لاہور میں لوہے کے ایک تاجر سعید
خان کو قتل کر دیا گیا۔ کچھ دن بعد اس کے بھائی کے نمبر پر افغانستان سے
فون کال موصول ہوئی ۔ اسے10 لاکھ ادا کرنے کا کہا گیا اور ساتھ ہی بتا دیا
گیا کہ اگر رقم ادا نہ کی تو بھائی کی طرح اسے بھی مار دیا جائے گا ۔ اپنے
بھائی کا انجام اس کے سامنے تھا ۔ اس نے اسی بھائی کے جنازے کو کندھا دیا
تھا ۔ وہ اچھی طرح جان چکا تھا کہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں کو کس
اذیت کا سامنا کرنا ہو گا ۔ اس یہ بھی اندازہ ہو چکا تھا کہ بیٹے کے قتل کے
بعد اس کے بوڑھے ماں باپ اور بچوں کی کیا حالت ہوئی تھی ۔ اس کا بھائی قتل
ہو کر اسے اس غم کا احساس دلا چکا تھا ۔ اب اس کی زندگی کی قیمت 10 لاکھ
لگائی گئی تھی۔ 10 لاکھ معمولی رقم نہیں ہوتی لیکن جو رقم نہ دینے کا انجام
دیکھ چکا ہو اسے زندگی کے بدلے یہ رقم بہت معمولی لگتی ہے ۔ اس کے بھائی کو
شک تھا کہ شاید وہ رقم نہ دے کر بچ جائے گا ۔ اسے یہ بھی امید تھی کہ شاید
سکیورٹی ادار ے ملزمان کو پکڑ لیں گے لیکن اس کے قتل کے بعد دوسرا بھائی
جان چکا تھا کہ پولیس میرے قتل کے بعد کارروائی پوری کرنے آئے گی اور قلوں
کاکھانا کھا کر چلی جائے گی ۔موجودہ حالات میں آپ جان گئے ہوں گے کہ اگر
اسے اپنے بھائی کی طرح قتل نہیں ہونا تو پھر یہ رقم ادا کرنی ہی ہے۔ اس کے
پاس اب کوئی راستہ نہیں بچا۔
رانا عظیم ایک منجھے ہوئے صحافی اورصحافیوں کی ایک بڑی تنظیم کے اعلی عہد
دار ہیں ۔ انہوں نے لاہور میں بھتہ مافیا پر ایک رپورٹ تیار کی جس میں ہوش
ربا انکشافات ہیں ۔ سمن آباد کے علاقے میں رکشوں کا کام کرنے والے تاج خان
کو بھی بھتہ نہ دینے پر قتل کیا گیا ۔ اب رکشہ یونین کے صدر باغی خان نے
بھی بھتہ مانگنے پرتھانہ ساندہ میں ایف آئی آر نمبر387/12 درج کروا رکھی ہے
۔ ایسا ہی مقدمہ درج کروانے والوں میں رب نواز نامی ٹرانسپورٹر بھی شامل ہے
۔اسکی ایف آئی آر نمبر 610/12 تھانہ اقبال ٹاﺅن میں درج ہے۔ کالعدم تنظیم
نے لاہور میںرقم مانگنے یعنی بھتہ لینے کے لیے 100 افراد کی لسٹ بنا رکھی
ہے جن میں پٹھانوں سے لے کر پنجابی تاجر اور بزنس مین شامل ہیں ۔سکیورٹی
اداروں کو اس لسٹ کے بارے میں بخوبی علم ہے ۔رپورٹ کے مطابق کالعدم تنظیم
نے لاہور میں شوٹر بھی بھرتی کر رکھے ہیں ۔ شوٹر کوقتل کا 3 لاکھ جبکہ زخمی
کرنے کا 1 لاکھ ادا کیا جاتا ہے ۔
بھتہ مافیا کے ڈانڈ ے کہاں سے ملتے ہیں، اس مافیا کے پیچھے کتنے مضبوط اور
طاقتور لوگ موجود ہیں اوران کا یہ نیٹ ورک کس قدر وسیع ہے؟ اس کا اندازہ اس
بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھتہ کی کال بنوں کے علاقہ سے آتی ہے ،رقم
افغانستان میں وصول کی جاتی ہے جبکہ قتل لاہور میں ہوتا ہے۔ میں یہاں بنوں
کے وہ دو فون نمبر درج نہیں کر رہا جن سے لاہور کی ایک معروف ٹرانسپورٹ
کمپنی کو1 کروڑ ڈالر کی رقم ادا کرنے کے لیے مسلسل فون کیے جا رہے ہیں ۔فون
کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر 1 کروڑ ڈالر نہ دیے گئے تو بس اڈوں کو بمبوں
سے اڑا دیا جائے گا۔ ٹرانسپورٹ کمپنی سے بھی رقم افغانستان میں وصول کی
جائے گی۔
بھتہ مافیا کا نیٹ ورک کس قدر پھیل چکا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ اس مافیا کے لیے بارڈر کراس کرناایسے ہی ہے جیسے آپ ایک محلہ سے
دوسر محلہ میں جاتے ہیں۔ بھتہ نہ دینے والوں کو یقینا کہا جائے گا کہ قانون
آپ کے ساتھ ہے ۔ کچھ دوست یہ مشورہ بھی دیں گے کہ بھتہ نہ دواور ڈٹے رہو
لیکن جن کے سامنے سندر، نواں کوٹ، بادامی باغ اور سمن آباد کے کاروباری
طبقہ کی لاشیں پڑی ہیں وہ کیا فیصلہ کریں گے یہ مجھ سے بہتر آپ جانتے ہیں ۔
ہم ابھی تک اس جھگڑے سے ہی باہر نہیں نکلے کہ کالعدم تنظیمیں قربانی کی
کھالیں اکھٹی کریں یا نہ کریں ؟ ہم فخر سے کہتے ہیں کہ انہیں فلاں کام کی
اجازت نہیں دی جائے گی جیسے انسانی کھالیں اتار لینے کی اجازت ہم نے خوددے
رکھی ہو۔ اجازت دینے یا نہ دینے کے بیانات سے باہر نکل کر کچھ سوچنے کے لیے
شاید ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ابھی تو نیرو بانسری بجا رہا ہے ، روم جل جائے گا
تو کچھ سوچیں گے۔ قانون نافذ کرنے والے ادار ے بھتہ مافیا کے اس نیٹ ورک کو
بخوبی جانتے ہیں ۔ انہیں یہ بھی علم ہے کہ کن کن لوگوں سے بھتہ لیا جا رہا
ہے اور کن کو فون کیا جا چکا ہے ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ افغانستان میں
رقم وصول کرنے والے کو پاکستانی اہلکار گرفتار نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے
قبل جب افغانستان میں چھپے ایک ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کے اعلٰی
آفیسران نے افغانستان جانے اور ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے افغان حکومت سے
درخواست کی تو افغانستان نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ امریکہ سے ایک
معاہدہ کے تحت وہ کسی بھی پاکستانی اہلکار کو افغانستان میں برداشت نہیں کر
سکتے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کا ایک تاجر تو بھتہ کی رقم اد کرنے
افغانستان جا سکتا ہے لیکن کوئی اہلکار یہ رقم وصول کرنے والے کو گرفتار
کرنے نہیں جا سکتا اور نہ ہی افغان حکومت اس سلسلے میں تعاون پر آمادہ ہے ۔
کراچی کی طرح اب لاہور میں بھی بھتہ مافیا اپنے قدم جما چکا ہے ۔ اس نیٹ
ورک کو توڑنا اور ذمہ داران کو گرفتار کرنا سکیورٹی اداروں کا فرض ہے ۔
لاہور میں اس نیٹ ورک کی ایک مضبوط چین بن چکی ہے اور اس میں پنجابی شوٹر
شامل ہو چکے ہیں ۔ ابھی فون کالز آ رہی ہیں لیکن اگر ّآغاز میں ہی اس مافیا
پر قابو نہ پایا گیا تو پھر کراچی کی طرح لاہور میں بھی تاجروں کو پرچی ملا
کرے گی ۔ قتل و غارت کا ویسا ہی بازار گرم ہو گا جو آج کراچی کو اپنی گرفت
میں لے چکا ہے ۔ کراچی پاکستان کا ایک بڑا شہر ہے جہاںآج اس مافیا کے سامنے
رینجر بھی ناکام نظر آتی ہے ۔ لاہور بھی اسی طرح ایک بڑاشہر ہے جہاں اس
مافیا نے قدم جمانے شروع کر دیے ہیں ۔ 100 افراد کی لسٹ پوری ہونے سے پہلے
اس نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا تو شاید بچت ہو سکے ورنہ 2، 3 شہروں کے بعد صرف
اسلام آباد ہی رہ جائے گا اور عین ممکن ہے کسی روز خبر آئے کہ ایوان صدر کو
پرچی اور فون کالز موصول ہو رہی ہیں اور صدر صاحب چاروں صوبوں کے وزیر اعلی
کے ہمراہ افغانستان کے دورے پر جا رہے ہیں۔ |