اپنی اسی نسبت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے میدانِ شعر و ادب میں تصوف رنگ
خوب صورت اور پاکیزہ اظہاریے کو اپناتے ہوئے نیا شعری مجموعہ ’’ سبز نم‘‘
لے کرحاضر ہو رہے ہیں۔جو آپ کے تصوفانہ خیالات کی ترسیل کا مظہر ہے۔
’’سبز نم ‘‘ کے کلام میں عرفانِ خداوندی، عشقِ رسول (ﷺ)، فلسفۂ وحدۃ
الوجود،حقیقتِ کائنات، وجود و عدم، ہست و بود، فنا و بقا، خودی و بے خودی،
نفیِ ذات، محاسبۂ نفس، طہارتِ قلبی، تزکیۂ فکر، اسرارِ باطن، انسانی عظمت
و رفعت، معاشرتی درد و غم، محبت و مروت، صداقت و سچائی، فقر و غنا اور زہد
و ورع جیسے خالص تصوفانہ موضوعات کو جس خوش سلیقگی اور حُسن و خوبی سے
اظہارؔ سلیم نے برتنے کی کام یاب ترین کوشش کی ہے اُس سے قصرِ میرؔ کی
تزئین و آرایش میں نت نئے گل بوٹے کھِل کھِل کر عروسِ غزل کا وسیع ترین
کینوس مزید وسعت سے ہم رشتہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اظہارؔ سلیم کے یہاںانکشافِ
ذات اور نفیِ ذات کے بعد خود آگہی سے دو قدم آگے خدا آگہی اور کائنات
آگہی کا جو دل آویز ، صداقت و سچائی سے مملو پُر اثر اظہاریہ ملتا ہے وہ
پاکیزگی ، شگفتگی، شیفتگی ، پیوستگی اورشگفتگی کا آئینہ دار ہونے کے
ساتھمَنْ عَرَفَ نَفسَہٗ فَقَد عَرَفَ رَبَّہٗ کے آفاقی پیغام کا دل کش
اشاریہ بھی ہے ، جو قلب و روح کو منور و مجلا کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے ؎
منکشف ہوگیا خدا مجھ پر
جب ہوئی ذات کی نفی مجھ میں
پہلے مَیں اپنے آپ کو پہچانتا نہ تھا
اپنی نفی کے بعد ملی آگہی مجھے
ہر اک لمحہ تری یادوں کی خوشبو
مُشامِ جاں کو مہکانے لگی ہے
آئینہ آئینہ ہونا بھی ضروری ہے بہت
اُس کی نادیدہ تجلّی سے ملاؤں تجھ کو
منکشف تجھ پہ ہوں اَسرار ترے باطن کے
پھر ترے اَنفس و آفاق دکھاؤں تجھ کو
مرے وجود میں فطرت تھی جاں نثاری کی
جو تیرے نور کو دیکھا طواف مَیں نے کیا
اسی کے نور سے روشن ہے کائنات مری
مرے لہو کے ہمکتے قمر اسی کی طرف
غارِ حرا کی روشنی ، وحدت کا راز بھی
معراجِ بندگی کا وسیلہ نظر میں ہے
عرفان و آگہی کی کرن ، رحمتوں کی چھاوں
یہ فلسفہ وجود و عدم کا نظر میں ہے
قرآں کا ہر ورق ہے مرے مصطفی کی شان
یا وحدۃ الوجود سراپا نظر میں ہے
خود کا عرفان عارفوں کا چلن
معرفت کا ہے راستہ موجود
’’سبز نم ‘‘ کی شاعری میں اظہارؔ سلیم نے تصوف رنگ شعر ی اظہاریہ کرتے ہوئے
عمدہ زبان و بیان، البیلی تراکیب، نرالے پیکرات ، دل کش تشبیہات، خوب صورت
استعارات ، روشن جمالیات اور اچھوتی لفظیات کا جو نگار خانۂ رقصاں آراستہ
کیاہے ۔ اس سے آپ کی اعلا ترین قوتِ استعداد ، وسیع تجربات، طرزِ اظہار کی
فن کارانہ مہارت اور فکری و فنی صلاحیتیں نکھر نکھر کر سامنے آئی ہیں جو
متاثر کن اور آپ کی قادرالکلامی کی بین دلیل ہیں۔ مزیدچند اشعار نشانِ
خاطر ہوں جن میں اسلوب کی پُرکاری کے ساتھ تصوفانہ خیالات کے جوہر بکھرے
ہوئے ہیں ؎
نہ منکشف ہوئے اَسرار اہلِ باطن کے
تھے خوشبووں کے صحیفے مزاج داں سے الگ
شعاعِ فکر و نظر رہِ گذارِ شوق بنی
غبارِ حلقۂ شب ہوچکا گماں سے الگ
سفر سفر ہے کڑی دھوپ ، بے سکوں لمحے
شجر شجر کے گھنے ساے سارباں سے الگ
ہے اُسکے جلووں میں صد رنگ موسموں کی جھلک
نظر نظر میں وہی انتخاب ہوتا ہُوا
لاتمثیلی حُسن کی کیا توصیف لکھوں؟
لفظوں کے مہتاب ادھورے لگتے ہیں
درونِ ذات کی اُجلی سحر اُسی کی طرف
کھُلے دریچۂ قلب و نظر اُسی کی طرف
کبھی زمین کبھی آسمان کھینچتا ہے
عجب کشش ہے مجھے تیرا دھیان کھینچتا ہے
کبھی کبھی کوئی عرفانِ ذات کا جوہر
شعور و فکر کی گہرائیوں میں کھُلتا ہے
ہے تقاضاے وفا وقت مثالی جائے
کوئی لمحہ نہ تری یاد سے خالی جائے
ازل ازل سے ترا انتخاب مَیں ہی تھا
تری نظر میں مہکتا گلاب مَیں ہی تھا
مرے ہی نام سے منسوب مہر و ماہ رہے
گئے زمانے کا روشن نصاب مَیں ہی تھا
اسی کے نام میں مخفی ہے کائنات سبھی
طلب کی راہ میں چل کر کرامتیں لے جا
’’سبز نم‘‘ میں اظہارؔ صاحب نے غزل کو ایک نیا اور اچھوتا روپ دیا ہے، قلبی
واردات و کیفیات اور جمالیات کا جو خوب صورت اور دل نشین آہنگ آپ نے
اُبھارا ہے وہ خوشبوئیں بکھیرتا ہوا چلتا ہے ، یہاں موصوف خارجیت کی بجاے
داخلیت کے زیادہ دل دادہ نظر آتے ہیں۔ خالص روایتی انداز اور علاماتی
اِبہام و اِشکال ’’ سبز نم ‘‘ میں قاری کو بوجھل نہیں ہونے دیتا ۔ سادگی
اور جوش کے ساتھ نظم کیے گئے تصوفانہ رنگ کے اشعار میں آپ نے مجازی اور
حقیقی دونوں محبت کا حسین امتزاج کیا ہے، اور اپنی غزلوں میں حقیقی محبت کے
بہت سے انوکھے تصورات اجاگر کیے ہیں جن میں رعنائی اور دل کشی کے ساتھ
نادرہ کاری بھی ہے۔ محبت کے اِس البیلے اظہار و ابلاغ میں آپ نے
دردِانسانیت کو بانٹ کر اپنے نام کرتے ہوئے محبت کی پُرخلوص مہک کو عالم
گیریت عطا کرنے کا سماجی شعور و ادراک بیدار کرنے کی سعیِ مشکور بھی کی ہے۔
عصرِ جدید کے سماجی و سیاسی انتشار اور درد و غم کو بھی کہیں کہیں اپنا
موضوع بنایا ہے ، موصوف نے اس کرب کو جس حزنیہ انداز میں پیش کیا ہے وہ پُر
اثر اوراپنے قاری کو بھی کربیہ آہنگ سے ہم کنار کرنے میں مکمل طور پر کام
یاب نظر آتا ہے ؎
مکمل غم کی اک تصویر ہونا چاہتی ہے
اداسی درد کی تفسیر ہونا چاہتی ہے
زمانے کے سبھی دکھ کر لیے ہیں نام اپنے
محبت میری عالم گیر ہونا چاہتی ہے
جدید عصر سے اب تیرگی کی چادر کھینچ
چراغ دل کا جلا آگہی کے منظر کھینچ
محبتوں کے صحیفوں کا آئینہ ہے وہ
ہمیشہ درد کی انگڑائیوں میں کُھلتا ہے
مشترک درد کا احساس ابھی زندہ ہے
ہم نے سیکھا نہیں انساں سے کنارا کرنا
محبتوں کے خزانے تھے جن کے سینے میں
زمانے ہوگئے ہم کو نظر نہیں آئے
عجیب درد کے پھولوں سے میرا رشتہ تھا
میں حرف حرف کتابِ وفا میں مہکا تھا
’’سبز نم ‘‘ پر ناچیز کی یہ مختصر تبصراتی کاوش اظہارؔ سلیم کے اس تصوف رنگ
شعری مجموعہ میں پنہاں گراں قدر فنی جوہر پاروں کو کماحقہٗ عیاں کرنے میں
قاصر ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ’’سبز نم‘‘ ایک ایسا دل کش اور وقیع شعری
اظہاریہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جس پر خامہ فرسائی کے لیے تصوفانہ دیدہ
وری اور عالمانہ بصیرت کی ضرورت ہے ۔ ویسے کہیں کہیں یہ لَے مدھم ضرور ہوئی
ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ’’سبز نم‘‘ کے بعض اشعار میں تصوف ومعرفت کی جو
گھلاوٹ اور تہہ داریت ہے اس کو کھولنے کے لیے کئی صفحات روشن کیے جاسکتے
ہیں۔اس مجموعۂ کلام کی تقریباً ہر غزل میں کئی ایسے اشعار چار چاند لگائے
ہوئے ہیں جو دل آویز کشش کے حامل تصوف رنگ میں رنگے خود آگہی ، خدا آگہی
اور کائنات آگہی کے آفاقی تصورات سے مکمل طور پر ہم آہنگ نظر آتے ہیں ۔
میںاظہار سلیمؔ صاحب کو لائقِ تحسین و آفرین شعری مجموعہ کی اشاعت پر
ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے قبولیتِ عامّہ کے لیے دعا گو ہوں ۔ |