میرپور کے شہریوں کی جانب سے
اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے برپاکی جانے والی تحریک جس کو1981کی تحریک کہا
جاتا ہے جس میں تقریباً150شہریوں کےخلافFIRبھی درج ہوئی تھی یہ تحریک اس
قدر مقبول و کامیاب ہوئی کہ میرپور کے لوگوں نے نہ صرف حکومت کو اپنے
مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کردیا بلکہ پورے آزاد کشمیر کے اندر اس تحریک
کو تاریخ کے صفحات پر نمایاں مقبولیت بھی حاصل ہوئی آج بھی میرپور کے وہ
شہری جو اس تحریک کا حصہ تھے جب وہ اس تحریک کے واقعات سناتے ہیں تو ان کے
رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اس تحریک کا اس قدر خوف پیدا ہوا
کہ حکومتی ایوان بھی اپنی جگہ سے ہل گئے کئی آفیسران کے میرپورسے تبادلے کر
دیئے گئے آج2012ہے 1981سے لیکر2012تک یعنی 32سال کے درمیانی عرصہ میں پھر
اسی طرح کی تحریک ابھر نہ سکی اس کو آپ بدقسمتی بھی کہہ سکتے ہیں۔ میرپور
کے شہریوں کی۔۔۔۔۔آج میرپور کے حقوق کی بازیابی کی ضرورت 1981کی نسبت کئی
گناہ زیادہ ہے لیکن اس کی نسبت شاہد شہریوں کے اندر حق حاصل کرنے کیلئے
جذبہ کم ہو گیا ہے یا شاید1981میں لیڈر کم تھے اور جانثار زیادہ ۔اور آج
جانثار وں کی کمی اور لیڈروں کی تعداد قدرے زیادہ ہے اور پھر شہری حالات کی
نزاکت کے سامنے باصورت مجبوری سیاستدانوں پر اعتبار کرنے کوبھی فوراً تیار
نہیں ہوتے آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ1981کی تحریک کی طرح دوبارہ کوئی تحریک
میرپور میں دیکھنے کو نہیں آئی اورآج1981کی تحریک کی یادیں شہریوں کے اندر
موجود توہیں اور ان یادوں کی بنیاد پر آفیسران اور گررنمنٹ کو 1981کی تحریک
کی دھمکی تو دیتے ہیں مگر عملاً حالت یہ ہے کہ شہری کے اندر بے حسی کے نام
کی بیماری نے پورے شہر کو یرغمال بنا کر اپنے حصار میں گرفتار کیا ہوا ہے
1981کے بعدد شروع کی جانے والی بہت ساری تحریکیوں کی طرح میرپور کے پراپرٹی
ڈیلروں کی جانب سے میرپور بچاﺅ تحریک کا آغاز کر لیا گیا ہے جس کے پلیٹ
فارم سے گذشتہ روز احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا اس مظاہرے میں پراپرٹی سے متعلقہ
لوگوں کے علاوہ کچھ شہری بھی موجود تھے مظاہرین چوک شہیداں کا چکر کاٹ کر
پریس کلب گئے اور وہاں پریس کانفرنس کی اس پریس کانفرنس کو دوسرے روز تمام
اخبارات میں قابل تعریف کوریج بھی ملی اب یہاں پر دو باتیں قابل غور ہیں کہ
آخر پراپرٹی ڈیلروں کو یہ میرپور بچاﺅ تحریک کے آغاز کرنے پر کیوں مجبور
ہوناپڑا؟ ووٹ لیکر وزارت عظمٰہ کے منصب تک جانے والے خاموش کیوںہیں؟مسلم
کانفرنس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے امیدوارنے بھی میرپور سے خاصا ووٹ لیا
میرپور بچاﺅ تحریک انہوں نے لب کشائی کیوں نہیں کی ؟ میں یہاں پر وزیر اعظم
آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید کا ذکر بھی کرونگا جن کا تعلق بھی ضلع میرپور
سے ہی ہے اور1981کی تحریک میں خود ان کا کردار بھی بہت اہم تھا تو آج جب وہ
خود وزارت عظمہ کی کرسی پر موجود ہیں تو پھر میرپور کے لوگوں کو یہ بات
کیوںسوچنا پڑھی کہ میرپور ڈوب رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کرپشن ،لوٹ مار،برادری ازم ،بدعنوانی
عام ہو چکی ہے ان تمام بیماریوں کو ختم کرنے کیلئے اور میرپور بچانے کیلئے
میرپوربچاﺅ تحریک کا آغازکیوں نہ کیا جائے میرپور کے شہریوں کی سوچ اپنی
جگہ مگر یہ تحریک خود وزیر اعظم آزادکشمیر کیلئے بھی باعث شرمندگی ہے کیوں
کے اس علاقے کے لوگ تحریک شروع کرنے جا رہے ہیں جو علاقہ آزاد کشمیر اسمبلی
میں منتخب وزیر اعظم کا اپنا ضلع اور اپنا شہر ہے جہاں پر ان کا اپنا گھر
اور سیاسی حلقہ احباب ہے میرے نزدیک بہترین بات یہ ہے کہ وزیر اعظم آزاد
کشمیر کو اس تحریک کا نوٹس لیناچاہیے اور اس تحریک کیلئے شروع کرنے پر شہری
کیوں مجبور ہوئے ہیں ان غلطیوں اور کوتاہوں کو درست کیا جانا چاہیے یہاں پر
ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ میرپور بچاﺅ تحریک کا اس وقت برائے راست نشانہ
ادارہ ترقیات ہے اور یقینا ادارہ ترقیات میرپور بچاﺅ تحریک کا فوری طور پر
نشانہ اس لیئے بنا ہو گاکہ MDA میں ہونے والی لوٹ مار کسی تعریف کی محتاج
نہیں ۔۔۔۔لوٹ مار کے حوالے سے شہریوں کی رائے بالکل درست ہے لیکن دیکھنا یہ
ہے کہ اس لوٹ مار کے بازار کا کوئی شخص اکیلابادشاہ نہیں ہو سکتا اس بازار
کوچلانے کیلئے سادہ وردی کے ہاتھ بھی ملوث ہیں جس کی تعداد دیکھنے میں کم
اور غائبانہ طور پر بہت زیادہ ہے بہت سارے ہاتھ ایک ہاتھ کی طاقت بنے ہوئے
ہیں شہریوں کو اس بڑے ہاتھ کو آگے بڑھنے سے روکنا ہو گا اس ہاتھ کی پانچوں
انگلیاں طاقت ور ہیں اس ہاتھ کی انگلیاں جدھر مڑتی ہیںحکم نامہ بن جاتا
ہےDGایم ڈے اے بالآخر ایک سرکاری ملازم ہی ہوتا ہے اور اس سیٹ پر کوئی بھی
بیٹھ سکتا ہے اس کرسی کو چلانے والے اصل پاﺅں کدھر ہیں اس سمت کی تلاش کرنی
ہے مگر پہلی دفعہ مجھے یہ بات لکھنے میں کوئی گھبراہٹ اور شرمندگی نہیں ہو
رہی کہ ادارہ ترقیات کے شعبہ اسٹیٹ کا وہ کرپٹ مافیا جو گذشتہ کئی برسوں سے
ایک ہی سیٹ پر جمعہ ہوا تھا اور جن کے رابطے برائے راست آزاد کشمیر کی
اسمبلی کے فلور پر تھے کو اٹھا کر دوسری جگہ ٹرانسفر کرنا موجودہ DGایم ڈی
اے کا بڑا کارنامہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |