مہنگائی کا ذمہ دار میں نہیں ہوں،
وزیر خزانہ کا معنی خیز جملہ، توپھر کون ہے..؟
جب وزراءکا سارانزلہ وزارتِ خزانہ پر گِرا...؟وزیرخزانہ کوئلوں کی دلالی
میں ہاتھ کالے نہ کریں...!!
موجودہ حکومت جِسے ایک لمبی آمریت کے بعد ملک کی پہلی مکمل جمہوری حکومت
ہونے پر بڑاناز ہے اور آج یہی وہ حکومت ہے جو عوام کو مہنگائی، بھوک وافلاس
کے کیچڑمیں لت پت کرنے اور بجلی ، گیس اور توانائی کے بحرانوں کے کنوئیںمیں
دھکیلنے کے بعد جیسے تیسے یعنی اپنے پیر رگڑتے اپنی مدت پوری کرنے کو ہے
مگرایسے میں اِسے پھر بھی یہ اُمید ہے کہ عوام اِس کے کارناموں( کرتوتوں)
کو دیکھتے ہوئے اِسے ہی دوبارہ اقتدار سونپیں گے مگر مجھے یقین ہے کہ
اگراِن گھمبیر حالات کے باوجودمستقبل میںہمارے یہاں حقیقی معنوں میں صاف
وشفاف انتخابات ہوئے جس کی حکمران جماعت کی طرف سے بازگشت( اُلٹ پلٹ کر)
سُنائی دے رہی ہے تو پھرعوام کویہ اُمید ضرور رکھنی چاہئے کہ جب آئندہ برس
جنرل انتخابات مارچ یا مئی میں ہوں گے تو اِن انتخابات کے بعد کوئی دوسری
جماعت برسرِ اقتدار آئے گی جو عوام کے مسائل بھی حل کرے گی اور اِن کے دُکھ
کا بھی مداواکرے گی مگر بدقسمتی سے اگر یہی حکومت پھر آگئی تو پھر یہ حسبِ
معمول پہلے اپنے لئے سوچے گی اور اگر اِسے عوام کے مسائل اور دُکھ درد کا
احساس ہوگیاتو پھر ذراسا خیال اِس کی جانب بھی کرلے گی ورنہ جیساہے جہاں ہے
سب ٹھیک ہے کی راگ الاپتے ہوئے اپنی مدت پوری ہونے پر عوام کے مسائل کی طرف
توجہ دے گی اور ایک مرتبہ پھرآخری لمحات میں عوام کے ریلیف کے لئے کچھ
کرگزرنے کا جذبہ لے کر اِس کے زخموں پر مرہم پٹی رکھے گی۔
آج مجھے یہ لگتاہے کہ ہماری حکومت کو اپنے آخری لمحات میں عوامی مسائل کے
حل کرنے کا خیال آہی گیاہے اِس ہی لئے تو اِس نے عام انتخابات سے قبل عوام
سے ووٹ مانگنے کے خاطراپنے قدم اِس کی دہلیز پر رکھنے اور اِس کے سامنے
اپنا سر جھکانے سے پہلے ہی اِس نے اپنے اندر عوام سے ہمدردی کا جذبہ
پیداکرلیاہے حکمران جماعت کی جانب سے عوام سے ہمدردی کا اظہار اُس وقت کُھل
کر سامنے آیا جب ہماری موجودہ انوکھی اور ملک کی پہلی جمہوری حکومت کے اپنے
قول و فعل کے حوالے سے منفرد اور انوکھے وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے گزشتہ
دنوں وفاقی کابینہ کے اپنے زیرصدارت ہونے والے اجلاس سے خطاب کے دوران پہلی
مرتبہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پرتشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ قیمتیں
آسمان کو چھورہی ہیں، وزارتِ خزانہ قیمتوں پر قابوپانے کے لئے اقدامات کرے
جبکہ اجلاس میں وفاقی وزراءنے اپنی کوتاہیوں اور نااہلی کے باعث عوام کو
پہنچنے والی تمام تکالیف اور خون نچوڑدینے والی مہنگائی کا سارانزلہ بھی
وزارتِ خزانہ پر گرادیااور وزارتِ خزانہ حفیظ شیخ پر ایسے برسے ایسے برسے
کہ وزراءکی تنقیدوں اور جملوں سے بچنا وزارتِ خزانہ حفیظ شیخ کو مشکل
ہوگیاتھا اوروہ بے چارے چکراکر رہ گئے تھے کیوں کہ جب وفاقی وزراءوزارتِ
خزانہ کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ اور معاشی پالیسی پر وزارتِ خزانہ کو
سخت تنقید کا نشانہ بنارہے تھے تو ایسالگ رہاتھا کہ جیسے وزراءکریلے
چباکرآئے تھے اِس دوران اُنہوں نے وزارتِ خزانہ پر تنقیدکرنے کے ساتھ ساتھ
یہ الزام بھی لگایاکہ معیشت سُدھارنے کے دعوے محض کتابی اور سیراب جیسے ہیں
خبر ہے کہ اِس اجلاس میں وزارتِ خزانہ کو عام انتخابات سے قبل پارٹی کا
وقار عوام میںہرحال میں بلندکرنے اور عوام الناس میں حکمران جماعت کا
اعتماد اور مورال کا گراف بڑھانے کے ساتھ ساتھ عوام سے زیادہ سے زیادہ ووٹ
کے حصول کے خاطر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے اور عوام کودیگر
معاملات میں ریلیف دینے کے لئے خصوصی ٹاسک دیاگیاہے اور اِسی کے ساتھ ساتھ
عوام سے ووٹ لینے کے لئے اشیاءخوردونوش کی قیمتیں کم کرنے کے لئے کابینہ کا
خصوصی اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیاگیاہے جبکہ اجلاس میں جہاں وزیراعظم
راجہ پرویزاشرف اور وفاقی وزراءنے اپنی کوتاہیوں اور نااہلی کا ملبہ وزارتِ
خزانہ پر گرایا تو وہیںدھیمے لہجے اور مخصوص انداز سے گفتگوکرنے والے وفاقی
وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا بھی درجہ حرارت اور بلڈپریشر بڑھ رہاتھااورجب
اُنہوں نے بھی اپنے برداشت کی حدود پھلانگ کر اپنی زبان ہلائی اور ٹکہ سا
جواب دیاتو اچھے اچھوں کے ہاتھ کے طُوطے اور طُوطیاں اُڑگئیںاور سب اپنامنہ
بناکر بغلیں جھانکنے لگے کیوں کہ جب وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزارتِ
خزانہ کی طرف سے حکومت کی دی جانے والی معاشی پالیسی کی روشنی میں تیارکی
گئی بریفنگ پر وفاقی وزراءکڑوے گھونٹ پی پی کر تنقیدیں کررہے تھے اُس وقت
وزیرخزانہ خاموش رہ کراپنے ساتھیوں کی طوطاچشمی دیکھ رہے تھے مگر اَب جیسے
ہی اِن کا بولنے کا وقت آیاتو وفاقی وزیرخزانہ نے کہاکہ مہنگائی کا ذمہ دار
ایک میں ہی اکیلانہیں ہوںآپ سب اور حکومت بھی اِس میں برابر کی شریک ہے
حفیظ شیخ نے کہاکہ میری طرف دیکھ کر میری بات غور سے سُنیں یہ فیصلہ کس کا
تھاکہ پہلے بلوچستان کو 40ارب روپے جاتے تھے اور اَب 110ارب روپے دے دیئے
یہ فیصلہ آپ سب اور حکومت کا تھا جو مجھ پر آج تنقیدیں ہورہی ہیںمیرایہ
فیصلہ قطعاََ نہیں تھاساڑھے تین کروڑ لوگوں کو ہر ماہ ہزار ہزارروپے دے
جارہے ہیںیہ بھی میرافیصلہ نہیں تھاآپ لوگوں کا ہی تھااور اِسی کے ساتھ ہی
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے اِس موقع پر یہ انکشاف بھی کرڈالاہے کہ آج صوبوں کو جو
پیسے جارہے ہیںاِن کے استعمال سے متعلق ہم اِن سے پوچھ بھی نہیں سکتے
ہیںاور کیا کوئی اِس بات اور اِس حقیقت سے بھی انکار کرسکتاہے کہ پنجاب کے
وزیراعلیٰ کے پاس وزیراعظم سے زیادہ فنڈ ہیں جبکہ وزیرخزانہ کا یہ کہنامعنی
خیز ہے کہ جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے پرائس کنٹرول صوبوں کا اختیار ہے
وفاق اِس پر کوئی مداخلت نہیں کرسکتاہے تو یہاں سوال یہ پیداہوتاہے
ڈاکٹرحفیظ شیخ جی جب آپ صوبوں سے پیسوں سے متعلق پوچھ نہیں سکتے ہیں اور
پرائس کنٹرول بھی نہیں کرسکتے ہیں تو پھر صوبوں کو جھولیاں بھر بھر کر پیسے
کیوں دیتے ہوجی ..؟اور کیوں وزیرخزانہ بن کر کوئلوں کی دلالی میں (منہ بھی
کالاکپڑے بھی کالے)ہاتھ کالے کررہے ہو..؟چھوڑدو وزارت...ورنہ میں سمجھوں گا
کہ تم کوبھی کچھ فائدہ ہے .(ختم شد) |