پاکستان کے نامور دانشور محقق سائیں اشفاق احمد

اردو کے عظیم ادیب اور محقق 1925ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج سے ایم اے کیا ، روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی (فرانس ) سے اطالوی اور فرانسیسی زبانوں کے ڈپلومے حاصل کیے ۔ نیوریارک یونیورسٹی میں براڈ کاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔ دوسال دیال سنگھ کالج لاہور میں اردو کے لیکچرر رہے ۔ بعدازاں روم یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرر رہے ۔ وطن واپس آکر ادبی مجلہ '' داستان گو '' جاری کیا۔ دو سال ہفت روزہ '' لیل و نہار '' لاہور کی ادارت کی۔ 1967ء میں مرکزی ترقی بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔ 1953ء میں اردو کا لازوال افسانہ '' گڈریا '' لکھ کر شہرت دوام حاصل کی۔ افسانوں کے دو مجموعے '' ایک محبت سو افسانے '' اور '' اجلے پھول '' اور ناول '' مہمان بہار '' شائع ہوچکے ہیں۔ ٹی وی کے لئے متعدد سلسلہ وار ڈرامے ، اور ریڈیو کے لئے بے شمار ڈرامے ، خاکے ، اور فیچر لکھے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے مقبول عام ہفتہ وار فیچر تلقین شاہ '' کے مصنف پروڈیوسر اور اہم کردار ہیں۔ اشفاق احمد نے ٹی وی پروگرام زاویہ سے وہ مقبولیت حاصل کی شاید ہی کسی کے نصیب میں آج تک یہ میسر آئی ہو۔ اشفاق احمد کا شمار ملک کے مایہ ناز ادیبوں میں ہوتا ہے جس کے لکھے ڈرامے ، کہانیاں ، افسانے ، اور ناول آج بھی ہر زبان زد عام ہیں۔ ان کے لکھے گئے ڈرامے موضوعات زندگی کے قریب تر ہیں۔ ان کے افسانے اور ناول حقیقی کرداروں سے مزین اور حالات کی صحیح انداز میں منظر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لئے انہوں نے دل جان سے کردار ادا کیا جس کی مثال یہ ہے کہ اب تک ان کی بیس سے زائد تصانیف منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ ان کے ڈرامے ، افسانے ، مختصر کہانیاں اپنی مثال آپ ہیں۔

اردو ادب میں ان کی شراکت کے اعتراف میں سب سے زیادہ'' سویلین ایوارڈ ز'' اور حکومت کی طرف سے اشفاق احمد کو ستارہ امتیاز سے بھی نوازاگیا۔ آپ کے مایہ ناز اردو ٹی وی پروگرام '' زاویہ میں زندگی ان اوراق کو پلٹا گیا جنہیں آج تک کوئی نہ پلٹ سکا ہے ۔ آپ اپنے آپ میں ایک مصلح شخصیت تھے ، جن کی ساری زندگی علم و ادب کے فروغ میں کہنہ مشق ثابت ہوئی اور آپ نے ہزاروں ، لاکھوں نہیں کروڑوں نوجوانوں کو محبت وطن کا درس دیا۔ آپ اسلام اور دیگر مذاہب کے بارے میں بھی علم رکھتے تھے اور ایسے ایسے واقعات و تاریخ کے اوراق کا سہارا لیتے کہ سننے والا دنگ رہ جاتا۔ اشفاق احمد ممتاز مصنف ، ڈرامہ نگار ، براڈکاسٹر ، دانشور ، میزبان ، اور پاکستان سے محبت کرنے والا روشن ستارہ تھے۔ وہ صرف عقل و دانش کے امیر ہی بلکہ درویش صفت انسان تھے جن کی طبیعت اور کردار و افعال سے معترف ہوکر انہیں سعادت حسن منٹو ، قراة العین حیدر ، پریم چند مرزا ادیب اور کرشن چندر جیسے لکھاریوں ، ڈرامہ نگاروں ، کہانی نویسوں کے ساتھ شمار کیا گیا۔ اشفاق احمد کی ادبی زندگی کا آغاز بچپن میں ہی ایک میگزین پھول میں کہانیا ں لکھنے سے ہوا۔ اس کے بعد بطورسکرپٹ مصنف کے ریڈیو پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ پاکستان کی حکومت کی طرف سے مشہور شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم کی جگہ انہیں ریڈیو پاکستان کے ادب و فن کا سربراہ بنایا گیا۔ اشفاق احمد نہ صرف معاشرہ کے حقیقی کرداروں کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتے تھے بلکہ وہ مزاحیات کے تمام پہلوئوں کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔ آپ کا بولا گیا ایک ایک '' شبد '' اپنے اندر احساسیت کا خمار لیے ہوتا تھا۔ اشفاق احمد نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کرنے کی کوشش کی. انہوں نے کئی سفر نامے بھی تحریر کیے جن میں ہمارے معاشرتی اقدار کی نہایت ہی خوبصورت انداز میں عکاسی کی گئی ہے ۔ انہوں نے پنجابی ادبی الفاظ کو بہت اچھی طرح سے اردو میں استعمال کیا اور نثر کی ایک نئی منفرد قسم متعارف کروائی۔ اشفاق احمد نے اپنے ایک پروگرام میں استاد کے مقام کے حوالے سے ایک واقعہ '' کوڈ '' کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا موٹر سائیکل لاہور کی ایک مشہور شاہراہ پر ٹریفک وارڈن نے ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے پر چالان کردیا ، اور اسے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کردیا گیا، جب وہ عدالتی کٹہرے میں آئے تو مجسٹریٹ صاحب نے پوچھا کیا کرتے ہو میاں ؟؟ میں نے جواب دیا جی میں استاد ہوں اور بچوں کو تعلیم دیتا ہوں۔ میں نے ان الفاظ کی ادائیگی کیا کی ، مجسٹریٹ پر سکتہ طاری ہوگیا اور وہ اپنی کرسی سے نیچے اتر کر آیا اور اسے سلامی دی، فوری طور پر ٹریفک وارڈن کی دھلائی کرتے ہوئے اسے عزت و تکریم کے ساتھ عدالت کے دروازے تک چھوڑ گئے ۔

علم و ادب کی دلدادہ شخصیت اشفاق احمد کو زندگی کے آخری ایام میں کینسر کا عارضہ لاحق ہوگیا، اور وہ 7 ستمبر 2004 ء کو 79 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 62 Articles with 102309 views i like those who love humanity.. View More