پروفیسر مظہر
یہ حیا تِ ارضی اور خُمارِ ہستی تو حباب و سراب اور نفس کے پُر فریب
خوابوںمیں لپٹی ہوئی نیند کے سوا کچھ بھی نہیں۔یہ نیند اُ س وقت ٹوٹے گی جب
”ایک ڈانٹ پڑے گی اور سب اکٹھے ہو جائیں گے“ ۔تب ہو گی اُ س زندگی کی ابتدا
جس کو موت نہیں اور تبھی زمین پر جبر و استبداد کے پرچم لہرانے اور فساد کی
فصل اُگانے والوں کو الگ کر دیا جائے گا ۔وہ فریاد کریں گے کہ اے اللہ تو
ہمیں بس ایک بار دُنیا میں بھیج دے ، ہمیں تیری قسم ہم پھر ایسا نہیں کریں
گے ۔ لیکن جواب ملے گا کہ تحقیق کہ اگر ہم تمہیں ہزار بار بھی دنیا میں
بھیجیں تو پھر بھی تم ایساہی کرو گے جیسا پہلے کرتے آئے ہو۔
روزِ حشر کا علم تو سبھی کو ہے کہ خالقِ کائینات نے اِس ازلی صداقت کو ہر
ذی روح کی لوحِ حافظہ پر محفوظ کرکے بھیجا ۔لیکن ہم نے شعور کی آنکھ کھولتے
ہی اسے دماغ کے کسی تاریک گوشے میں محض اس لئے پھینک دیا کہ پتہ نہیں قیامت
کب آئے گی لیکن حکمت کی کتاب میں تو درج ہے کہ ”اے نبی ان سے پوچھو کہ یہ
کس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے لئے تو وہی قیامت کا دن ہے جب ان کی
آنکھ کی پُتلی پھر جائے گی “۔ اندازہ خود لگا لیجیئے کہ قیامت ہم سے کتنی
دوری پر ہے ؟۔لیکن ہمیں تو بس یہ پتہ ہے کہ ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم
دوبارہ نیست“۔گویا ہم نے اس عالم کی نیستی سے آگہی کے باوجود اسے ہستی پر
ترجیع دیتے ہوئے امانت ، دیانت ، صداقت ، شرافت ، سبھی کچھ تیاگ کر یہ
سمجھا کہ عبدِ جہالت اور ابنِ حماقت تو وہ ہے جو ہستی کو نیستی پر ترجیع
دیتا ہے ۔اگر یہ سچ نہیں تو پھریہ بتلا دیجئے کہ کتنے قلمکار ہونگے جن کی
صحافت قوس و قزح میں سجی صداقت اور قلب و نفس سے نکلی دیانت کی امانت دار
ہے ؟۔ کون ہے جس کا قلم لفظوں کی خوشبو سے غسل کرکے صداقتوں کے نورانی آنچل
سے بدن پونچھتا ہے ؟۔کس زور آور کے ہاتھ سے کمزور محفوظ ہے اور کس حاکم کا
بدن پُرسش کے خوف سے لرزہ بر اندام ہے ؟۔شام کے سفر کے دوران امیر
المومینین حضرت عمرؓ کو ایک خیمے کے باہر ایک بوڑھی عورت بیٹھی نظر آئی ۔آپ
ؓ نے قریب جا کر پوچھا ”کچھ خبر ہے ، عمرؓ کا کیا حال ہے ؟۔ بڑھیا نے کہا ”
شام روانہ ہو چکا ، خُدا غارت کرے، آج تک مجھے اُس کی طرف سے کچھ نہیں ملا
“۔ آپ نے کہا ”اتنی دور کا حال عمر کو کیا معلوم“؟۔بُڑھیا نے جواب دیا
”رعایا کا حال معلوم نہیں تو خلافت کیوں کرتا ہے “؟۔یہ سُن کر حضرت عمر بے
اختیار رو دیئے اور معافی مانگی۔لیکن ہمارے حکمرانوں کو تو اپنے پیٹ بھرنے
سے ہی فُرصت نہیں ۔اگر وہ واقعی حکمران ہوتے تو کسی معصوم ملالہ کی کنپٹی
میں سوراخ ہوتا نہ وہ سیاست کی بھینٹ چڑھتی۔
پوری قوم تو اس وحشت ، درندگی اور قابلِ نفرت فعل پر یکسو ہوہی گئی تھی
لیکن یہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو قبول تھا نہ دانشوروں کو کیونکہ ایسا
کرنے سے نہ الیکٹرانک میڈیا کے مالکانوں کا کاروبار چمکتا تھا اور نہ ہی
اینکرز کی ”ریٹنگ“ بڑھتی تھی ۔حصولِ مقصد کیلئے انہوں نے مذہبی جماعتوں کو
ٹارگٹ بنایا۔ہر قابلِ ذکر مذہبی رہنما نے اس وحشیانہ فعل کی بھر پور مذمت
کی لیکن اینکرز کرید کرید کر متنازع سوالات کرنے لگے ۔ابتداءمیں مذہبی
رہنماؤں نے طرح دینے کی بھرپور کوشش کی لیکن با لآخر ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے
مصداق وہ بھی کھُل کر سامنے آ گئے۔ہمارا یہ قومی المیہ ہے کہ ہم اپنی رائے
فائق اور دوسرے کی فاسد سمجھتے ہیں اورہمارے ہاں احترامِ رائے کی سرے سے
کوئی روایت ہی نہیں جس کی بنا پر تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ملالہ یوسف زئی
کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔وہ متنازع ہو ئی اورپھر یہاں تک کہا اور
لکھا جانے لگا کہ ”گُل مکئی “ کے نام سے لکھی جانے والی ڈائری دراصل اوسط
ذہن کی مالک ملالہ نے نہیں بلکہ اسی سکول کی ایک ذہین بچی نے لکھی تھی جسے
ملالہ کے والد ضیاءالدین نے ملالہ کے نام سے منسوب کرکے دنیا کے سامنے
افشاءکر دیا ۔ضیاءالدین کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے غیر ملکی
میڈیا سے مراسم تھے ، ایک غیر ملکی چینل کا نمائیندہ چھ ماہ تک اس کے ساتھ
رہا اور ملالہ پر حملے کے بعد ضیاءالدین کی مالی حالت میں ”خاصی تبدیلی“
نظر آنے لگی ۔مجھے ان الزامات کی صحت سے انکار ہے لیکن اگر یہ سب کچھ سچ
بھی ہو تو پھر بھی کیا دنیا کا کوئی قانون یا ادیانِ عالم میں سے کوئی دین
کسی بد فطرت کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی معصوم کی جان کے درپے ہو جائے
؟۔ پھر میرا دین تو ہے ہی محبتوں ، رحمتوں اور شفقتوں کا دین ۔مصحف مجید کا
حرف حرف پڑھ لیجئے ، آپ کو کہیں ایسا درس نہیں ملے گا۔یہ کام تو جنونی کر
سکتے ہیں یا ایسے ضمیر فروش جو عیشِ دنیا کی خاطر اپنے ملک و ملت ہی نہیں
بلکہ دین و ایمان کا سودا بھی کر لیتے ہیں ۔
بات جب ضمیر فروشی اور عیش کوشی کی ہو تو پھر کیا جنونی اور کیا دہشت گرد ،
اس حمام میں تو سبھی ننگے نظر آتے ہیں۔یہاں تو قدم قدم پر ایسے لوگوں سے
واسطہ پڑ تا ہے جو ”آنکھ کی پُتلی پھرنے سے پہلے “ سب کچھ اپنی جھولی میں
سمیٹنے کی تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں ۔کل سپریم کورٹ نے اصغر خاں کیس کے
مختصر فیصلے میں لکھا کہ 1990 ءکے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ، جنرل (ر) اسلم
بیگ اور اسد درانی نے بنکار یونس حبیب سے چودہ کروڑ وصول کرکے چھ کروڑ
سیاست دانوں میں بانٹے اس لئے اُن کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور ایف
آئی اے ایسے سیاست دانوں کے خلاف تفتیش کرے جنہوں نے رقومات وصول کیں۔سپریم
کورٹ نے یہ حکم بھی دیا کہ ایوانِ صدر ، آئی ایس آئی یا ایم آئی کا سیاسی
سیل فوری طور پر ختم کیا جاتا ہے کیونکہ یہ حلف کی خلاف ورزی ہے جس پر
کارروائی ہونی چاہیے ۔ جنرل اسلم بیگ ، جنرل اسد درانی اور یونس حبیب کے
اقبالی بیان تو سامنے آ چکے ہیں لیکن کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت
نے رقم کی وصولی کا اقرار نہیں کیا البتہ جنابِ وزیرِ اعظم نے ہنگامی پریس
کانفرنس کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ مجرموں کو کٹہرے میں لایا
جائے گا ۔ان کے اس بیان پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ پاکستان میں
ایسا کوئی رواج نہیں لیکن اگر ایساہو گیا تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ
صبح اُمید کی نوید ہو گی ۔ یونس حبیب نے جن اصحاب پر الزام لگایا ہے وہ یا
کم از کم اُن میں سے بیشتر قوم کے نزدیک انتہائی محترم و معتبر ہیں ۔اگر وہ
واقعی مجرم ہیں تو پھر قوم کی آنکھیں کھولنے کے لئے انہیں کٹہرے میں لایا
جانا ضروری ہے ۔ پیپلز پارٹی کے ہاں جشن کا سا سماں ہے ۔وہ اپنی تمام تر
توانایاں میاں نواز شریف پرصرف کرکے اپنی سیاسی دوکان چمکانے کی کوشش کر
رہے ہیںحالانکہ یہ فیصلہ ان کے لئے بھی لمحہ ¿ فکریہ ہونا چاہیے کیونکہ جس
یونس حبیب نے میاں نواز شریف پر پینتیس لاکھ کی وصولی کا الزام لگایا ہے
اسی نے محترمہ بینظیر شہید کو بھی پانچ کروڑ دینے کا اقرار کیا تھا ۔اگر
میاں صاحب نے پینتیس لاکھ وصول کیے ہیں تو پھر بی بی شہید نے بھی کیے ہونگے
۔رقم کے لین دین کے علاوہ اکابرینِ پیپلز پارٹی نے شایدسپریم کورٹ کا فیصلہ
غور سے نہیں پڑھا جس میں صاف لکھا ہے کہ ایوانِ صدر میں سیاسی سیل کا قیام
حلف کی خلاف ورزی ہے ۔اب یہ فیصلہ جنابِ صدر کو کرنا ہے کہ وہ صدارت سے
استعفیٰ دے کرقوم کے پاس واپس آتے ہیں یا سیاست تیاگ کر محض صدر بننا پسند
فرماتے ہیں؟۔ |