اسلام دشمن عناصر یہ پروپیگنڈہ
کرتے نہیں تھکتے کہ اسلا م نے عورتوں کی آزادی سلب کرلی ہے ۔ اور انھیں
اپنے آ ہنی شکنجے میں جکڑ کر آزادیِ فکر و نظر سے محروم کردیا ہے۔ اس
گھناونے الزام کا منبع مغربی قوموں کے ذہنوں میں پنپتی ہوئی دشمنی اور آتشِ
بغض و عناد کے سوا کچھ نہیں ، صلیبی معرکوں میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد
عصبیت کے جھلسے ہوئے متعصب مسیحیوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نشانۂ ملامت
بنانے کے جو پروگرام رچے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ قرآن و حدیث اور
دیگر اسلامی نشانیوں اور خود سیرتِ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ
اللہ ! داغ دار کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے ۔ مسیحی حکمرانوں نے
ایک طرف اپنی عیارانہ اور مکارانہ چالوں سے مسلم علاقوں پر تسلط کے پنجے
گاڑنے شروع کیے اور نو آبادیاتی نظام کے نام پر مسلمانوں کی سیاسی قوتوں
اور استحکامات کو توڑنے میں مصروف ہوئے۔ دوسری جانب اُن کے اہل قلم گروہ
میں سے مستشرقین نے کلیسا کی سرپرستی میں دین اسلام کے خلاف شکوک و شبہات
سے لبریز کتابوں کی سپلائی شروع کردی ۔ اسی گمراہ سازی کا ایک شعبہ یہ بھی
تھا کہ ’’کلچراور آرٹ ‘‘ کے نام پر دنیا بھر کی بے حیائیوںاور بد تمیزیوں
کو فروغ دیا جائے تا کہ ’’ شرم و حیا‘‘ جیسی عظیم عادت کو ہی معیوب سمجھا
جانے لگے اس منصوبے کی بیل کو منڈھے چڑھنے کے لیے گو صدیاں لگ گئیں مگر آج
اسی فکری گمراہی کا اثر ہے کہ شرم ،حیا ، عزت، عفت ، پاک دامنی اورسنجیدہ
معاشرت کو غیر مہذب پن سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اور یورپ و امریکا اور تمام
دیگر ترقی یافتہ کہلانے والے ملکوں میں حرام کاری ، ہوس رانی اور جنسی
تسکین کے الاو میں جلتی ہوئی عورت ذات کو ماڈرن ، مہذب ، شایسہ اور کام یاب
بتایا جارہا ہے ؎
خرد کانام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
روئے زمین پر یوں تو دشمنانِ اسلام کے متعدد گروہ ہیں مگر منصوبہ بند
پیمانے پر کرۂ ارضی سے اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ یا انھیں ذلیل و خوار
کرنے کرانے کے جن خطرناک اور زہریلے ہتھیاروں کا استعمال یہودی ، نصرانی
اور ان کے گماشتے کرتے آرہے ہیں مسلمان اربابِ علم و دانش کے لیے سب سے
مہلک محاذ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جذبۂ جنسی اور نفسانیت ہر انسان میں موجود
ہمارے عیار دشمنوں نے مسلمانوں کی تباہی و بربادی میں اس کو بھی بہ طورِ
ہتھیار استعمال کیا چناں چہ کسی اسلا م دشمن مغربی منصوبہ ساز کا قول ہے کہ
:’’ رنگین شراب کا ایک جام اور خوب صورت مغنیہ ، امتِ محمدیہ کو تباہ کرنے
میں ہزار توپوں سے زیادہ مؤثر ہیں۔اس لیے مسلمانوں کو شہوت و عشرت میں غرق
کرنے کا اہتمام کرو۔‘‘
مسلمان ملکوں میں آزادیِ نسواں کی تحریکیں ان ہی اسلام دشمن گروہوں کی
سرپرستی میں اٹھتی اور ترقی کرتی رہیں ہیں۔ یہ تنظیمیں اور آزادیِ نسواں
اور حقوقِ نسواں کا پُرفریب نعرہ لگانے والی یہ نام نہاد مسلم عورتیں مردو
عورت کے حقو ق کی برابری ، عورتوں کی مظلومیت ، عورتوں کو حقِ طلاق ، خاری
کاروبار میں عورتوں کا عمل دخل ، سیاست و حکومت میں نمایندگی وغیرہ کاموں
پر عورتوں ورغلاتی ہیں ۔ اور اس طرح انھیں ان کے خلقی وظیفے سے محروم کرنے
والے راستوں پر لگادیتی ہیں۔ عورتوں کی مصنوعی آزادی دراصل بے حیائی وبد
کاری اور فحاشی و رذالت کے دروازے کے دونوں پٹ کھول دینے کے مترادف ہے جس
میں نہ تو محرم و نامحر م کی تمیر رہ جاتی ہے نہ شر م و حیا کا کوئی مادہ
باقی رہتا ہے ۔ بل کہ جنسی عفریت کی آسودگی کے لیے انسان حیوانوں کی سطح
سے بھی نیچے گر جاتا ہے ۔
اسلام او رمسلمانوں کے دشمن باحیا مسلمان خواتین کو اسلامی اصول ، عفت و
عصمت کی چادر میں لپٹا دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں سلگنے لگتی ہیں۔ دل
کھول اٹھتے ہیں اور وہ اُس عظیم و قدیم قرآنی نظام کو معاذاللہ! مٹانے کے
ہر ممکن منصوبے پر عمل کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ یاد رہے اہل مغرب کی فتنہ
گری کا یہ عنوان ، حقوقِ نسواں و آزادیِ نسواں کے مہلک جراثیم اسلامی
معاشرت کی ہڈیاں کھوکھلی کرنا چاہتے ہیں ۔ اے امت محمدیہ کی باعفت و باحیا
خاتون! اس فر یب نعرے کی زد سے خود کو بچانے کی بھر پور کوشش کراور ان
لوگوںسے خود کو دور رکھ جو مسلمان تو کہلاتے ہیں مگر آزادیِ نسواں کی بات
کرتے ہیں ۔دینِ اسلام کے اصولوں سے ناآشنا ہیں مگر دینی اصولوں پر بحث و
تمحیص کرتے ہیں ؎
عفت ترا جہاں ہے عصمت تری حیات
تو ہے سراپا حسن محبت تری حیات
نازل ہوئی ہیں تجھ پہ تقدس کی آیتیں
تنویرِ فاطمہ سے ہے عورت تری حیات |