قربانی کا ذکر سورة الحج میں اس
طرح کیا گیا ہے: مفہوم! اور (اے ابراہیم علیہ السلام) تم لوگوں میں حج کی
ندا عام کر دو، یوں وہ حاضر ہونگے ، پیادہ اور اونٹنی پر کہ وہ بہت دور سے
آتی ہے ، تاکہ لوگ اپنا فائدہ پائیں اور اللہ کا نام لیں۔ جانے ہوئے دنوں
میں اس پر کہ انہیں روزی دی ہے۔ بے زبان چوپائے تو ان میں سے خود کھاﺅ اور
مصیبت زدہ محتاج کو کھلاﺅ۔(سورة الحج آیت 28۔27)
جانے ہوئے دنوں سے یہاں مراد یہ ہے کہ جن دنوں میں حج کیا جاتا ہے اور
قربانی کا حکم ہے وہ دن جانے پہچانے ہیں، سب کو معلوم ہے کہ کن ایام میں
قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔
قربانی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنھا سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یومِ نحر (دسویں ذی
الحجہ) میں ابنِ آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے
زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے
ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام
قبولیت میں پہنچ جاتا ہے لہٰذا اس عمل کو خوش دلی سے کرو (ترمذی: بحوالہ
بہارِ شریعت)
قربانی واجب ہونے کے سبب اور شرائط اس طرح ہیں کہ اوّل مسلمان ہونا شرط ہے،
دوم مقیم ہونا اور سوم مالک نصاب ہونا۔ یہاں مال داری سے مراد وہ ہے جس سے
صدقہ فطر واجب ہوتا ہے وہ مراد نہیں جس سے زکوٰة وجاب ہوتی ہے۔ چہارم آزاد
ہونا، مرد ہونا شرط نہیں عورتوں پر بھی واجب ہوتی ہے۔قربانی واجب ہونے کا
سبب وقت ہے یعنی جب وہ وقت آیا اور شرائط وجوب پائے گئے قربانی واجب ہوگئی
اور اس کا رکن ان مخصوص جانوروں میں سے کسی کو قربانی کی نیت سے ذبح کرنا
ہو تا ہے۔ قربانی کرتے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم و ملزوم ہے کوئی دوسری
چیز اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی۔قربانی کرنے کیلئے جانوروں کا چناﺅ اس
طرح کر سکتے ہیں کہ قربانی کے جانور کا ان عیبوں سے پاک ہونا ضروری ہے ورنہ
قربانی نہیں ہوگی۔ اتنا کمزور کہ جس کی ہڈیوں میں مغز نہ رہا ہو۔ لنگڑا یا
اس قدر زخم خوردہ نہ ہو کہ چل پھر نہ سکتا ہو۔ دُم، کان یا جسم کا کوئی اور
عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔ سینگ تہائی سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو، جس کے
پیدائشی دانت نہ ہوں جس کے تھن کٹے ہوئے ہوں، بکری کا ایک تھن اور گائے کے
دو تھن خشک ہو گئے ہوں۔ (بہارِ شریعت ، ص577۔582)
قربانی سے پہلے جانور کو چارہ پانی دے دیں۔ جہاں ذبح کریں وہاں سے دوسرے
جانوروں کو ہٹا دیں تاکہ کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہیں کرنا پڑے۔ پہلے
سے چھری تیز کر کے رکھ لیں ، جانور کو بائیں بازو پر اس طرح لٹا دیں کہ اس
کا منہ قبلہ رُخ ہو جائے۔ اپنا سیدھا پاﺅں جانور کے پہلو پر رکھ کر ذبح کے
وقت کی دعا پڑھنے کے بعد بسم اللہ ، اللہ اکبر کہتے ہوئے تیزی کے ساتھ
جانور کے گلے پر چھری پھیر دیں یہاں تکہ کہ اس کے چاروں رگیں یا کم از کم
تین رگیں ضرور کٹ جائیں۔ ذبح کے وقت پوری گردن الگ نہ کریں کہ بلا ضرورت
جانور کو تکلیف دینا مقصود نہیں۔ ذبح کرنے کے بعد کی دعا پڑھ کر اور گائے
یا اونٹ کی قربانی ہو تو منی کی جگہ من کہکر اس کے بعد ساتوں آدمیوں کے نام
لیے جائیںیوں آپ کی قربانی بارگاہِ رب العزت کی بارگاہ میں مشہور ہو جائے
گی۔ذبح میں کاٹی جانے والی رگیں چار ہوتی ہیں جس کا نام درج کرنا اور اس کا
قربانی کرنے والے کو پتہ ہونا ضروری امر ہے۔ (۱) حلقوم: یہ وہ رگ ہے جس میں
سانس آتی ہے۔ (۲) وتری: یہ وہ رگ ہے جس سے کھانا یا پانی اُترتا ہے۔ (۴۔۳)
اُن دونوں رگوں کے آزو بازو (اغلبغل) اور دو رگیں ہوتی ہیں جن کو درجین
کہتے ہیں۔ ان چاروں رگوں کوجن کے نام مندرجہ بالا درج کئے گئے ہیں،جانور کو
ذبح ( قربان) کرتے وقت کاٹنا ضروری عمل ہے ۔
سورہ حج : آیت 67 میں درج ہے : مفہوم:!
ہم نے ہر امت کے لیئے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقہ پر ذبح
کیا کرتے تھے۔
سورہ کوثر ۔ آیت۲ میں فرمایا گیا ہے کہ مفہوم: سو آپ اپنے پروردگار کی نماز
پڑھیئے اور (اسی کے نام کی )قربانی کیجئے۔
ابنِ ماجہ۔ ص226 میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص
استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ
بھٹکے۔
قربانی کا یہ پہلو دیکھیں جو بہت اہم ہے کہ اسی بہانے سے انسان کی دونوں
ضرورتوں کی تکمیل بھی ہو رہی ہے ۔ قربانی کا تعلق ثواب اور نجات کے بعد جو
چیز اہم اور نمایاں ہے وہ خود صاحبِ قربانی اور اس کے پڑوسی، رشتہ دار اور
احباب ، اس کے علاوہ غریب و مسکین کیلئے سال میں ایک بار ان دونوں چیزوں کے
حصول کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ قربانی عید
کے تین روز تک کی جاتی ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ محلہ چاہے ایک ہی ہو
مگر الگ الگ دنوں میں قربانی کی جاتی ہے اور پھر اس کا گوشت مسلسل تین روز
تک ان لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے جو اس کے ضرورت مند ہیں۔ یوں ہفتوں تک تو
یہ گوشت محفوظ کر کے کھایا جاتا ہے۔ یوں غرباءاور مساکین کی تو بھوک کا
ازالہ ہو جاتا ہے ۔
قربانی کرنے والے کے عمل میں احسان و اخلاص کا عنصر پایا جاتا ہے تو ثواب
کے شرعی وعدے یومِ آخرت میں سامنے آجائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا
احسان ہے کہ وہ ہم سے کسی کام کا خالص اپنے لیئے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے
اور ہم بھی ظاہر ہے کہ اس کام کو صرف اُسی کی رضا کیلئے کرتے ہیں۔ قرآنِ
کریم کی سورہ الحج32میں فرمایا گیا ہے کہ : مفہوم!
” اللہ کے پاس تمہاری قربانیوں کا نہ تو گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی ان کا
خون، اس کے پاس جو کچھ پہنچتا ہے وہ تمہارے دلوں کا تقویٰ ہے۔“(ظاہر ہے کہ
اللہ پاک صرف متقیوں کا عمل ہی قبول کرتا ہے)
حضرت براءرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ نے عیدِ قرباں کے دن خطبہ
دیا ، فرمایا کہ سب سے پہلے ہمیں آج کے دن نماز پڑھنی چاہیئے ، پھر واپس
گھروں کو لوٹ کر قربانی کرنی چاہیئے۔ جس نے ایسا کیا اس نے سنت پر عمل کیا
اور جس نے ہماری نماز پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر دیا تو وہ قربانی گوشت کی
بِکری ہے جس کو اس نے اپنے گھروالوں کیلئے جلدی سے ذبح کر لیا ہے۔ وہ
قربانی نہیں۔(مسلم شریف)
حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ
یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام
کی سنت ہے۔ آپ ﷺ سے پھر پوچھا گیا ہمارے لئے ان میں کیا اجر ہے؟ آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے۔ (ابنِ ماجہ ص 233)
اُسوہ خلیل علیہ السلام کے راستے پر چلتے ہوئے آپ بھی اگر صاحبِ استطاعت
ہیں تو قربانی ضرور کیجئے کیونکہ اس سلسلے میں حضور اکرم ﷺ کا بیان بھی
اوپر درج کر دیا گیا ہے سو تمام سنتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس عظیم دینی
فریضہ کو ادا کیجئے اور رب العزت کے نزدیک سرخروئی حاصل کیجئے۔ کیونکہ؟
آج بھی ہو جو ابراہیم ؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا |