سپریم کورٹ کے حکم سے 25 اکتوبر
کو سی این جی کی قیمتوں میں تاریخی کمی کردی گئی ۔حکومت نے اس کمی کا
نوٹیفیکشن بھی جاری کردیا ہے ۔گیس کی قیمتوں میں 30روپے 90 پیسے فی کلو کی
کمی اگرچہ آزاد عدلیہ کے آزادانہ فیصلے سے ہوئی لیکن فتح غریب عوام کی ہوئی
۔جو قوم حکومت کے” کھیل“میں گذشتہ ساڑے چار سال سے شکست کھا رہی تھی نہ
جانے یہ خوشی کیسے برداشت کرے گی؟پوری قوم کو موجودہ عدالتی نظام کے ججز
صاحبان سے جو توقعات تھی اس کے مطابق ابھی اور ایسی بہت سی خوشخبریاں ملیں
گی، بس قوم کو ”تیل اور تیل کی دھار“ دیکھنے کے لیئے صبر کا مظاہرہ اور
عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درامد کے لئے اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔
بہرحال میں سلوٹ پیش کرتا ہوں چیف جسٹس پاکستان چوہدری افتخار کو جو اپنے
عمل سے مسلسل یہ ثابت کررہے ہیں کہ منصف اگر ایماندار ہو تو معاشرے سے نا
انصافیاںختم ہونے لگتی ہیں اور قوم کو اس کا حق ملنا شروع ہوجاتاہے۔
سی این جی کی قیمتوں میں کمی اگرچہ اس کاروبار سے منسلک افراد کے لیئے بری
خبر ہے لیکن اس سے ملک خصوصاََ کراچی اور بڑے شہروں کے شہریوں کو بہت فوائد
حاصل ہونگے ، کراچی میں منی بسیں ، کوچز اور بعض بسیں بھی سی این جی پر
چلنے کی وجہ سے کرایوں میں بھی اضافہ ہوگیا تھاجو اب گیس کی قیمتوں میں کمی
کے باعث کم ہوجائے گا اسی طرح متوسط طبقہ جو کاریں اور دیگر گاڑیاں رکھتاہے
کو بھی اس سے فائدہ ہوگا۔
مہنگائی کے بوجھ تلے دب جانے والی عوام اس طرح کی خوشخبریوں کو ایک خواب
سمجھنے لگی تھی۔ لیکن عدلیہ نے یہ ثابت کیا کہ وہ صرف سیاست دانوں اور
حکمرانوں کے مقدمات سننے اور چلانے میں دلچسپی نہیںرکھتی بلکہ ملک کے عام
افراد کی پریشانیوں کا سدباب کرنے اورانہیں انصاف کی فراہمی کے لیئے بھی
کوشاں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ عدلیہ کے اقدامات اور فیصلے نئی تاریخ رقم
کررہے ہیں ۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ عدلیہ کے سخت فیصلوں کی وجہ سے قانون کی عملداری بڑھ
رہی ہے اور قانون شکن عادی عناصرمیں خوف ِ قانون بھی پیدا ہورہا ہے جو
موجودہ عدلیہ سے قبل تقریباََ ختم ہوچکا تھا اور جس ملک میں عام اور خاص
تمام ہی افراد کو قانون کی گرفت میں آنے کا ڈر ہو وہاں ناانصافی کے واقعات
ختم ہوجاتے ہیں۔ سو وہ وقت اب جلد آنے والا ہے۔
چیف جسٹس چوہدری افتخار کی عدلیہ ایک طرف صدر مملکت آصف علی زرداری کے سوئس
عدالت کے مقدمات کے حوالے سے متحرک ہے تو دوسری طرف بلوچستان اور کراچی میں
امن و امان کی خراب صورتحال کے حوالے سے فکر مند بھی ہے ایسی عدلیہ ملک کی
تاریخ میں پہلے کبھی نظر نہیں آئی۔
جمعرات کو پیٹرولیم کی قیمتوں کے حوالے کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ
کے سامنے جو انکشافات کیئے گئے وہ اس غریب مملکت کے لوگوں کی آنکھیں کھول
دینے کے لیئے کافی ہیں۔ چیئرمین اوگرا نے عدالت کو بتا یا کہ آپریٹنگ کاسٹ
کی مد میںسی این جی اسٹیشن کو20 روپے 80 پیسے فی کلو دئیے جاتے ہیں ، عدالت
کے سامنے یہ بات بھی آئی ہے کہ سی این جی اسٹیشن قائم کرنے کا لائسنس 90
لاکھ روپے میں فروخت کیا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپریٹنگ کاسٹ
کی مد میں اتنی بڑی رقم کیسے دی جاتی ہے جبکہ ایک بڑی کمپنی آپریٹنگ کاسٹ
کی مد میں فی کلو ایک روپیہ وصول کرتی ہے؟۔عدالت نے سماعت کے بعد حکم دیا
کہ سی این جی کی قیمتوں کو پیٹرول کی قیمتوں سے منسلک نہیں کیا جاسکتا۔
وطن عزیز میں منظم لوٹ مار کا یہ انکشاف بھری عدالت میں سامنے آگیا اس کی
وجہ صرف چیف جسٹس افتخار چوہدری بنے ۔ یہ وہی جناب افتخار چوہدری ہیں جنہیں
پرویز مشرف نے چیف جسٹس کے عہدے سے ۹ مارچ 2007 کو معطل کردیا تھا بعد ازاں
اسی سال 12مئی کوکراچی آنے سے روک دیا گیا تھااور امن وامان کی ایسی
صورتحال پیدا کردی گئی تھی کہ جناب چیف جسٹس چوہدری افتخار جو ان دنوں
عدلیہ کی بحالی کی تحریک کاحصہ تھے ، اس روز پیپلز پارٹی جو اس وقت اپوزیشن
کابڑی جماعت تھی نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ کااہتمام کیا تھا۔اس واقعہ
کو کراچی کے لوگ بھلانہیں پائے ہونگے؟، ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ اس واقعہ
میں کونسی جماعت پرویز مشرف کے اشارے پر اچانک ہی اپنا اصل روپ دھار کر
سرگرم ہوگئی تھی؟
چیف جسٹس چوہدری افتخارکی بحالی کی تحریک میں حائل ہونے اور آزاد عدلیہ کی
بحالی کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کرنے والی اس سیاسی قوت کو اگروہ واقعی
عوام دوست اور عوام کوحقوق دلانے والی جماعت ہے تو اب اس کی آنکھیں کھل
جانی چاہئے ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے آج اور آج سے پہلے یکے بعد دیگرے کیئے
جانے والے مثبت فیصلوں کے نتیجے میں عام آدمی بھی اس کا قدر دان ہوگیا ہے
اس لئے توقع ہے کہ مذکورہ سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی حق
پرست اور مفاد پرست کو پہچان گئے ہونگے؟۔ ان لوگوں کو اب یہ سمجھ لینا
چاہئے کہ وہ کل کس کا ساتھ دے رہے تھے ؟ ملک اور قوم کے لئے محبت اورخلوص
کا جذبہ رکھنے والی شخصیت کا یا پھر ملک کو نقصان پہنچانے والی شخصیت کا؟
بات ابھی یہاں ختم نہیں ہوئی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سی این
جی ایسوسی ایشن غصہ اور ردِ عمل فطری بات ہے، لیکن انہیں اس بات کا بھی
جواب دینا چاہئے کہ وہ اتنے سالوں تک آپریٹنگ کاسٹ کی مد میں فی کلو20روپے
80 پیسے صارفین سے زائد وصول کرنا جائز تھا؟۔
مجھے ڈر ہے ان کے درمیان موجود مفاد پرستوں سے جو اس معاملے کو کسی اور
جانب بھی لےجا سکتے ہیں، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایسے عناصر سے
نمٹنے کے لئے فوری سخت اقدامات کرے،اگر کوئی اسٹیشن فیصلے پر عمل نہیں کرے
تو اس کا لائسنس فوری طور پر معطل کردیا جائے ساتھ ہی ہنگامی بنیادوں پر
مخلص لوگوں کو ان کے متبادل کے طور پر لائسنس جاری کردیا جائے تاکہ عام
لوگوں کو پریشانی نہ ہو ۔ |