اس ملک کا مستقبل روشن ہے یا
تاریک؟ اس کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ اندازہ لگانے کا کیا پیمانہ
ہے؟اس ملک کا سرمایہ باہر منتقل ہو رہا ہے۔فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔ڈاکٹرز
، انجینئیرز، فنی ماہرین، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل لوگ یہاں سے بھاگ
رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔یہاں ٹیلنٹ کی کوئی قدر نہیں۔ میرٹ پامال ہو رہا ہے۔
تعلیم یافتہ بیروزگاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تنخواہیں بہت کم دی جاتی ہیں۔
لوگ جس قدر محنت کرتے ہیں یا وقت دیتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں مزدوری نہیں
ملتی۔ تین تین جگہ پارٹ ٹائم نوکری کرنے کے باوجود گزارہ نہیں ہوتا۔ بچوں
کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جا سکتی۔ اس پر افسوس ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ
افسوس یہ ہے کہ ان حالات کے باوجود جو لوگ واپس آنا چاہتے ہیں۔ مغرب میں
سہولیات اور آرام و آسائشو ں کو چھوڑ کر واپس آکر اپنے ملک کی خدمت کرنا
چاہتے ہیں، ان کی سر پرستی کے بجائے حکام ان کو تنگ کرتے ہیں۔ ان کی
صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
جوڑوں اور ہڈیوں کےبہترین معالج کے طور پر شہرت پانے والے پروفیسر ڈاکٹر
محمد مقصود کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ پروفیسر صاحب پشاور یونیورسٹی کے
1985میں بہترین گریجویٹ بنے۔ انہیں یونیورسٹی سے 5گولڈ میڈل ملے۔انھوں ایوب
میڈیکل کالج ایبٹ آباد سے ایم بی بی ایس کی۔ سردار سکندر حیات خان اس وقت
آزاد کشمیر کے وزیر اعظم تھے۔ یونیورسٹی کی تقریب میں محمد مقصود کو اعلیٰ
تعلیم کی غرض سے بیرون ملک جانے کے لئے سکالرشپ دینے کا اعلان کیا گیا۔
سکندر حیات نے پیش کش کی کہ وہ محمد مقصودکو سکالرشپ دیں گے۔اس اعلان کے
بعد یونیورسٹی نے کسی دوسرے کو سکالرشپ پر بھیج دیا۔ اب ایک کہانی شروع
ہوئی۔پاکستان اور آزاد کشمیر میں حکمرانی کی خطرناک داستان۔ سکالرشپ پر
باہر بھیجنے کے اعلان پر چار سال تک عمل در آمد نہ ہو سکا۔ امیدوار کے چار
قیمتی سال ضائع ہو گئے۔ بہرحال محمد مقصود اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ
پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ برمنگھم میں ٹریننگ کی اور 1992میں ایف آر سی
ایس کیا۔ 1999 میں لیڈز ہسپتال سے ایف آر سی ایس ٹراما، آرتھو پیڈک سرجری
کیا۔ 2001میں جرمنی کی ریگنز برگ یونیورسٹی اسے شعبے میں اے اوفیلو شپ حاصل
کی۔ وہلنکن یونیورسٹی میں ٹراما، آرتھوپیڈک سرجری کے پروفیسر بن گئے۔ اب پی
ایچ طلباءان کی زیر نگرانی ریسرچ کر رہے ہیں۔ پروفیسر محمد مقصود نے امریکہ،
جرمنی، فن لینڈ، اٹلی، چیک جمہوریہ، شام، ہانگ کانگ، یونان، اور برطانیہ
سمیت دنیا بھر میں منعقدہ کانگرنسز پر مقالے پیش کئے۔ بین الاقوامی جرائد
میں لاتعداد تحقیقی مقالے شائع ہوئے ہیں۔برطانوی پارلیمنٹ نے ڈاکٹر صاحب کے
کام کی تعریف کی۔ دو توصیفی خط لکھے۔
آپ گھٹنے، ٹخنے، کندھے ،جوڑوں کی سرجری کے سپیشلسٹ ہیں۔اور انہیں تبدیل بھی
کر سکتے ہیں۔ انھوں نے تحقیق کی ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والوں کے جوڑ
تندرست ہونے میں دیر لگاتے ہیں۔ تمباکو نوشی زخم بھرنے میں رکاوٹ پیدا کرتی
ہے۔اور فریکچر کے لئے مسائل پیدا کرتی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ یہ ثابت
ہوگیاکہ تمباکو نوشی مریض کی صحت یابی میں کس طرح رکاوٹ بنتی ہے۔ پوری دنیا
اس تحقیق سے مستفید ہو رہی ہے۔ یعنی تمباکو نوشی سے انسانی خلیوں کو زبردست
نقصان پہنچتا ہے۔ وہ تاخیر سے صحت یاب ہوتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے ایک ایسا
سافٹ ویئر تیار کیا ہے جس کی مدد سے آپریشن کے دوران متاثرہ حصے کو نقصان
سے محفوظ رکھتے ہوئے آپریشن کیا جا سکتا ہے۔ یہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
رائل کالج آف سرجنزایڈن برگ، رائل کالج آف سرجنزانگلینڈ، رائل کالج آف
سرجنزآئر لینڈ، رائل کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنزگلاسگو سے ایف آر سی ایس
حاصل کئے۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میںڈاکٹر صاحب کے اعزازمیں ایک نشت کا اہتمام کیا
گیا ۔ یہ ایک پر تکلف عشائیہ تھا۔ جس کا اہتمام معروف قلمکار محمد صغیر
قمر، ثنا نیوز کے شکیل احمد ترابی اور سردار عاشق حسین نے کیا تھا۔ جس میں
یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب ہر سال یہاںآتے ہیں۔ ان کا آبائی علاقہ کھوئی
رٹہ کوٹلی ہے۔ وہ ہر سال آزاد کشمیر میں مفت طبی کیمپ لگاتے ہیں۔ ڈاکٹر
صاحب نے بتایا کہبعض امراض میں انسان کا اپنا خون شفا دیتا ہے۔ پاکستان اور
آزاد کشمیر کے ہسپتالوں کا معیار بہت کم ہے۔ یہاں جگہ جگہ ایکسرے مشینیں
نصب ہیں۔ جن کی شعاعوں سے بازاروں میں چلتے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کی
وجہ سے متعدد امراض پھیل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ معذور بچے پیدا ہو رہے ہیں
۔ان شعاعوں کو پھیلنے سے روکنے کے لئے دیواروں میں لیڈ کی تنصیب کا کوئی
تصور نہیں۔ یہاں کے آپریشن تھیٹرز میں صاف ہوا کا کوئی انتظام نہیں۔ یہ
تصور ہی نہیں۔ بیکٹیریا ہوا میں شامل ہو کر مریض کے جوڑوں میں داخل ہو جاتا
ہے۔ جو کہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مقصود ابدالی مایہ ناز آرتھو پیڈک سرجن ہیں۔ وہ اپنے ملک میں آ کر
کام کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار برطانیہ میں تعلیم
کرنے کے فوری بعد کیا۔ آزاد کشمیر کے ایک ڈی جی ہیلتھ سے فون پر رابطہ ہوا
۔ جس نے سکریٹری ہیلتھ کی موجودگی میں کہا کہ ان کی یہاں کوئی ضرورت نہیں
ہے۔ یہ درست ہے کہ ان نااہل اور جاہل حکام کی موجودگی میں یہاں کسی اعلیی
تعلیم یافتی سرجن کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ جہاں ہسپتالوں میںمریض زبح کئے
جاتے ہوں وہاں پروفیسر مقصود جیسے ٹیلنٹ کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں کے کرپٹ اور
بد عنوان قصاب نماحاکم عالمی شہرت یافتہ سرجن کا خیر مقدم کیوں کریں گے۔ ان
کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے طویل المدتی پیش بندی کی
ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنے لوگو ں کا درد ہے، خدمت کا جذبہ ہے۔ وہ عیش و
عشرت ترک کر کے یہاں آنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے لاتعداد لوگ یہاں واپس آنا
چاہتے ہیں۔ لیکن کرپٹ اور بد عنوان حکام رکاوٹ ہیں۔اگر خدمت خلق کے جذبہ سے
سرشار صاحب ثروت لوگ اس جانب توجہ دیں تو ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ عارضی کیمپ
قائم کرنے کے بجائے جگہ جگہ ہسپتال قائم کر کے عوام کی خدمت کر سکتے
ہیں۔لیکن ٹیلنٹ کے جانے اور آنے دونوںصورتوں میں رکاوٹ پیدا کرنے والے ایسا
کیسے ہونے دیں گے۔
اس” برین ڈرین “ کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر ہم واپس آنے والوں کا خیر مقدم،ان
کی سرکاری سرپرستی اور معاونت کریں۔ |