سیاسی بُت اور بُت شکن

محمد بن قاسم کی آمد سے پہلے ہندوستان کے ہندوؤں کا یہ عقیدہ تھا کہ انکے ملک کے علاوہ کوئی ملک اس روئے زمین پر نہیں اور انکی قوم کے علاوہ کوئی قوم اس دنیا میں نہیں بستی،اور روئے زمین پر کوئی بادشاہ انکے بادشاہوں جیسا نہیں ،انکے مذہب جیسا کوئی مذہب نہیں اور ان کے جیسا علم وفن بھی دنیا میں کسی کے پاس نہیں،اس خام خیالی نے انہیں ہٹ دھرمی اور حماقت میں مبتلا کر رکھا تھا یہ خام خیالی اس حد تک گھر کرچکی تھی کہ اگر انکے سامنے خراسان و ایران سے کسی علم اور اہل علم کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہنے والے کوا حمق ہی نہیں دروغ گو بھی سمجھتے تھے ،کچھ یہ ہی حال پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا ہے، پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے کم وبیش تیس سال سے اس ملک میں اپنی اجاراداری بنا رکھی ہے ، یہ اجاراداری بھٹو صاحب سے شروع ہوئی ، بھٹو صاحب کی سیاسی موت نے انکے وارثوں کو یہ حق دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اور پاکستان کی عوام کے ساتھ جتنا مرضی کھلواڑ کریں کوئی پوچھنے والا نہیں ، بھٹو کی سیاسی موت نے انہیں یہ حق دے دیا ہے ، اور بھٹو کے سیاسی وارثوں نے اس حق کوخوب استعمال کیا ،اور پاکستان کی عوام اسٹیبلشمنٹ اور عالمی آقاؤں کے تعاون سے خوب لوٹ مار کی ،محترمہ کے شوہر نامدار تو آج اپنے بچوں سمیت حکومت کر رہے ہیں اور عوام اسکا مزا چکھ رہے ہیں، اور باہر بیٹھ کر بلاول اپنے چاقو اور چھریاں تیز کر رہا ہے ، کہ تصور ہی تصور میں سوچ رہا ہوگا کہ اسکی باری کب آئے گی،۔ اسی طرح محترم باچا خان کی نسل بھی ہے کہ بس اللہ کی پناہ ، باچا خان کے بعد ولی خان اور انکی زوجہ محترمہ ، اور اب ولی خان صاحب کا بیٹااسفندیارولی، پچھلے پانچ سال سے کسی نہ کسی سیاسی ضرورت کے تحت زرداری صاحب اپنا کندھا پیش کررہا ہے ، انکی پیروی کرتے ہوئے جناب مفتی محمود کے بعد انکے تمام صاحب زادے اپنا اپنا حق ادا کر رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان میں مولانافضل الرحمان اپنی ثانی نہیں رکھتے ، موصوف 1988 سے آج تک الحمداللہ ہر گورنمنٹ کا حصہ ہیں اور اپنی سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ڈیزل کے پرمٹ اور سرکاری زمینیں لے لیتے ہیں اور کچھ بھی نہیں ، اسی طرح گجرات کے صاحبان بھی ہیں چوہدری ظہور الہی اور اسکے بعد انکے بچے اور داماد ، یہ موصوف جو شجاعت اور پرویز الہی کی صورت میں ہیں اب ایک لمبے عرصے تک کھیل کھیل کر تنگ آچکے ہیں کچھ آرام کے واسطے ،اور اپنی اگلی نسل کی باری کے لیے اپنے صاحبزادوں کو تربیت دے رہے ہیں ، اسی تربیت کی روشنی میں ایک صاحب زادے ایل این جی والا چن چڑھا چکے کر، اپنے بزرگوں کو پیغام دئے چکے ہیں کہ تم اگر بنک آف پنجاب کو آگے پیچھے کر سکتے ہو تو میں نے بھی شکار شروع کر دیا ہے ،اسی طرح کراچی کے بھائی لوگ بھی ہیں ، خود تو اب خیر سے برطانیہ کے شہری ہیں ، اور پاکستان کے قانون کے مطابق اشتہاری ہیں موصوف پر درجنوں قتل کے پرچے ہیں اور بلوے غداری کے علاوہ ،مگر موصوف کمال کے قصائی ہیں ، لندن میں بیٹھ کر اچی کا چین ختم کرنے میں اپنے کردار پوری ایمانداری سے انجام دے رہے ہیں، کچھ بات لاہور کے شریفوں کی ، لاہور کے شیریف بر بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے ، میاں صاحب سیاست میں آئے تو بھائی کا ساتھ دینے کے لیے دوسرا بھائی بھی میدان میں کود گیا دیکھتے دیکھتے لاہور فتح کر لیا ، پھر انہوں نے بھی اپنی اگلی نسل کی تربیت شروع کر دی ، گجرات کے چوہدریوں کی طرح انکے اگلی نسل بھی بہت چن چڑھا رہی ہے، اور حکومت کا ایک فائدہ یہ بھی کہ جو مرضی کاروبار کرو ، گھاٹے کا سوال ہی نہیں ، لوہا کی صنعت ہو یا مرغی کی یا چینی کی یا اب دودھ کی ، انکا کاروبار خوب چمکا ، نہیں کچھ چمکا تو بیچاری عوام کا ، یہ تمام خاندان اب سیاسی بت بن چکے ہیں ، لوگ ان سے تنگ بھی ہیں مگر یہ لوگوں کو سبز باغ دیکھا کر حکومت آجاتے ہیں ، یہ لوگون کو کہتے ہیں کہ اگر تم نے ہم کو ووت نہ دیا تو فلاں حکومت میں آجائے گا ، بیچاری عوام پی پی پی کی ڈسی ن لیگ کو لاتی ہیں اور ن لیگ سے ڈنگ کھا کے پی پی پی کو ، کیوں کہ اور کو ئی آپشن ہی نہیں، پھر یکا یک حالات بدلتے ہیں اور لاہور میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر عمران خان اکھٹا کر لیتے ہیں،تاریخ کا یہ سبق ہے کہ وقت جب ایک بار ہاتھ سے نکل جائے تو پھر ہاتھ نہیں آتا ،حالات بتاتے ہیں ، سیاسی پارٹیاں اب بھی کچھ کر لیں حالات انکے کنڑول سے باہر ہی ہوتے جائیں گے ، کیونکہ وقت اب بدل چکا ہے اور نوجوان جاگ چکا ہے ،اور کم وبیش چار دہائیوں تک عوام کو الو بنانے والے اور اپنے آپ کو سیاسی بت سمجھنے والے اب خوف میں مبتلا ہیں کیونکہ وہ برصغیر کے ہندوں کی طرح یہ سمجھتے رہے کہ کوئی ان جیسا نہیں ۔مگر نوجوانوں نے ان سیاسی بتوں کا بُت شکن ڈھونڈ لیا ہے ، اور وہ ہے عمران خان -
Naveed Rasheed
About the Author: Naveed Rasheed Read More Articles by Naveed Rasheed: 25 Articles with 24556 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.