لڑتے رہیں صحتمند رہیں

ابھی جو جملہ آپ نے پڑھا ہے یقینا وہ پڑھ کر آپ سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ یہ کس قسم کی بات ہے لڑنے کا اور صحت کا آپس میں کیا تعلق بنتا ہے۔ لڑنے کے تو بہت سارے نقصانات ہیں مثلاً فشارِ خون بلند ہو سکتا ہے۔ سر میںدرد کی شکایت ہو سکتی ہے۔ مزاج میں چڑچڑاہٹ اور تلخی پیدا ہو سکتی ہے۔ لڑنے رہیں تو صحت مند کس طرح رہیں گے ؟ لیکن میرا خیال ہے درجہ ذیل تحریر پڑھ کر آپ بھی یقینا اس بات سے سو فیصد نہ سہی ستّر فیصد اتفاق تو ضرور کریں گے کہ لڑتے رہیں صحت مند رہیں !!

یورپ میں کی گئی سترہ سالہ ایک تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ افراد جو اپنے غصے کو دباتے ہیں اور ناپسندیدہ صورتحال پر خاموشی اختیار کرتے ہیں اُن میں بلند فشارِخون ، ذیابیطس ، ڈپریشن ، مزاج کی چڑچڑاہٹ اور دل کے دورے کا شکار ہونے کے امکانات 70 سے 80 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں بہ نسبت اُن لوگوں کے جو غصّہ آتے ہی اِس کا اظہار کردیں۔ چیخیں ، چلایئں۔ نا پسندیدہ صورتحال کو کسی صورت برداشت نہ کریں اور دل کی بات سامنے والے کو ضرور بتائیں چاہے وہ اِس کو پسند کرے یا ناپسند۔ اور اِسی بات کا اطلاق شادی شدہ جوڑوں پر بھی ہوتا ہے عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ جو شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے کی نا پسندیدہ باتوں پر خاموشی اختیار کرتے ہیں وہ بڑے کامیاب شادی شدہ جوڑے کہلاتے ہیں کہ ان کے درمیان لڑائی جھگڑا نہ کرنے کی قیمت زندگی کے پندرہ یا سترہ سال ساتھ رہنے کے بعد انہیں فشارِ خون یا ذیابیطس یا ڈپریشن کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ خاموش رہنا یا چپ رہنا دراصل بیماری کی طرف پہلا قدم ہے۔ شادی شدہ جوڑے ہوں یا عام افراد اگر وہ مل بیٹھیں اور نا پسندیدہ باتوں یا اختلافِ رائے کو ایک دوسرے کے سامنے پیش کرکے تنازعات کا حل نکالنے کی کوشش کریں تو یہ بہ نسبت خاموشی اختیار کرنے کے ایک بہتر قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

ہم میں سے اکثریت نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ نوزائیدہ بچے کِسطرح چیخ چلا کر ، رو دھو کر اور غصّہ کر کے اپنے دل کی بات دوسروں سے منوا کر ہی دَم لیتے ہیں اور وہ کِس قدر خوش اور تندرست رہتے ہیں کیا ہم میں سے کسی نے کسی چھوٹے بچے کو ڈپریشن میں مبتلا دیکھا ہے؟ کسی بچے کے سَر میں درد ہوتا ہے ؟ کوئی چھوٹا بچہ عارضہ قلب میں مبتلا ہوتا ہے ؟ نہیں ہوتا اگر ہوتا بھی ہے تو شاید سو میں سے کوئی ایک بچہ ہوتا ہوگا ۔ ثابت ہوگیا چیخنے چلانے سے غصّہ کرنے سے اور رو دھو اپنی بات منوانے سے بیماری دور ہو جاتی ہے اور صحت مندی کا قرب حاصل ہو جاتا ہے۔

جب آپ غصے کا اظہار نہ کریں اُسے دفن کردیں کُڑھتے رہیں سامنے والے کے رویّے سے آزردہ خاطر ہوں اور اپنے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہ کریں تو آپ مشکل میں ہوں گے ہو سکتا ہے آپ کے سَر میں درد شروع ہو جائے بلند فشارِ خون میں بھی مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اللہ نہ کرے برین ہیمرج بھی ہو سکتا ہے جب کہ سامنے والے پر اپنے خیالات کابرملا اظہار آپ کو ان تمام عارضوں سے نجات دلا سکتا ہے ۔ پَس ثابت ہو گیا کہ لڑتے رہیں اور صحت مند رہیں۔

اِسی تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات ہوئی ہے کہ غصّہ کو دبانے سے ہائی بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک جیسی بیماریوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اس تحقیق میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ شادی شدہ جوڑوں میں غصّے پر قابو پانے کی کوشش کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی آزردگی کسطرح شرحِ اموات میں اضافہ کرتی ہے۔ غصّہ کو دبانے کی صورت میں سانس کی تکالیف اور دمّہ یا برونکائٹس جیسے مسائل بھی رونما ہو سکتے ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم نے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کسی زیادتی کا احساس ہونے پر عموماً جوڑے کس قسم کے رویوّں کا اظہار کرتے ہیں ایک سوالنامہ ترتیب دیا گیا وہ جوڑے جن میں دونوں نے یا کسی ایک نے غصّے کو دبایا اُن کے مقابلے میں وہ جوڑے جن میںدونوں نے یا کسی ایک نے غصّے کا برملا اظہار کیا اُن میں سے بالآخر وہ جوڑے جو اپنے غصّے کو دباتے تھے اُن میں سے تقریباً نصف افراد کی موت ریکارڈ کی گئی جبکہ وہ جوڑے جو غصّے یا ناراضگی کا برملا اظہار کرتے تھے اُن میں موت کا شکار ہونے والوں کی تعداد چوتھائی سے بھی کم تھی۔

تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ شادی کے سترہ سال بعد غصّہ دبانے والے جوڑوں میں سے دونوں کی موت کی شرح برملا غصے کا اظہار کرنے والوں کے مقابلے میں تقریباً پانچ گُنا زیادہ ہے۔ یہ بات بھی اکثر لوگوں کے مشاہدے میں آئی ہو گی کہ نسبتاً پسماندہ علاقے میں رہنے والی خواتین جو کہ ذرا ذرا سی بات پر دروازے پر آکر ایک دوسرے کو کوسنے دینا شروع کر دیتی ہیں مغلظات کا آزادانہ استعمال کرتی ہیں۔ ہر وہ بات بر ملا اور ببانگِ دہل کہہ جاتی ہیں جس کا تصوّر بھی پوش علاقے میں رہنے والی خواتین نہیں کر سکتیں اُن کے آپس میں تعلقات زیادہ اچھی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے دُکھ درد میں زیادہ کام آتے ہیں۔ روزمرّہ پکائے جانے والی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا تبادلہ اور عید بقرعید پر بھی آمد جامد زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ پوش علاقوں کی وہ خواتین جن کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُن کے پڑوس میں کون رہ رہا ہے۔ کیا پَک رہا ہے۔ بچے کتنے ہیں۔ اگر کوئی بات بُری لگی تو سوائے خاموشی کے اُن کے سامنے کوئی علاج نہیں ہوتا وہ نسبتاً زیادہ تنہائی ڈپریشن ، بلڈ پریشر اور ذیابیطس کا شکار ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ پھر ثابت ہو گیا کہ لڑتے رہیں صحت مند رہیں !

شاید اِسی لئے ہمارے سیاست دان اور رہنمائے وطن ٹی وی پر آکر ہر طرح کی اوچھی بات اور غصے کا بر ملا اظہار خوب چیخ چلا کر کرتے ہیں۔ کسی بھی چینل پر کوئی بھی ٹاک شو دیکھ لیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر بات کرنے والا دوسرے کا گریبان پھاڑنے کے چکر میں ہے۔ جو جتنا چیخ کر بولے گا وہ اتنا ہی جی دار ہے۔ اینکر پرسن بھی اسی قدر تیز اور بلند لہجے میں چیخ چیخ کر بات کرتے ہیں کہ جیسے آج اگر وہ خاموش رہ گئے تو نہ جانے کیا ہوجائے گا۔ ٹی وی ٹاک شوز پر برملا غصے کے اظہار کے بعد جو کچھ دل میں بات رہ جاتی ہے وہ پریس کانفرنس بلا کر پوری کر لی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف نام لے لے ایسے ایسے بیانات دئیے جاتے ہیں۔ ایسی ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں جن کے بارے میں شاید وہ خود بھی نہ جانتا ہو اور ہم میںسے یقینا سب کا مشاہدہ یہ بھی ہے کہ یہ ہمارے سارے سیاستدان، اینکر پرسن، پارٹی سربراہان اور رہنمائے وطن اچھی خاصی عمر والے ہو کر بھی بعض تو ضعیف العمر اور پچاس ساٹھ کی عمر سے اوپر کے ہو کر بھی کس قدر فٹ اور صحت مند ہوتے ہیں۔ لہذا ایک بار پھر ثابت ہو گئی کہ لڑتے رہیں اور صحت مند رہیں۔

اِس تحریر کا اختتام اب کر ہی دینا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تحریر پڑھنے والا اُٹھے اور جا کر اپنے پارٹنر پر، شریکِ حیات پر، آفس فیلو پر یا سامنے بیٹھے شخص پر اپنے دل کا سارا غبار آج ہی نکا ل ڈالے کہ آخر یہ بات سچ ہی ہے ناں کہ لڑتے رہیں اور صحت مند رہیں۔۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 48388 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.