سلطان سبحانی مالیگاؤں کے ممتاز ناول و
افسانہ نگار ، فکشن رائٹر، مایۂ ناز ادیب و شاعر اور خلوص و متانت کے پیکر
سلجھے اور منجھے ہوئے منفرد نقّادبھی ہیں ۔ آپ کا تنقیدی شعور کسی سے
مستعار نہیں بل کہ خود اختراعی ہے۔ اسی لیے میں نے اُنھیں ’’منفرد نقّاد‘‘
تحریرکیاہے۔ میرے اس دعوے کی تصدیق و توثیق کے لیے آپ کے مضامین کا خوب
صورت مجموعہ ’’ سکۂ خاک‘‘ کا مطالعہ قارئین کے لیے مفید ہوگا۔ ۸؍ مئی ۲۰۱۱
ء کو انجمن ترقی اردو ہند ، شاخ مالیگاؤں کے ایک جلسۂ تہنیت براے محققینِ
اردو ادب منعقدہ اسکس لایب ریری ہال ، مالیگاؤں میں پروفیسر ڈاکٹر اشفاق
انجم نے اپنی مخاطبت میں ’’ سکۂ خاک‘‘ کے بارے کہا تھا کہ :’’ سلطان
سبحانی کی کتاب سکۂ خاک اس معیار کی ہے کہ اُس پر پی۔ایچ۔ ڈی۔، کی ڈگری
تفویض کی جاسکتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر اشفاق انجم کے اس اظہارِخیال کے بعد ’’سکۂ
خاک‘‘ کے مطالعہ کا اشتیاق بڑھ گیا اور پھر پوری کتاب کے مطالعہ کے بعد یہ
کہنے میں باک نہیں محسوس ہوتا کہ ڈاکٹر انجم نے غلط نہیں کہا ہے۔ اس کتاب
میں شامل بیش تر مضامین اس بات کا بھی مکمل طور پر استحقاق رکھتے ہیں کہ
انھیں نصابی کتب میں شامل کیا جائے۔
’’سکۂ خاک‘‘ پر اظہارِ خیال سے پہلے صاحبِ سکۂ خاک کا اجمالی تذکرہ کرنا
ضروری سمجھتا ہوں تو لیجیے عرض ہے کہ محترم سلطان سبحانی یکم جون ۱۹۴۲ء کو
مالیگاؤں میں پیدا ہوئے، تعلیم معمولی حاصل کی ، لیکن خداداد ذہانت کے
ہوتے جب اپنے شعور و فکر کو شعر و ادب کی خدمت کے لیے وقف کیا تو اہلِ ادب
محوِ حیرت رہ گئے ۔ آپ کی زنبیلِ حیات میں افسانہ، ناول، طنز و مزاح ،
کہانی، نقد و نظر، ادبِ اطفال اور شاعری وغیرہ اصناف پر مشتمل ایک درجن سے
زائد کتب جگمگا رہی ہیں ۔ جن میں ’’اجنبی نگاہیں ، شاعری کی دکان، راستے
بھی چلتے ہیں، حکم نامہ، میرا کھویا ہوا ہاتھ، بدن گشت بادبان، شام کی ٹہنی
کا پھول، مافوق الفطرت ، گولر کے پھول، شمائلہ اور سکۂ خاک‘‘ … قابلِ ذکر
ہیں۔ ایک افسانہ ’’ چابک بہ دست امام ‘‘ ۱۹۷۹ء میں جب تیسری دنیا کا ادب
نمبر ماہ نامہ ’’احتساب ‘‘ لاہور میں طبع ہوا تو پاکستانی حکومت نے اس کی
کاپیاں ضبط کرلیں ۔ علاوہ ازیں آپ نے ماہ نامہ’’ نشانات‘‘ مالیگاؤں کی
۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۶ء تک اور ماہ نامہ’’ ہم زباں‘‘ مالیگاؤں کی ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۰ء
تک کامیاب ادارت بھی کی یہ دونوں رسائل ادبی دنیا کے معتبر جریدوں میں
نمایاں حیثیت کے حامل کہلاتے تھے۔سلطان سبحانی شہرِ ادب مالیگاؤں کے وہ
منفرد فن کار ہیں جن کی کتابوں پر جتنے انعامات، اعزازات اور ایوارڈز ملے
ہیں وہ شہر کے کسی دوسرے فن کار کے حصے میں نہیں آ پائے ۔ آپ کے بعض
افسانوں کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ہندی ، مراٹھی ، انگریزی اور گجراتی
جیسی زبانوں میں ان کے تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں عبدالعظیم صاحب نے
آپ کے افسانوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ممبئی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو
سے ایم۔ فِل۔ کی باوقارڈگری حاصل کی ہے۔ سلطان سبحانی کو مصوری سے بھی حد
درجہ لگاو ہے آپ کی دو ایک تصانیف کو چھوڑ کر بقیہ کے سرورق آپ ہی نے
بنائے ہیں ۔ موصوف ناچیز کے پسندیدہ مصنفین امام احمد رضا محدثِ بریلوی،
علامہ مشتاق احمد نظامی، علامہ ارشدالقادری، علامہ بدرالقادری مصباحی،
پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مجددی ،پیر کرم شاہ الازہری، منشی پریم چند،
کرشن چندر اور ابن صفی وغیرہ میں سے ایک ہیں۔
اِس مضمون کی تمہید میں راقم نے سلطان سبحانی صاحب کو ایک ’’منفرد نقّاد‘‘
تحریر کیاہے اور یہ بلا وجہ نہیں تحریر کیا ہے ۔ جب میں نے ’’سکۂ خاک‘‘ کا
انتقادی مطالعہ کیا تو آپ کی قدآور شخصیت کا یہ گراں قدر پہلو میرے سامنے
آکر ایستادہ ہوگیا۔ جاننا چاہیے کہ سلطان سبحانی صاحب کا تنقیدی وژن بڑا
وسیع و عریض ہے۔ آپ کا طرزِ اظہار دیگر تصانیف کی طرح ’’سکۂ خاک‘‘ میں
بھی بلا کی جدت و ندرت اور اختراعی انداز کا آئینہ دار ہے۔ اسلوب کا تنوع،
خیالات کی گہرائی و گیرائی اور تجزیاتی مشّاقی آپ کی انفرادی حیثیت کو
ظاہر کرتی ہیں۔ چوں کہ آپ ایک اختراعی نقّاد ہیں اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ
کسی بھی فن پارے کا جائزہ لیتے وقت آپ کی قوتِ متخیلہ کسی دوسرے سکّہ بند
ناقدسے کچھ ادھار لینے کی غیر محسوس کوشش نہیں کرتی بل کہ گہری سنجیدگی،
متانت اور استغراق پر یقین رکھتے ہوئے آپ کے رہِ وارِ فکر و نظر نے ’’سکۂ
خاک‘‘ کے مضامین کو انفرادیت کا عکاس بنایا ہے۔ اسلوبیاتی لحاظ سے بھی جب
’’سکۂ خاک‘‘ کا جائزہ لیاجاتاہے تو یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ آپ کا ہر
مضمون اپنی الگ الگ شناخت بنانے میںمکمل طور پر کام یاب نظر آتا ہے۔
پیرایۂ بیان کی انفرادیت، جدت و ندرت، رنگارنگی اور متنوع رچاو آپ کے
قادرالکلام ادیب و نقّاد ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
’’سکۂ خاک‘‘ کو آپ نے دو حصوں میں منقسم کیا ہے ۔ دل کش عنوانات’’ دریچۂ
نثر‘‘ اور ’’محرابِ شاعری ‘‘ سے آپ کے شاعرانہ اور جمالیاتی ذوق کا پتا
چلتا ہے ۔ مضامین کے عنوانات بھی اپنے اندر گہری معنویت رکھتے ہیں ، گویا
آپ نے لفافہ دیکھ کر اہلِ نظر کو خط کا مضموں بھانپنے کا ہلکا سا اشاریہ
دے دیاہے ۔
’’سکۂ خاک‘‘ کی نثر سنجیدہ و فکر انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ شوخی و ظرافت ،
طنز و نشتریت اور افسانویت سے بھی آراستہ و مزین ہے ۔ سلطان سبحانی نے بے
رحم نقّادوں کی طرح فن پاروں پر بے ساختہ اپنا تیشۂ قلم چلا کر اُن کی
معنویت اور افادیت کو مجروح کرکے انھیں شمشان گھاٹ نہیں پہنچایا ہے ، بل کہ
آپ نے ایک مخلص نقّا د کی طرح اُن میں پائی جانے والی خوبیوں اور خصوصیات
کو مخلصانہ انداز میں اجاگر کرتے ہوئے فراخ دلی سے سراہا ہے اور جہاں کہیں
ضرورت پڑی وہاں اصلاحی تنقید سے کام لیتے ہوئے بے باکانہ طنز و نشتریت کے
کاٹ داروار بھی کیے ہیں ، ہر مقام پر آپ کی قوتِ استعداد ، وسیع تجربات
اور عمدہ و منفرد طرزِ اظہار قاری کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے محسوس ہوتے
ہیں۔ ’’سکۂ خاک‘‘ کے مضامین کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد یہ بھی ظاہر ہوتا
ہے کہ شعرا و ادبااور فن کاروں کی کاوشات کو حصارِ نقد میں لیتے وقت سلطان
سبحانی نے ہر موڑ پرمنفی رویّوں سے مکمل گریز کیا ہے۔ مثبت فکر و نظر کی جو
پرچھائیاں آپ کی تحریروں سے ابھرتی ہیں وہ آپ کے مثبت رویّوں کے مخلص
نقّا د ہونے کا واضح اشاریہ ہیں ۔
آپ کی تحریرکی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے ادبی اصطلاحات سے روگردانی
برتی ہے اور مغربی محققین و ناقدین کے بے جا حوالوں سے اپنے مضامین کو
گنجلک نہیں بنایا ہے۔ فی زمانہ عام مشاہدہ ہے کہ مشرق کے بیش تر نقّاد مغرب
کی اصطلاحات کے بغیر اپنا اشہبِ قلم میدانِ تحقیق و تنقید میں دوڑانے کے
لیے عار محسوس کرتے ہیں اور کہیں کہیں یہ حوالہ اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ ان
کی تحریریں معمّہ اور چیستاں بن کر رہ جاتی ہیں ۔ میں سلطان سبحانی صاحب کے
اِس امتیازی اور توصیفی پہلو پر کھل کر داد دینا چاہتا ہوں کہ آپ کے
مضامین اس قسم کی باتوں سے یک سر پا ک و صاف ہیں۔
غرض یہ کہ آپ کی نثر شگفتگی، سلاست اور دل آویز کشش کی حامل بولتی اور
چمکتی ہوئی ہے۔ جملے رواں دواں اور قاری کو مضمون کے اختتام تک اپنی گرفت
میں رکھنے کا پُختہ ہنر لیے ہوئے ہیں۔ اِس مضمون میں سلطان سبحانی کی
تحریری کاوشات کے ضمن میںکیے گئے دعووں کی دلیل کے طور پر ’’سکۂ خاک‘‘ سے
درجنوں مثالیں سجائی جاسکتی ہیں ، لیکن براہِ راست ’’سکۂ خاک‘‘ کے مطالعہ
کی دعوت دیتے ہوئے حوالوں سے گریز کرتا ہوں ۔
محترم سلطان سبحانی کا ایک انفرادی وصف یہ بھی ہے کہ اِس مجموعہ میں شامل
مضامین جہاں ادبی دنیا کے قد آور شعرا و ادبا کا احاطہ کرتے ہیں وہیں آپ
نے اپنے وطنِ مالوف مالیگاؤں کے بھی کچھ فن کاروں کے فنی درو بست کو اجاگر
کرنے کی طرف توجہ مرکوزرکھی اور بے طرح کام یاب رہے۔ یقینا مفاد پسندی اور
خود غرضی کے اس عہد میں ایسا اخلاص خال خال نظر آتا ہے۔ ناقدینِ فن مشہور
و معروف شخصیات کے فکر و فن کا محاکمہ کرتے ہوئے اپنی تحریروں کو آراستہ
توکرتے ہیں لیکن اپنے آس پاس ادب کی خدمت میں مصروف افراد کو نظر انداز
کردیتے ہیں ۔میں سلطان سبحا نی صاحب کے اِس توصیفی پہلو پر بھی نگاہِ قدر و
منزلت ڈالتا ہوں کہ انھوں نے ایک بڑا کارنامہ ’’سکۂ خاک‘‘ کے ذریعہ انجام
دیا کہ اپنے پیش رَو اور معاصر فن کاروں پر بھی بے لاگ اظہارِ خیال کیا اور
ادبی دنیا کو ان کی فنی ریاضتوں سے آشنا کرنے کی سعیِ مشکور کی جو یقینا
لائقِ ستایش ہے۔ میں محترم سلطان سبحانی صاحب جیسے پیکرِ خلوص و مروّت
نقّاد کو ’’سکۂ خاک‘‘ جیسی دل کش کتاب کے لیے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں ۔
(۷؍ جولائی ۲۰۱۱ء بروز جمعرات، شب 11:20) |