آج نوّے کی دہائی کا اوائل پھر
یاد آگیا۔ کراچی میں شدید آپریشن جاری تھا ۔ الطاف حسین صاحب جان بچا کر
عازمِ لندن ہو چکے تھے۔ ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت جان بچانے کے لئے ملک
اور بیرونِ ملک روپوش ہوچکی تھی۔ کارکنان اپنی جانیں بچانے کیلئے کونے
کھدروں میں چھپتے پھر رہے تھے۔ جس کا جہاں سینگ سمائے، جان بچانے کےلئے
بھاگ رہا تھا۔ ان کارکنوں کی بڑی تعداد آج بھی جنوبی افریقہ، برطانیہ،
فرانس اور دوسرے ممالک میں رہ رہی ہے۔ اور جو پیچھے رہ گئے ان کے لئے
آپریشن، گرفتاریاں، اور آخر میں جعلی مقابلوں میں مرنے کے علاوہ کوئی راستہ
نہ بچا سوائے حقیقی میں شمولیت کے۔
قارئین میں سے اکثر کو یاد ہوگا کہ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کی جو بڑی
وجوہات بتائی گئی تھیں ان میں سے ایک تھی پاکستان توڑ کر جناح پور کا قیام
اور دوسری تھی اسلحہ کے زور پر ریاست کے اندر ریاست قائم کرنا۔ اس آپریشن
میں ایم کیوایم کے ہزاروں کارکنان قتل کر دئیے گئے اور اس کی تنظیمی ڈھانچہ
کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا مگر آج مجھے یہ سوچ کر حیرت ہو رہی ہے کہ نہ
تو اس وقت اور نہ اس کے بعد ایم کیو ایم نے فوج کے خلاف اسلحہ اٹھا کر
اعلانِ جنگ کیا اور نہ ہی آج تک ایسی کسی کاروائی کی حمایت کی۔ ایم کیو ایم
پر یہ الزام تھا کہ ان کی مرضی کے بغیر کراچی میں کوئی داخل بھی نہیں ہو
سکتا اور نہ ہی کوئی ریاستی ادارہ اس کے حکم کی خلاف ورزی کی ہمّت کر سکتا
ہے مگر جب ان کے خلاف پہلا فوجی آپریشن اور پھر دوسرا پولیس آپریشن ہوا تو
دنیا نے دیکھا کہ ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنان مارے گئے جبکہ ان سے
مقابلے میں اکّا دکّا فوجی شہید ہوئے جبکہ پولیس شہادتیں بھی انتہائی محدود
تھیں۔ اور ان سب باتوں کے باوجود ایم کیو ایم قیادت نے کبھی ریاست کے خلاف
بغاوت کا نہ تو اعلان کیا اور نہ ہی حوصلہ افزائی۔
اس کے بر عکس آج منوّرحسن صاحب، امیر جماعتِ اسلامی، کا انٹرویو دیکھ کر [ٹو
دی پوائنٹ ۱ نومبر ۲۰۱۲] شرم سے سر جھک گیا۔ آج سے پہلے بھی جناب قاضی حسین
احمد صاحب عموماً کھل کر طالبان پاکستان کی مذمّت نہیں کرتے تھے مگر جناب
منوّر حسن صاحب نے تو حد ہی گزار دی۔ ایک طرف تو تجاہلِ عارفانہ کہ طالبانِ
پاکستان کے وجود کو ماننے سے گریز اوردوسری طرف طالبانِ پاکستان کی
کاروائیوں کو فوج کی وعدہ خلافیوں کا ردّعمل قرار دے کر جائز قرار دینے
کوشش۔ اور پھر جب پروگرام کے میزبان نے ان سے گھیر کر سوال کیا تو جناب نے
فرمایا کہ اگر پاکستان کی حکومت امریکہ کا ساتھ دے رہی ہو تو جہاد کا حکم
ان پر بھی لاگو ہوگا۔ قارئین بہتر طور پر جانتے ہیں کہ تحریکِ طالبانِ
پاکستان یہی دلیل استعمال کر کے بے عقل نوجوانوں کو معصوم پاکستانیوں کو بم
دھماکوں سے مروانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور آج جماعتِ اسلامی جیسی روشن
خیال اسلامی جماعت ان ملک دشمنوں کی دلیلوں کو سندِ قبولیت دے رہی ہے۔ حضور
ان طالبان کی حمایت کرنا جو غیر ملکی جارحیت کے خلاف جہاد کر رہے ہیں ایک
الگ بات ہے مگر پاکستان جیسے اسلام کے نام پر بنے ملک کے خلاف جہاد کرنے کی
ترغیب دینا تو کہیں سے بھی اسلام نہیں ۔ اس ہی پروگرام میں میزبان نے آپ کا
بیان پڑھ کر سنایا [ میں نے اس پرانے انٹرویو کے بارے میں بھی اس فورم پر
خیال آرائی کی تھی] جس میں آپ نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں حالات اس قدربرے
نہیں کہ ہتھیار اٹھا کر جہاد کرنا پڑے۔ ابھی یہاں تبلیغ سے کام آگے بڑھایا
جا سکتا ہے۔ اور آج آپ نے حکومت کے خلاف ہی جہاد واجب کرا دیا؟آپ جیسی
جماعتوں کے اسی طرح کے رویّوں کی وجہ سے شمالی پاکستان میں پاکستانی فوج کا
جانی نقصان تمام جنگوں کے مجموعی جانی نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔ طالبان تو
ہمیں بھی اچھے لگتے ہیں مگر تحریکِ طالبانِ پاکستان کی حمایت توصرف آپ ہی
لوگ کر سکتے ہیں یا ان کی کامیابیوں پر ہنودویہود خوش ہو سکتے ہیں۔
پاکستانی فوج کے خلاف جو یہودوہنود نہ کر سکے وہ تحریکِ طالبان پاکستان نے
کر دکھایا۔ ہم تو ایک سربجیت سنگھ کو ہی رو رہے تھے اور تحریکِ طالبا ن
پاکستان نے تو گھر گھر سربجیت سنگھ پیدا کر دئیے جو پاکستا نیوں کو بم
دھماکوں سے مار مار کر خوش ہو رہے ہیں۔ اور آپ جیسی اسلامی جماعتوں سے دادِ
شجاعت پا رہے ہیں۔
آج تو مجھے الطاف حسین ہی اچھا لگا کہ اس نے میرے وطن پاکستان کے خلاف
اعلانِ جنگ تو نہیں کیا۔
براہِ کرم امیرِ جماعت اسلامی جناب منوّرحسن صاحب کا انٹرویو دیکھے بغیر
کوئی تبصرہ نہ کریں۔ |