آرایس ایس نے ابتدا سے اپنا
مقصد ہندو سماج کی بیداری اورسناتن تہذیب کا احیاء قرار دیا اس لئے وہ اپنے
آپ کو سیاسی کے بجائے ثقافتی تحریک کہلوانا پسند کرتا ہے ۔آر ایس ایس نے
اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی غرض سے اپنے کچھ پرچارکوں مثلاً بلراج
مدھوک،اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن اڈوانی کی مدد سے ۱۹۵۱بھارتیہ جن
سنگھ قائم کی اور ایک معروف سیاستداں شیاما پرساد مکھرجی کو اس کا صدر بنا
دیا۔مکھرجی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس سے کیاپنر ہندو مہاسبھا
میں چلے گئے ۔گاندھی جی کے کہنے پر پنڈت نہرو کی کابینہ میں وزیرِ صنعت
وفراہمی رہے ۔ گاندھی جی کے قتل کا الزام جب ہندو مہاسبھا پر لگا تو اسے
خیرباد کہہ کرآرایس ایس صدر گرو گولوالکرکے ساتھ بھارتیہ جن سنگھ قائم کی
۔کشمیر کے اندر پر اسرارحالات میں ان کی موت ہوئی۔ ان کی موت کے بعد یکے
بعد دیگرے کئی لوگ اس پارٹی کے صدر ہوئے لیکن بلراج مدھوک نےصدر بننے کے
بعد اٹل جی پر اندرا گاندھی سے میل جول کا الزام لگایا اور پارٹی سے نکال
دئیے گئے ۔گویا سیاست کے میدان میں اترنے والے اولین معروف پرچارک کو بھی
سنگھ اپنےقابو میں نہ رکھ سکا ۔بلراج مدھوک کی بغاوت نے آرایس ایس کو اپنے
حدود و قیود کا احساس دلا کر حقیقت پسند بنا دیا۔
ایمرجنسی کے بعد حزب اختلاف کا ایک عظیم اتحاد عالمِ وجود میں آیا۔جن سنگھ
اس خیال سے جنتا پارٹی میں ضم ہوگئی کہ وہ اپنی تنظیمی قوت کی مدد سے جنتا
پارٹی کو نگل جائیگی لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ آر ایس ایس کی
دوہری رکنیت کے مسئلہ پرسنگھ سیوکوں کو الگ ہونا پڑاجس کے نتیجہ میں
بھارتیہ جنتاپارٹی کا قیام عمل میں آیا۔اٹل جی صدر بنے اور انہوں نے سنگھ
کےنظریہ سے بغاوت کرکے گاندھیائی سوشلزم کا نعرہ بلند کیا جبکہ سنگھ پریوار
گاندھی جی اور سوشلزم دونوں کا دشمن تھا ۔آر ایس ایس نےاس مکھی کو اس لئے
نگل لیاکہ وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہو جانے کے بعد اٹل جی کا قدخاصہ
بلندہو چکا تھا اور ان کو قابو میں رکھنا اب سنگھ کے بس کا روگ نہیں تھا
۔اٹل اور اڈوانی چونکہ سنگھ سے تعلق کی بنیاد پر اقتدار سےدستبردار ہوئے
تھے اس لئے ان سے تعلق توڑلینا بھی آر ایس ایس کیلئے بے حد مشکل تھا
۔اندرا گاندھی کی موت کے بعد چلنے والی ہمدردی کی لہر نے بی جے پی کا خیمہ
اکھاڑ دیا ۔ اڈوانی نے اس کا فائدہ اٹھا کرواجپائی کے ساتھ گاندھیائی
سوشلزم کودریا برد کردیا اور دین دیال اپادھیائے کےفلسفہ کامل انسانیت کو
اپنا کر سنگھ پریوار کے منظورِ نظر بن گئے ۔رام مندر کی تحریک چلا کر
اڈوانی جی نےبی جے پی کو ملک کاسب سے بڑاحزب اختلاف تو بنا دیااور حکومت
بھی بن گئی لیکن وہی رام مندر بی جے پی اور اڈوانی کے پیروں کی زنجیر بن
گار۔قومی جمہوری محاذ میں شامل دیگر علاقائی اور سوشلسٹ حامی جماعتوں نے
وزیراعظم کے منصب کی خاطرواجپائی کواڈوانی پر ترجیح دی ۔
اٹل جی اور اڈوانی جی کا جب تک بول بالا رہا آر ایس ایس اپنی مرضی بی جے
پی پر تھوپ نہ سکی لیکن اڈوانی جی کے پاکستانی دورے پر جناح کی تعریف کے
بعد جب ان کی ہوا اکھڑ گئی تو بی جے پی پر سنگھ اپنی مرضی کا صدر تھوپنے
میں کامیاب ہو گیا ۔ اس جبر کو سر انجام دینے کا سہرہ موہن بھاگوت کے سر ہے
جنھوں نے اپنے چہیتےنتن گڈکری کوپارٹی کا صدر بنوا یا ۔ اس فیصلے پر بی جے
پی کے رہنماوں کا غم و غصہ سرد کرنے کیلئے بھاگوت نے کہا تھا اجتماعی زندگی
میں کبھی کبھار اپنی مرضی کے خلاف فیصلے بھی ہوتے ہیں ان فیصلوں کو ہضم
(برداشت)کرنے کی قوت بھی ہمارے اندر ہونی چاہئے لیکن جب نتن گڈکری کی ناؤ
منجدھار میں ہچکولے کھانے لگی تو بھاگوت نے ہاتھ جٹک کر کہا کہ سنگھ سیاست
نہیں کرتا اس کے کچھ لوگ کرتے ہیں جو خود مختار ہوتے ہیں ان پر سنگھ کا
کوئی زور نہیں چلتا ۔اس لئےبی جے پی کی حرکات کا جواب دینے کی ذمہ داری
سنگھ پر نہیں ہے ۔سنگھ کا سایہ اٹھ جانے کے بعدبی جے پی نے اپنے سب سے معمر
رہنما لال کرشن اڈوانی کا تعاون طلب کیا ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی میں لال کرشن اڈوانی کی حیثیت مہابھارت کے دھرتراشٹر یا
کرکٹ کےسنیل گاوسکر کی سی ہے۔ انہیں میدان میں اتارتے ہوئے بی جے پی والے
بھول گئے کہ دھرت راشٹر بینائی سے معذورتھے۔ سنیل گاوسکر اپنے زمانے میں
ٹیسٹ میچ کھیلا کرتا تھالیکن اب ٹوینٹی ٹوینٹی کا زمانہ ہے ۔اڈوانی جی نے
نتن گڈکری کی صفائی میں کہا یہ میڈیا ٹرائل ہے ۔ گڈکری پر کمپنی ایکٹ کے
تحت جو الزامات ہیں وہ بدعنوانی کے دائرے میں نہیں آتے اس لئے کہ انہوں نے
اپنے سیاسی رسوخ کا استعمال نہیں کیا ۔ یہ ایک ایسی احمقانہ دلیل ہے جسے
وہی پیش کر سکتا ہے جو پوری طرح سٹھیا گیا ہو ۔کیا معاشی میدان میں
بدعنوانی نہیں ہوتی؟ سچ تو یہ ہےکوئی بدعنوانی غیر معاشی نہیں ہوتی ؟ دوسری
بات یہ ہے کہ اگر نتن گڈکری صوبائی وزیر نہ رہے ہوتے یابی جے پی کےقومی صدر
نہ ہوتے تو کیا انہیں اس طرح آسانی سے قرضہ جات سرکاری مراعات مل جاتیں۔
وہ سرکارکی مدد سےکسانوں کی زمین کے مالک بن جاتے ؟ اڈوانی جی کا سب سے
حماقت خیز دعویٰ یہ ہےکہ ‘‘نتن گڈکری نے خود کو تفتیش کیلئے پیش کر کے اپنے
آپ کو بے گناہ ثابت کر دیا ہے’’۔ کیا کوئی محض کسی مجبوری کے تحت اپنے آپ
کو تحقیق کیلئے پیش کردے تو وہ گنگا نہا لیتا ہے ؟ اس کے سارے پاپ دھل جاتے
ہیں ؟ اور اگر وہ بے گناہ ثابت ہو چکے ہیں تو تحقیق کی ضرورت ہی کیا ہے ؟
ایسا لگتا ہے کہ اپنے وسیع وعریض سیاسی تجربے کی بن سنگھ یاد پر اڈوانی جی
کو یقین ہے کہ کانگریس کی تحقیق و تفتیش گڈکری کو بچا لے گی ۔
سنیل گواسکرنے اپنے ریٹائرمنٹ سے قبل جب ون ڈے میچ کھیلنا شروع کیا تھا تو
کرکٹ کے شائقین دعا کرتے تھے کہ وہ جلد آوٹ ہو جائے اس لئے کہ جس مقابلہ
میں گواسکر کی سنچری ہوتی انڈیا وہ میچ ہار جاتا یہی کچھ اڈونی جی کے ساتھ
بھی ہوتا ہے ۔وہ جب بھی کسی کا دفاع کرتے ہیں آگے چل کراس بیچارے کا بیڑہ
غرق ہو جاتا ہے ۔ بنگارو لکشمن کو واجپائی نے اڈوانی کی مرضی کے خلاف پارٹی
کا صدر بنوایا تھااس لئے انہیں ٹھکانے لگانے کی خاطر غالباً اڈوانی جی نے
انہیں رشوت کے جال میں پھنسایااور پھر دکھاوے کا دفاع کیا لیکن بنگارو کو
نہ صرف صدارت سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی ۔ بدعنوانی
کے الزام میں ملوث ہونے والے نتن گڈکری تنہا نہیں ہیں بلکہ وہ اس روایت کا
حصہ ہیں جسے اڈوانی جی نے قائم کیا اورفروغ دیا۔ اڈوانی نےجب نرسمھا راؤ
کو ہرشد مہتا کی مدد سے گھیرنے کی کوشش کی توراؤ نے انہیں جین حوالہ ڈائری
میں پھنسا دیا ۔بدعنوانی کے معاملے میں ملوث پائے جانے والے اڈوانی بی جے
پی کےپہلے بڑے رہنما تھے لیکن اس وقت وہ کسی قدر ہو شیار سیاست داں تھے ۔
عوام کوگمراہ کرنے کیلئے انہوں سیاست میں اعلیٰ اقدار کا نعرہ بلند کیا اور
پارلیمانی رکنیت اور لیڈرشپ سے استعفیٰ دے دیا ۔ انتخابات قریب تھےپارلیمان
جلد ہی تحلیل ہونے والی تھی اس لئے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا لیکن انہوں نے
پارٹی کی صدارت نہیں چھوڑی ۔اڈوانی کی حمایت کرناٹک کے وزیر اعلیٰ یدورپا
اور اتراکھنڈ کے پوکھریال کے بیی کسی کام نہ آسکی اور ان دونوں کو بھی
استعفیٰ دینا پرا اس لئے نتن کیلئے ان کا دفاع کوئی نیک شگون نہیں ہے ۔
بی جے پی نے ممبئی میں منعقد ہونے والے اپنےحالیہ قومی اجلاس میں نتن گڈکری
کو دوبارہ صدر بنانے کی خاطر دستور میں ترمیم کی ۔ ممبئی کے اجلاس میں نہ
صرف دستور سے کھلواڑ کیا گیا بلکہ آرایس ایس کی مرضی کے خلاف ایک مصالحت
بھی کی گئی ۔ سنگھ پریوارکے اندر سنجےجوشی کو نریندر مودی کا حریف سمجھا
جاتا ہے ۔ سنجےجوشی ایک زمانے میں گجرات بی جے پی کےنگراں تھے اور نریندر
مودی کیلئے دردِ سر بنے ہوئے تھے لیکن پھر یہ ہوا کہ سنجےجوشی کی بی جے پی
کے خاتون رکن کے ساتھ سیکس اسکینڈل میں ملوث ایک سی ڈی سامنے آئی اور
سنجےجوشی کی چھٹی ہو گئی ۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ سی ڈی نریندر مودی نے
بنوائی تھی ۔ نتن گڈکری جو اپنی بقاء کی خاطر ناگپور کے ہر حکم پر سرِ
تسلیم خم کر دیا کرتے تھے اس لئے صدر بن جانے کے بعدآرایس ایس نے دباؤ
ڈال کر سنجےجوشی کو بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ میں شامل کروادیا ۔ نریندر
مودی نے اس فیصلے سے ناراض ہوکر دہلی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں
احتجاجاً شرکت نہیں کی ۔ اس طرح گویا مودی نے آر ایس ایس کو بھی اپنی
حیثیت دکھلا دی ۔ اس سے پہلے وہ گجرات میں آریس ایس اور وی ایچ پی کو
ناراض کر چکے تھے ۔
ممبئی میں گڈکری کیلئے دستور میں ترمیم اور دوبارہ صدر بننے کی خاطر نریندر
مودی کی حمایت ناگزیر تھی اس کا فائدہ اٹھاکر مودی نے سنجےجوشی کے اخراج کی
شرط لگا دی ۔ سنجےجوشی کو پھر ایک بار ذلیل کرکے ہٹایا گیا۔ مودی نے اجلاس
میں شرکت کی اور نتن گڈکری کا کام ہوگیا لیکن اسی کے ساتھ مودی اور گڈکری
کے اشتراک نے سنگھ پریوار کی اصول پرستی کو سرِ بازار نیلام کردیا ۔ ابن
الوقتی کی سیاست میں یہ بھی ایک حسنِ اتفاق ہے کہ بدعنوانی کا الزام لگنے
کے بعدنتن گڈکری کی مخالفت سب سے پہلے بی جے پی رکنِ پارلیمان رام جیٹھ
ملانی نے کی اور انہوں نریندر مودی کو وزیر اعظم کا سب سے مؤثر دعویدار
بھی قرار دیا ۔ نتن گڈکری کی موجودہ میقات دسمبرمیں ختم ہو رہی ہے ۔اب
پارٹی کے اندر اس سوال پر از سرِ نو غور ہونے لگا ہے کہ نتن گڈکری کی صدارت
میں بی جے پی کیلئے کانگریس کے خلاف بدعنوانی کے مسئلہ پرانتخاب لڑنا کیا
ممکن ہے ؟ذرائع ابلاغ میں یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ عظیم تر مصالح کے
پیش نظرگجرات اور ہماچل پردیش کے انتخابات تک تو گڈکری کو برداشت کیا
جائیگا لیکن دسمبر کے اواخر میں وہ خود استعفیٰ دے کر نئے صدر کیلئے راہ
ہموار کر دیں گے ۔
بی جے پی کا آئندہ صدر کون ہو اس سوال پر اتفاق رائے نہایت مشکل ہے اس لئے
کہ سشما سے لے کر جیٹلی تک اور وینکیا سے لے کر راج ناتھ ہر کوئی صدارت کا
امیدوار ہے۔ اسی کے ساتھ اس منصب کا سب سے بڑا دعویدار مودی ہے ۔ نریندر
مودی کے سامنے صدارت کی کرسی بھی ہے اور گجرات کا ریاستی انتخاب بھی اس لئے
گزشتہ دنوں اس نے ناگپورمیں جاکرسر سنگھ چالک موہن بھاگوت سے تین گھنٹہ
طویل ملاقات کی ۔ یہ ملاقات اس لئے بھی قابلِ ذکر ہے کہ کچھ عرصہ قبل سنگھ
کا ایک اہم اجلاس گجرات کے بڑودہ شہر میں ہوا تھا جس میں سنگھ کے بڑے رہنما
شریک تھے۔ اس وقت دونوں فریقوں میں سے کسی نے ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں
کی لیکن نتن گڈکری کے پھنستے ہی طاقت کاتوازن بگڑ گیامودی ناگپور پہنچ گئے
بھاگوت نے بھی ان سے ملاقات کیلئے وقت نکالا یہ تبدیلی سنگھ پریوار کا
اندرونی خلفشار کا شاخسانہ ہے ۔
گجرات کے ریاستی انتخاب میں نریندر مودی کی کامیابی کو یقینی سمجھا جارہا
ہے لیکن اس بار حالات کچھ مختلف ہیں ۔ اس سے پہلے گجرات میں مودی کا مقابلہ
صرف کانگریس سے ہوتا تھا جس کی سربراہی بی جے پی ہی ایک باغی رہنما شنکر
سنگھ واگھیلا کیاکر تے تھے ۔۲۰۰۷ میں کیشو بھائی پٹیل نے مودی کے خلاف
علمِ بغاوت بلند کیا تو آر ایس آرایس نے انہیں منع کر دیا لیکن اس بار جب
کیشو بھائی نے اپنی گجرات پریورتن پارٹی قائم کی تو آر ایس آریس نے انہیں
نہیں روکا ۔کیشو بھائی کی حکمتِ عملی واگھیلا سے مختلف ہے۔ واگھیلا نے
بغاوت کے بعد کانگریس کے ساتھ الحاق کرکے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا
اور پھر اس میں شامل ہو گئے تھے ۔ اس طرح زعفرانی رائے دہندگان پر ان کی
بغاوت کا کوئی اثر نہیں پڑا اس کے برعکس کیشو بھائی نےنہ کانگریس سے قربت
اختیار کی اورنہ ہندوتوا کی مخالفت کی بلکہ انہوں نریندر مودی پر الزام
لگایا کہ اس نے گاندھی نگر میں شہر کو خوشنما بنانے کی خاطر ۲۰۰ مندروں کو
توڑا ہےاور گئورکشا کی خاطر مختص کردہ زمین صنعتکاروں کواونے پونے دام بیچ
دی ہے۔ کیشو بھائی پٹیل کو گجرات کے اکثریتی پٹیل برادی کا فرد ہونے کا شرف
حاصل ہے اور ان کے ساتھ سابق مرکزی وزیر کانشی رام رانا کا بیٹا بھی جس کا
تعلق پسماندہ طبقات سے ہے ۔اس طرح گجرات میں اس بار نریندر مودی کے خلاف
ہندوتوا وادی ووٹوں کاایک اور دعویدار کیشو بھائی پٹیل کی گجرات پریورتن
پارٹی کی شکل میں ابھر کرسامنے آیاہے ۔ یہ کس قدر تباہی مچائے گا یہ تو
وقت ہی بتائے گا۔
نریندر مودی کے ناگپور سے واپس آنے کے بعد کیشو بھائی نے اس کے اثرات کو
زائل کرنے کی خاطر آریس ایس کے صوبائی صدر دفتر ہیڈگیوار بھون میں حاضری
دی جہاں ان کا زبردست خیر مقدم کیا گیا ۔ کیشو بھائی پٹیل پہلے ہی سےمودی
مخالف وی ایچ پی رہنماؤں کے رابطے میں ہیں ۔ نریندر مودی نے انتخابات میں
کامیابی کیلئے جو حکمتِ عملی بنائی اس میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہر انتخاب
میں اپنے موجودہ ارکانِ اسمبلی کی بڑی تعداد کو بدل دیتے ہیں اور اس کی یہ
مشرکانہ توجیہ کرتے ہیں کہ ہندو عوام مختلف تہواروں میں مختلف دیوی دیوتاوں
کی عبادت کرتے ہیں اور انتخاب بھی ایک سیاسی تہوار ہے ۔ اس طرح بی جے پی کے
نااہل ارکان کے خلاف عوام کا جو غم و غصہ ہوتا ہے اس سے مودی کو نجات مل
جاتی ہے ۔ اس حکمتِ عملی کا فائدہ نریندر مودی اسمبلی کے علاوہ بلدیاتی
انتخاب میں بھی اٹھایا ہے۔
اس بارمندرجہ بالاحکمتِ عملی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اس لئے کہ پہلے بی
جے پی کے ٹکٹ سے محروم رہنما کانگریس میں نہیں جا پاتے تھے ۔ وہاں کانگریس
کے دعویدارپہلے سےموجود ہوتے جنھیں ناراض کرنا کانگریس کیلئے مشکل ہوتا تھا
۔ بی جے پی پٹے ہوئے مہرے کو امیدوار بنانے سےکانگریس کو اپنے اقلیتی رائے
دہندگان کی ناراضگی کا بھی خطرہ ہوتا تھا ۔ کیشو بھائی کی گجرات پریورتن
پارٹی کیلئے یہ مشکلات نہیں ہیں وہ نئی ہندوتوا وادی پارٹی ہے جس میں بی جے
پی کے باغیوں کا خیر مقدم کیا جاتا ہے ۔ اس کا ہدف انتہا پسند ہندو ووٹرہے
سیاسی موقف بی جے پی جیسا ہی ہے ۔ بی جے پی سے نکل کر جی پی پی میں آنے
والوں کیلئےاپنا بھگواچولا بدلنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ انہیں تو صرف پھر ایک
بار جئے شری رام کا نعرہ لگا کر اپنے سابق رائے دہندگان کو ورغلانا ہے ۔
ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ جن لوگوں کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ انہیں
مودی ٹکٹ سے محروم کر دے گا انہوں نے ابھی سے کیشو بھائی کے ساتھ رابطہ
قائم کرنا شروع کر دیا ہے ۔اسی پریشانی نےغالباًنریندر مودی کوناگپور یاترا
کرنے پر مجبور کیا لیکن ایسا لگتا ہے نریندر مودی کا جادو چل نہیں پایا
ورنہ کیشو بھائی کا ہیڈگیوار بھون میں خیر مقدم نہیں کیا جاتا ۔ نریندر
مودی کے سیاسی مستقبل کا سارا دارومدار گجرات کے انتخاب پر ہے اگر وہ اپنی
ریاست میں ناکام ہو جاتا ہے تو سنگھ پریوار اسے سیاسی کوڑے دان میں پھینکنے
کیلئے ایک لمحہ بھی پس و پیش نہیں کرےگالیکن اگر وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو
اس کے نازو انداز اتھانے پر مجبور ہوجائیگا ۔
سنگھ پریوار کا دھرم سنکٹ یہ ہے کہ وہ جمہوری سیاست میں آنا بھی نہیں
چاہتا اوروہاں رہنا بھی چاہتا ہے ۔ اسے اندیشہ ہے کہ انتخابی عمل کا جبر نہ
صرف اس کے افکار و نظریات کو نگل جائیگا بلکہ اصول و کردار کا بھی بیڑہ غرق
کردے گا لیکن اسی کے ساتھ سنگھ یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ جمہوریت کے گندے
تالاب میں جب تک کمل کا پھول نہیں کھلتا اس وقت تک ہندوستان ہندوراشٹر نہیں
بن سکتا۔اس لئے وہ لاکھ احتیاط کے باوجود آئے دن مشکل میں پھنس جاتا ہے ۔
ہندوستان میں اٹھنے والی دوسری بڑی نظریاتی تحریکیں مثلاًپیری یارکی دراوڈ
کزگم،امبیڈکر اور کانشی رام کی بہوجن تحریک، لوہیا کا سماجواد اور اشتراکی
نظریات کے علمبرداروں کے بالمقابل جن کی نظریاتی بنیادکو انتخابی سیاست نے
پوری طرح تباہ تاراج کردیا ہے سنگھ پریوار اپنا توازن و امتیاز برقرار
رکھنے میں ابھی تک کسی نہ کسی حد تک کامیاب ہے لیکن آگے یہ مشکل لگتا ہے۔
سنگھ پریوار نے ساٹھ سال قبل قومی چوراہے پرتین تین بلیوں کو کچھ فاصلے پر
کھڑا کیا اوران کے درمیان ایک رسی کو باند ھ دیا۔ اس تماشہ کا نام بھارتیہ
جن سنگھ رکھا گیا ۔سنگھ کے لوگ نیچے ڈھول بجاتے اور سنگھ پرچارک دونوں
ہاتھوں میں لاٹھی کو تھامے رسی پر اپنا توازن قائم رکھ کر ہوا میں چلتے ۔
وقت کے ساتھ یہ تماشہ مقبولِ عام ہوتا گیا اور پھر نہ جانے کب انقلابِ
زمانہ نے رسی پر چلنے والوں کو ڈھول بجانے والا بنا دیا اور ڈھول بجانے
والوں کے ہاتھ میں لاٹھی تھما کر انہیں رسی پر چڑھا دیا ۔ لیکن اب یہ کھیل
پرانا ہو چکا ہے ۔ رسی ڈھیلی ہو چکی ہے اس پر چلنے والے مداری کمزور و لاغر
ہو چکے ہیں ۔ڈھول کے شور میں بدعنوانی کھنک شامل ہوچکی ہے ۔کوئی نہیں جانتا
کہ اب یہ کھیل کب تک چلے گالیکن جب یہ مداری اپنا پیر پھسلنے سے یارسی کے
ٹوٹنے سے زمین پر آجائیگا تب بھی ڈھول تو بجتا رہے گا مگرہندوتوا کے غلبہ
کا ایک اور خواب چکنا چور ہو کر بکھر جائیگا ۔ |