جب کسی مریض کا آپریشن ہوتا ہے
توسرجن یہی سمجھتا ہے کہ مریض کے جسم سے مضرت رساں حصہ کو نکال دیا گیا ہے
اور اعضاءاب ٹھیک ٹھاک کام کریں گے۔ یہ پتہ بعد میں چلتا ہے کہ جس عضو میں
خرابی تھی وہ بدستور جسم کوہلاک کررہا ہے اور جو صحت مند تھا وہ نشتر کی زد
میں آگیا ہے۔ بسا اوقات اوپر سے لگتا ہے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے مگر اندر کوئی
قینچی یا گاج وغیرہ چھوڑ دی اور ٹانکے لگادئے ۔ مگرہمارے وزیراعظم ڈاکٹر من
موہن سنگھ صاحب نے گزشتہ اتوار کو اپنی کابینہ کی جو جراحی فرمائی ہے، اس
پر تو روز اول سے ہی شک کیا جارہا ہے کہ اس سے سرکار کے گرتی ہوئی صحت میں
مطلوبہ بہتری آسکے گی یا نہیں؟ مثلاً سلمان خورشید صاحب کو امور خارجہ کا
قلمدان دیا جانا باعث استعجاب ہے۔ ان کی پر کشش شخصیت،لیاقت اور قوت
استدلال پر تو کوئی شک نہیں ،لیکن حال میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جس طر
ح وہ اشتعال میں آگئے، اس کو نظر انداز نہیںکیا جاسکتا۔ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ
سفارتکاری کا منصب جس انتہائی صبر و تحمل اور ٹھنڈے دماغ کا طالب ہے، اس کا
ان میں فقدان ہے۔
تاہم کرپشن کے حوالے سے جو اعتراض اس تقرری پر کیا جارہا وہ قطعاً مہمل
ہے۔یہ تو ممکن ہے کہ معذوروں کو آلات کی تقسیم میں کارکنوں نے کچھ بے
احتیاطی برتی ہو۔ اس طرح کی کیمپوں میں جو ضرورت مند آتے ہیں، ان کے نام
پتوں کی جانچ پڑتال کون کرتا ہے؟ جس نے جو نام پتہ بتادیا، درج کرلیا اور
خیراتی سامان دیدیا ۔بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اصل ضرورت مند موقع پر
نہیں پہنچ سکا اوراس کی ضرورت کا سامان اسے پہنچانے کےلئے کسی اورکے حوالے
کردیا گیا۔یہ بھی ہوسکتا ہے کسی جگہ باضابطہ کیمپ نہ لگا ہو اور ضرورتمندوں
کو کارکنوں نے بغیر کیمپ لگائے ہی آلات پہنچادئے ہوں۔کج کلام کجریوال اگر
یہ ثابت کرتے کہ جوآلات تقسیم دکھائے گئے ہیں وہ سرے سے خریدے ہی نہیں گئے
یا چور بازار میں فروخت کئے گئے اور فائدہ ٹرسٹیوں نے اٹھایا، تب بات دوسری
ہوتی۔جو’ثبوت ‘ پیش کئے گئے ان کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا
کہ جان بوجھ کر ٹرسٹیوں نے کوئی گھپلہ کیا ہوگا۔ چنانچہ میڈیا اور اپوزیشن
کا یہ شور مچانا کہ کرپشن کے الزام کے باوجود سلمان خورشید کو زیادہ اہم
منصب دیدیا گیا،سراسر لغو ہے۔
ہر چند کہ قیاس کیا جارہا ہے اس تقرری سے مسلم ممالک میں اچھا پیغام جائے
گا مگر اندیشہ یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک کے تعلق سے کھل کر کوئی موقف اختیار
کرنے میں ان کو دشواری پیش آئیگی اور ’مسلم نوازی‘ کے الزام کے ڈر سے وہ
کوئی ایسا اسٹینڈ نہیں لے سکیں گے جس میں مسلم دنیا سے یگانگت اورانسیت کا
رنگ جھلکتا ہو۔ خصوصاً سارک تصورکی صورت گری اور سافٹا کی پیش رفت پر منفی
اثر پڑسکتا ہے۔یہ امید کم ہے کہ وہ سارک کے دو اہم رکن ممالک بنگلہ دیش اور
پاکستان کے ساتھ رشتوں کے فروغ میں سرگرمی دکھائیں گے۔ ہمارے ان اندیشوں کی
بنیاد ان کا وہ الٹرا سیکولر انداز فکرہے جس کا اظہار انہوں نے وزیر قانون
اور وزیر اقلیتی امور کی حیثیت سے کیا ۔ ہر چند کہ پڑوسی ممالک خصوصاًچین
اور پاکستان کے ساتھ خوش ہمسائیگی کادریچہ کھولنے کا سہرا سابق وزیر اعظم
اٹل بہاری باجپئی کے سر ہے، اور حال ہی میں سنگھ نے بھی اپنے موقف میں
اصلاح کے اشارے دئے ہیں، لیکن میڈیا، خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کادباﺅ سلمان
خورشید پر رہیگا۔ ہر چند کہ وہ جب بھی پڑوسی ملک کی اپنی ہم منصب سے ملیں
گے تو فوٹو سیشن زیادہ دلکش ہوگا مگر ذہنی تحفظات اور میڈیا کا دباﺅ( جو ان
پر اب بھی ہے) شاید ہی کسی قابل ذکر پیش رفت کی گنجائش پیدا ہونے دیں۔ ایک
اہم سوال اسرائیل نوازی کا بھی ہے۔ شاید ان کو اپنی وزارت کی اسرائیل
نوازلابی کو مطمئن رکھنے میں فطری طور سے قباحت محسوس نہ ہو مگر اس سے خود
ان کے اپنے سیاسی مستقبل پراور ’کانگریس کے مسلم لیڈر‘ کی شبیہ پر سوالیہ
نشان لگ سکتا ہے۔ اگر انہوں نے ملّی مزاج و حمیت کو زرا بھی فوقیت دی تو
صہیونی اور سنگھی لابی ان کےلئے مشکلات پیدا کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔
لیکن بہرحال وزارت قانون اور وزارت اقلیتی امور کے مناصب سے ان کی رخصتی کا
خیر مقدم کیا جائیگا۔ عام احساس ہے کہ ان دونوں وزارتوں کے سربراہ کی حیثیت
سے ان کے اقدامات نے اقلیتوں کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔ مسلم یونیورسٹی
کے کشن گنج سنٹر کےلئے مرکزی فنڈ کی اجراءکامعاملہ ان کے ایک خط سے اٹکا۔
اقلیتوں کےلئے ریزرویشن کے وہ روز اول سے مخالف تھے، چنانچہ انتخابی ضرورت
کے تحت جب ریزرویشن کا لالی پاپ تجویز ہوا توقانون میں ایسا سنگین سقم داخل
کردیا گیاکہ عدالت نے پہلی ہی نظر میں اس کو معدوم کردیا۔حق تعلیم ایکٹ میں
اقلیتوں کے مفادات کو زک پہنچانے والی شقیں ان کی وزارت کی منظوری سے شامل
ہوئیں۔ ایسی ہی روش ان کی وقف ترمیمی بل کے معاملے میں رہی۔ وزارت قانون نے
پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کے علی الرغم مجوزہ بل میں ایسی شقیں شامل
کردیں جس سے مسلم اوقاف کا اصل منشاءہی فوت ہوجائے اور وہ غیروں کی اجارہ
داری میں چلے جائیں۔ ان پہلوﺅں پر برادرمکرّم ڈاکٹر سید ظفر محمود، آئی آر
ایس، نے بروقت گرفت نہ کی ہوتی تو یہ بل بھی اسی طرح منظور ہوجاتا جس طرح
حق تعلیم ایکٹ منظور ہوگیااور جس میں مدارس اور اقلیتی سیکولر تعلیمی
اداروں کو زد پر لے لیا گیا۔ مدارس کو تو خیر بعد میں استثنا مل گیا مگر
اسکولوں پر تلوار ابھی تک لٹکی ہوئی ہے۔ اسی طرح لازمی شادی رجسٹریشن کو
بھی ان کی تائید حاصل ہے حالانکہ اس کی منشاءعائلی نظام میں دخل اندازی اور
شادی بیاہ کے معاملوں میں مغرب کی کج فکری کو قانونی شکل دینا ہے۔ لیکن اب
کے رحمٰن خان صاحب کو مرکزی کابینہ میں لئے جانے اور اقلیتی امور کا قلمدان
ان کو تفویض کئے جانے سے یہ امید کی جارہی ہے کہ اقلیتوں سے متعلق جملہ
امور خصوصاً مرکزی اسکیموں کے بہتر نفاذ کی جانب پیش قدمی ہوگی، جس کا
عندیہ انہوں نے ظاہر بھی کیا ہے۔ بیشک رحمٰن خان صاحب ان مسائل پر مسلم
نقطہ نظرکی معقولیت کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں ۔کئی مرحلوں پر وہ اس
کی نمائندگی بھی کرچکے ہیں۔
اس الٹ پھیر میں مسٹر پون کماربنسل کو ریلوے کا وزیر بنایا گیا ہے۔ اس سے
قبل وہ آبی وسائل کے وزیر اور پارلیمانی امور کے ویز رہے مگر کچھ خاص نہیں
کرسکے ۔ اس وزارت کےلئے جے پال ریڈی زیادہ موزوں ہوتے۔ ان کو اگر پیڑولیم
وزارت سے ہٹاکر ریلوے کا محکمہ دیا جاتا تو سرکار پر ایک خاص کارپوریٹ
گھرانے کے دباﺅ میںآجانے کے الزام کی گنجائش نہ رہتی اور ریلوے کی بھی کایا
پلٹ ہو جاتی۔ پیٹرولیم کی وزارت میں ان کی جگہ ویرپا موئلی کو لانے سے کچھ
اچھا پیغام نہیں گیا ہے۔بحیثیت وزیر قانون ان کی کارکردگی سے سرکار کی شبیہ
میں کوئی بہتری نہیں آئی تھی۔ البتہ مسٹر جتیندر سنگھ کو کھیل کود کے
آزادنہ چارج کے ساتھ وزیر مملکت بنایا جانا یقینا نوجوانوں کےلئے خوش خبری
ہے۔ مسٹر سنگھ کھلیوں کے فروغ میں عملی دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کو وزارت دفاع
میں بھی ویزر مملکت مقرر کیا گیا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ وہ ان دونوں
ذمہ داریوںکو بخوبی ادا کرسکیں گے۔
ریلوے کی وزارت جو 2009 سے ٹی ایم سی کے قبضہ میں تھی، اس میں مغربی بنگال
کے کانگریسی لیڈر ادھیر رنجن چودھری کو وزیر مملکت بنایا گیا۔ان کی تعلیم
زیادہ نہیں۔ اسکول کے ڈراپ آﺅٹ ہیں۔ اس لئے کار وزارت کےلئے ان کی موزونیت
پر شک کیا جاسکتا ہے، مگر مغربی بنگال کی سیاست میں ٹی ایم سی کے مقابلے
میں ان کی ٹوپی میں وزیر کی کلغی ضرور فائدہ دیگی۔ اسی طرح مغربی بنگال کے
قدآور لیڈر اے بی اے غنی خان چودھری مرحوم کے بھائی اے ایچ خان چودھری کو
کابینہ میں لئے جانے سے ریاست کے اقلیتی رائے دہندگان میں اچھا پیغام جائے
گا جن کا ممتا سے موہ بھنگ ہوتا جارہا ہے۔ سابق مرکزی وزیر پریہ رنجن داس
منشی کی اہلیہ دیپا منشی کی تقرری بھی سیاسی اہمیت کی ہے ۔امید کی جانی
چاہئے کہ یہ نئے چہرے ریاست میں ٹی ایم سی کے مقابلے کانگریس کی شبیہ کو
بہتر کرنے میں معاون ہونگے۔ان سی پی رہنما طارق انور کی شمولیت پر بھی
اقلیتی طبقہ میں خوشی محسوس کی جارہی ہے۔ تین نئے مسلم چہروں کے اضافے سے
کابینہ میں مسلم نمائندگی بہتر ہوئی ہے۔مگر بہار اور یوپی کی نمائندگی ابھی
کم ہے۔ قیاس کیا جارہا تھاکہ بہار سے کانگریس کے واحد مسلم ایم پی مولانا
اسرارالحق قاسمی اور یوپی سے سابق وزیر رشید مسعودکو بھی وزیر بنایا جائےگا،
مگر لگتا ہے کہ فی الحال مرکز کو فکرصرف مغربی بنگال اور اندھرا پردیش کی
ہے ۔ تلنگانہ تنازعہ کی بدولت اندھرا سے سب سے زیاد پانچ نئے وزیر شامل کئے
گئے ہیں۔ اس پھیر بدل میںکچھ باصلاحیت نوجوان وزیروں کا رتبہ بڑھاہے اور 17
نئے چہرے شامل کئے گئے ہیں جس سے کابینہ کا رنگ روپ بدلا ہے۔ مگر دیکھنا یہ
ہے کہ کارکردگی پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔ بہرحال اتنا ضرور ہے بھاجپا صدر
نتن گڈکری کی کمپنی پورتی پاور ایند شوگر لمٹیڈ کے حصص کے فروخت میں بلیک
منی کی لانڈرنگ کے جلی الزامات اور کابینہ میںاس رود و بدل سے یو پی اے پر
دباﺅ کم ہوگیا ہے۔ البتہ مہنگائی اور گیس سلنڈروں میں کٹوتی کی تلوار لٹکی
ہوئی ہے۔ ایک خبر یہ ہے مرکز نے اصولی طور یہ سلنڈروں کی تعداد چھ سے بڑھا
کر نو کردینے کا فیصلہ کرلیا ہے مگر ہماچل پردیش اور گجرات اسمبلیوںکے چناﺅ
کی وجہ سے اعلان نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس اعلان کے موخر ہوجانے سے
اکثرصارفین پر کوئی اثر اس لئے بھی نہیں پڑنے والا کہ سال کے اختتام تک ان
کو تین مزید سلنڈر لینے کا موقع ہے۔ (ختم) |