جناب جیلانی شاہد سے مَیں ذاتی
طور پر واقف تو نہیں ہوں ، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ مدحتِ نگارانِ
مصطفی( ﷺ) کے مقدس حلقے میں شامل ہیں؛ اور یہی وہ وصف ہے جس کے سبب وہ میرے
نزدیک احترام کے قابل ہیں۔ اس وقت آپ کی تقدیسی شاعری کا ایک خوب صورت
انتخاب ’’جہاں محمد وہاں خدا ہے‘‘ مرتبہ : غلام ربانی فداؔ میرے مطالعہ کے
میز کی زینت بنا ہوا ہے۔ عزیزی غلام ربانی فداؔ کا اصرار ہے کہ مَیںجناب
جیلانی شاہدؔ کے اس انتخاب پر کچھ خامہ فرسائی کروں۔ ناچیز نعت گوئی کے
حوالے سے کسی نعت گو شاعر پر کچھ لکھنا اپنے لیے سعادت مندی تصور کرتا
ہے۔بس اسی خیال سے قلم کو مہمیز دے رہا ہے۔
اس بات کو کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن سب جانتے ہیں کہ نعت نہ صرف ارادتِ
اسلامی اور عقیدے و عقیدت کی بنا پر بل کہ اپنے ہیئتی تنوع اورہمہ گیر و
ہمہ جہت مقبولیت کے سبب ادب کی ایک ایسی محترم و مکرم، پاکیزہ اور آفاقی
صنف ِ سخن کا درجہ اختیار کرچکی ہے کہ ادب کی کوئی دوسری صنف اس کے پاسنگ
برابر بھی نہیں ۔ آج دنیا کا ہر چھوٹا بڑا شاعر بلاتفریق مذہب و ملت، رنگ
و نسل اور زبان و ادب حمدِ باریِ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ نعتِ مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم قلم بند کرنا اپنے لیے باعثِ سعادت و نجات سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ عصری ادبی منظر نامے پر نعت گوئی بے پناہ مقبول و محبوب ہے۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ محسنؔ کاکوروی ، امام احمد رضاؔ بریلوی ، حسنؔ رضا
بریلوی اور ان کے متبعین اور معتقدین نے اردو نعت کے فروغ و ارتقا میں جو
نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ انفرادی شان کا حامل ہے۔ آج بر صغیر ہندو پاک
کے نعت گو شعرا کی اکثریت محسوس یا غیر محسوس طور پر ان ہی حضرات کا تتبع
کرتے دکھائی دیتی ہے۔ ویسے اس روش کے چلتے نعت گو شاعروں کی تعداد میں روز
بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ جیلانی شاہدؔ کے کلام کا مطالعہ کرنے سے یہ
ظاہر ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی درجے میں انھوں نے بھی محسنؔ و رضاؔ کی نعتیہ
شاعری سے استفادہ کیا ہے۔کیوں کہ شاہدؔ صاحب کے نعتیہ کلام کی زیریں رَو
میں جو محتاط وارفتگی اور عشق و محبت کے تئیں مخلصانہ رویّے دکھائی دیتے
ہیں وہ اس دبستانِ نعت کا طرۂ امتیاز ہیں۔
’’جہاں محمد وہاں خدا ہے‘‘ کا آغاز مناجات سے ہوتا ہے ۔ ۳؍ مناجاتی نظموں
میں شاہد ؔ صاحب نے اللہ رب العزت جل شانہٗ کی بارگاہ میں اظہارِ عجز و
نیاز کرتے ہوئے اپنا دردِ دل پیش کیا ہے۔عرفانِ خداوندی،اورصفائیِ قلب کے
یوں طالب ہیں ؎
معرفت کو سمجھ سکوں تیری
اتنا مجھ کو شعور دے یارب
تیرے جلوے سے ہوا طور بھی جل کر سرمہ
آئینہ ساز مرے دل کو مصفا کردے
شیطانِ لعین کے شر سے حفاظت اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے
ہوئے مقدس راستوں پر چلنے کا اظہاریہ ہمیں بھی آمین کہنے پر مہمیز کرتا ہے
؎
ہمیں شیطان کے شر سے بچانا اے مرے مولا
ترے محبوب کی رہ پر چلانا اے مرے مولا
اور جو لوگ صراطِ مستقیم سے بھٹک چکے ہیں ان کے لیے دعا کا مخلصانہ انداز
دیکھیے ؎
بھٹک جائے ترا بندہ اگر راہِ صداقت سے
دوبارہ راہ پر اس کو لگانا اے مرے مولا
علاوہ ازیں ان مناجات میں امت مسلمہ کی فوز و فلاح اور دشمنانِ دین کی ریشہ
دوانیوں سے حفاظت کے لیے شاہدؔ صاحب کے دریچۂ ذہن سے اس طرح دعائیہ اشعار
نکلے ہیں ؎
یہ جہاں پھر ہو جہنم میں نہ تبدیل کہیں
جنگ بازوں کے ارادے کو تو پارہ کردے
یہ دورِ فتنہ پرور کی قیامت خیزیاں توبہ
ہمیں بھی ان مصائب سے بچانا اے مرے مولا
دیارِ غوثِ اعظم پہ نگاہیں دشمنوں کی ہیں
عدو کا فخر مٹی میں ملانا اے مرے مولا
ترے محبوب کی امت پریشاں حال ہے مولا
مسلمانوں کی بگڑی کو بنانا اے مرے مولا
مناجات کے بعد اس مجموعے کا سفر حمدِ باریِ تعالیٰ کی طرف دراز ہوتا ہے۔
خداوند قدس کی حمد و ثنا کرنا انسان کے بس کی بات ہی نہیں ۔ ہاں! اس کی
مقدس بارگاہ میں اظہارِتشکر اور عجزِ بندگی پیش کرنے کے لیے ہمیں اس کی
تعریف و توصیف کے گل بوٹے کھلاتے رہنا چاہیے ۔ جیلانی شاہد ؔکے اس مجموعے
میں ۷؍ حمدیہ نظمیںموجود ہیں ۔ ان حمدیہ نظموں میں روایتی انداز کے ساتھ
ساتھ مضامین میں جدت و ندرت کے ہلکے رچاو سے بڑا لطف پیدا ہورہا ہے ۔
خصوصاً یہ شعرکہ ؎
میری فکرِ نارسا پہنے ہے لفظوں کا لباس
ہاں! خیال و فکر کو بھی تازگی دیتا ہے تو
اس موقع پر ناچیزکواسی مفہوم سے ملتا جلتا اپنی ایک حمد کا مقطع بے ساختہ
یاد آگیا ہدیۂ ناظرین کرتے ہوئے چلتا ہوںکہ ؎
جو لوحِ ذہنِ مُشاہدؔ میں بھی نہیں یارب
وہ حرفِ تازہ قلم سے نکالتا ہے تو ہی
شاہدؔ صاحب کی حمدیہ نظموں سے چیدہ چیدہ اشعار پڑھیں اور لطف حاصل کریں ؎
مَیں فانی اور میرا گھر بھی فانی ہے
تو لافانی ، نوری لشکر تیرا ہے
پھول مہکے ہیں تیری خوشبو سے
ہے کلی میں شگفتگی تیری
تری حکمت کو کیا جانے کوئی بھی بندۂ ناداں
سمندر کو جو دی لہریں تو دریا کو روانی دی
مناجات و حمد کے بعد ’’جہاں محمد وہاں خداہے‘‘کا دریچۂ سخن مدحتِ مصطفی
(ﷺ) سے کھلتا ہے ۔ اس مجموعے میں شامل نعتیہ کلام میں نبیِ کونین صلی اللہ
علیہ وسلم کی محبت و عقیدت کے جلوے ،سیرتِ طیبہ کی روشنی میں زندگی کا سفر
طَے کرنے والوں کو ملنے والے دنیوی و اخروی فوائد و ثمرات ، معجزاتِ نبوی
صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ، عقائدِ اہل سنت کا اظہار اور نبیِ پاک صلی
اللہ علیہ وسلم کے بارے میں باطل نظریات رکھنے والوں کی تردید جیسے موضوعات
ملتے ہیں۔ شاہدؔ صاحب نے اپنی نعتوں میں ان امور کو جس طرح پیش کیا ان میں
شعریت کی جھلکیاں اور زبان و بیان کا حُسن بھی پایا جاتا ہے ، چند شعر خاطر
نشین ہوں ؎
ذہن و دل کو آئینہ جب کبھی بنالوگے
روح میں سمائے گی روشنی مدینے کی
محبوبِ رب ہیں محسنِ انسانیت بھی ہیں
امن و اماں کی راہ کے رہبر ہیں آپ ہی
دنیا و آخرت میں خدا کا حبیب ہے
بیمارِ ہست و بود کا واحد طبیب ہے
اتنا بلند و بالا ہے رتبہ رسول کا
عرشِ بریں سے گنبدِ خضرا قریب ہے
قمر بھی شق ہوا انگلی کے اک اشارے پر
جو شق ہوا تھا وہ ماہِ تمام روشن ہے
ہرگز نہ کہہ نبی کو تو ہم جیسے ہیں بشر
گستاخ پر سدا ہی جہنم کا در کھلے
جیلانی شاہدؔان خوش نصیبوں میں ہیں جنہیں سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم
کے مقدس روضے کی زیارت کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔ اس لحاظ سے انھوں نے آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کے مقدس گنبد اور وہاں کے دل کش نظاروں کو بڑی خوش اسلوبی
سے بیان کیا ہے اور مسجدِ نبوی میں عبادت و ریاضت کا جو منفرد کیف و سرور
ہے اس کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ ؎
خوشبوے گل کی مہک اور تازگی اچھی لگی
گلشنِ ہستی میں کھلتی ہر کلی اچھی لگی
سبز گنبد کی سنہری جالیوں کو دیکھ کر
مسجدِ نبوی میں ذکر و بندگی اچھی لگی
دربارِ مقدس سے واپسی پر لکھی ہوئی ایک نعت سے چند اشعار ملاحظہ کریں جو
جذبہ و تخیل اور محبت وخلوص کے آئینہ دار ہیں ؎
سبز گنبد کی طرح کوئی مکاں دیکھا نہیں
مسجدِ نبوی سا مَیں دارلاماں دیکھا نہیں
جو بھی ملتا تھا مدینے میں مہکتا پھول تھا
مہرباں دیکھے بہت ، نا مہرباں دیکھا نہیں
دیکھنے والے سبھی کچھ دیکھ لیتے ہیں یہاں
آسماں در آسماں کیا ہے نہاں دیکھا نہیں
نعت ایک ایسی نازک صنف ہے جس میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کیوں
کہ اس میں شاعراگر بال برابر بڑھتاہے تو الوہیت تک پہنچ جاتا ہے اور بال
برابر کمی کرتا ہے تو شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی سرزد
ہوجاتی ہے۔ ’’جہاں محمد وہاں خداہے‘‘ میں باوجود محتاط رویوں کے چند شعر
ہمیں ایسے نظر آتے ہیں جو شرعاً درست نہیں کہے جاسکتے ۔ واقعۂ معراج کا
ذکر کرتے ہوئے شاہدؔ صاحب نے لکھا ہے کہ معراج کی شب احمدِ مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم کی جب رب تبارک و تعالیٰ سے ملاقات ہوئی تو سامنے رب تبارک و
تعالیٰ کا جلوہ نہ تھا بل کہ سرکار کا آئینہ تھا اور جس میں انھوں نے اپنی
ہی صورت دیکھی ۔ آئینہ، آئینے کے سامنے تھا اور سامنے خود نبیِ پاک صلی
اللہ علیہ وسلم کا رخ تھا،ا شعار دیکھیں جا ملے معراج کی شب مصطفی
سامنے تھا آئینہ سرکار کا
آئینہ تھا آئینہ کے سامنے
روبرو تھا خود رخ مختار کا
اس مضمون سے شانِ الوہیت میں حرف لازم آرہا ہے ۔ ایسے ہی اشعار کی وجہ سے
بعض ناقدین نے نعت پر ہی انگشت نمائی کرنا شروع کردی ہے ۔ جیلانی شاہدؔ
صاحب کو چاہیے کہ وہ ان پر نظر ثانی فرمائیں۔
پیشِ نظر مجموعے میں مناجات ، حمد اور نعت کے علاوہ مناقب ،قطعات اور سلام
بھی شامل ہیں ۔ حضرت سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا غوثِ اعظم
اور حضرت سیدنا خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمہم اللہ اجمعین کی شان میں
منقبتیںاپنے ممدوح کے تئیں پرخلوص محبت کا اظہاریہ قرار دی جاسکتی ہیں۔
قطعات اور سلام بھی قابلِ تحسین ہیں ۔
غرض یہ کہ غلام ربانی فدؔ صاحب نے کرناٹک کے کہنہ مشق شاعرمحترم شاہدؔ
جیلانی کی تقدیسی شاعری کے انتخاب پر مشتمل اس مجموعے کو شائع کرکے ایک
اچھا اور نیک کام انجام دیا ہے۔ مَیں جیلانی شاہدؔصاحب ،مرتب غلام ربانی
فداؔ اور اس مجموعے کے ناشرین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ
وہ اسی طرح فروغِ نعت کا کارِ خیر انجام دیتے رہیں ۔( آمین)
Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi
Writer, Poet, Research Scholar, Author.
Admin.Urdu Naat Poetry International
Admin Online Community Karwan-E-Bakhshish
https://mushahidrazvi.blogspot.com/
https://scribd.com/mushahidrazvi/
https://facebook.com/mushahid.razvi1/
https://facebook.com/mushahidrazvi79
https://twitter.com/mushahidrazvi/ |