میاں نوازشریف اور ان کی پارٹی
فوری انتخابات اور ان انتخابات سے قبل نگراں حکومت کے قیام کے خواہاں ہیں۔
پیپلزپارٹی کے اپنے لوگ اور بعض دیگر سیاست دان بھی اسی طرح کی خواہش رکھتے
ہیں کہ جلد سے جلد موجودہ اسمبلیاں ختم کرکے نئے انتخابات کرائے جائے۔ تاہم
حکومت کی اہم اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ موجودہ حالات میں کسی اور
ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ وہ قائداعظم محمد علی جناح کے شہر اور ان کے ہی ملک
میں ’’قائداعظم کا پاکستان‘‘ کی متلاشی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ الطاف حسین
کو اپنی تحریک کے قیام کے 28 سال گزرنے کے بعد خیال آیا کہ یہ پاکستان
قائداعظم کا پاکستان نہیں ہے۔ متحدہ اور الطاف حسین عام انتخابات سے قبل
’’قائداعظم کا پاکستان‘‘ کے لیے ریفرنڈم کرانا چاہتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ
موجودہ پاکستان کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے کھلم کھلا یا واضح انکار کیے
بغیر قائداعظم کے پاکستان کے نام پر قوم کا رخ ایک نئی منزل کی طرف موڑنا
چاہتے ہیں۔ حالانکہ الطاف حسین کے ساتھیوں کو منزل نہیں بلکہ رہنما چاہیے۔
امکان ہے کہ متحدہ ہر موقع اور تقریب کی طرح اِس ریفرنڈم کے نام پر
بھی’’تاریخی مجمع‘‘ اکٹھا کرلے گی، اور اس کے ذریعے قائداعظم کے پاکستان کے
لیے بھرپور حمایت حاصل کرنے کا تاثر بھی دے گی۔ ہوسکتا ہے کہ ریفرنڈم کے
اختتام پر اسی روز شام متحدہ کے قائد الطاف حسین لندن سے براہِ راست خطاب
کرکے یہ اعلان کریں کہ قوم نے ’’قائداعظم کے پاکستان‘‘ کے لیے فیصلہ دے دیا
ہے۔ اگر لوگوں نے اس پاکستان کی حمایت بھی کردی تو زیادہ سے زیادہ کیا
ہوگا؟ کیا ملک اس طرف گامزن ہونے لگے گا؟ یا پھر عوام کو مہنگائی، بے
روزگاری، منافع خوری، بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل جائے گی؟
’’قائداعظم کا پاکستان‘‘ کے نعرے سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ یہ شاید کوئی نیا
ملک بنانے کا نعرہ ہے۔ یہ وضاحت تو متحدہ یا اس کے لیڈر ہی کرسکتے ہیں،
لیکن ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ جو جماعت اپنے مشیر، مشیر پیٹرولیم رکھنے
اور ملک کے اقتدار میں حصہ دار ہونے کے باوجود سی این جی کے نرخوں کو
حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق کم نہیں کراسکی وہ کیسے حقیقی طور پر قائداعظم
کا پاکستان بنا پائے گی؟
اس بحث میں پڑنے سے قبل کہ متحدہ کے ریفرنڈم کے نتائج کیا ہوں گے، اس بات
پر غور کرنا چاہیے کہ قائداعظم کے پاکستان میں اسی عظیم نام سے ایک نئے
پاکستان کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس ریفرنڈم میں ووٹ کاسٹ کرنے والے کیا
قائداعظم، ان کی سیاسی اور ذاتی زندگی، قائداعظم کی پاکستان کے قیام کے
حوالے سے جدوجہد اور 1913ء میں ان کے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرکے
خالصتاً مسلمانوں کی جماعت مسلم لیگ میں شمولیت کے اہم اور تاریخی قدم سے
واقف بھی ہیں؟ اگر ووٹ ڈالنے والے ان تاریخی حقائق سے واقف نہیں تو ایسے
ووٹ، ووٹرز اور ریفرنڈم کے نتائج کی اہمیت مشکوک ہوجاتی ہے۔
مجھے تو ’’قائداعظم کا پاکستان‘‘ کا نعرہ ان ہی کے بنائے ہوئے ملک کے خلاف
بڑی سازش لگتا ہے، جیسے ماضی میں جناح پور کے نام سے الگ ریاست بنائے جانے
کی سازشوں کی اطلاعات تھیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ملک کے سیکورٹی ادارے،
میڈیا اور حکمران پاکستان کے اندر کسی اور پاکستان کی باتوں پر خاموش کیوں
ہیں! یہ قائداعظم کے پاکستان کے حصول کی جدوجہد ہے یا پھر ’’قائد کے
پاکستان‘‘ کی؟ ہم سب کو سوچنا چاہیے۔
ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے والوں کو یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ متحدہ کہیں اس
ریفرنڈم کے ذریعے اپنی طاقت کا اظہار کرنا تو نہیں چاہتی؟ یا پھر عام
انتخابات سے قبل وہ اپنے ووٹرزکوجانچنا چاہتی ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو یہ
اُس کا حق ہے۔ منظم جماعتیں اسی طرح اپنی پارٹیوں کو چیک کرتی ہیں۔
متحدہ کے قائد نے مذکورہ نعرے کے ساتھ قائداعظم کے فرقے کو چھیڑا اور اپنی
مختلف تقاریر میں بار بار یہ کہا کہ قائداعظم شیعہ تھے۔ میری سمجھ میں نہیں
آتا کہ جو تحریک ’’کسی کے مذہب کو نہ چھیڑو اور اپنے مذہب کو نہ چھوڑو‘‘ کا
نظریہ رکھتی ہے اور اسی نظریے پر لوگوں کو جمع کرتی ہے اُس کے قائد نے خود
ہی قائداعظم کے مذہب اور فرقے کی بات کیوں چھیڑی؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ
لاکھوں پڑھے لکھے کارکن ہونے کے باوجود کسی ایک نے بھی انہیں تنظیم کی
بنیادی پالیسی اور نظریے کی یاد نہیں دلائی!
یہ درست ہے کہ قائداعظم تمام مذاہب اور ان کے لوگوں کا احترام کرتے تھے،
اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ وہ نہ تو کوئی مفتی تھے اور نہ ہی انتہائی پکے
بنیاد پرست۔ لیکن یہ بھی تو سو فیصد سچ ہے کہ قائداعظم سیکولر یا لادین
نہیں تھے۔ اگر قائداعظم محمد علی جناح لادین ہوتے تو برٹش دور میں جب چاروں
طرف انگریزوں اور غیر مسلموں کا راج تھا کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل
کیوں ہوتے؟
بانیٔ پاکستان مسلمانوں اور مذہبِ اسلام کے اس قدر شیدائی تھے کہ انہوں نے
کانگریس میں ہوتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کے لیے جدجہد کی اور آواز اٹھائی،
لیکن جب ان کی بات پر توجہ نہیں دی گئی تو انہوں نے اپنی زندگی کی پہلی
سیاسی جماعت کو خیرباد کہہ دیا، اور 1913ء میں مسلمانوں کی سیاسی جماعت
مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔
جو لوگ قائداعظم کی ذات کو سامنے رکھ کر اور ان سے منسوب غیر معروف باتوںکو
ان کے انتقال کے 64 سال بعد مشہور کرکے ان کے اسلامی ملک کو… جو نظریاتی
طور پر مسلمانوں اور ان کے نظریے پر قائم ہونے والا تاریخی ملک ہے… اعتدال
پسند،روشن خیال اورلبرل یا سیکولر بنانا چاہتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہ
رہے ہیں۔اگرغیر ملکی اوراسلام دشمن طاقتوں نے ایسے لیڈروں کو ان کی اپنی
ذاتی یا سیاسی زندگی کے عوض یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ پاکستان کو اعتدال پسند،
روشن خیال اور سیکولر ملک بنادیں، تو یہ ان کی بھول ہے۔ میں ایسے لیڈروں کو
یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان مشہور اور مقبول علماء کرام مجدد ملّت
اشرف علی تھانوی، شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی، شیخ الحدیث مولانا
ظفر عثمانی، اور مفتی شفیع عثمانی سمیت اسلام پر جان دینے والے مجاہدین اور
ان کے ساتھی قائداعظم محمد علی جناح کی فیصلہ کن شخصیت کی جدوجہد کے نتیجے
میں قائم ہوا ہے۔ پھر یہاں اسلامی تعلیمات کو جاری رکھنے اور اسلامی نظریے
کی وجہ سے پاکستان کی آزادی کے صرف چار سال بعد دارالعلوم کراچی کا قیام
عمل میں لایا گیا۔
یہ ملک مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا تحفۂ خاص ہے، اس کی حفاظت بھی اللہ
ہی کررہا ہے اور سب مسلمانوں کو یقین ہے کہ اللہ ہمیشہ اس ملک اور اس کے
باشندوں کی حفاظت کرتا رہے گا۔ جو حصہ اس ملک سے جد ا ہوگیا ہے اس میں بھی
اللہ ہی کی کوئی مصلحت ہوگی۔ سب کو یقین ہے کہ اس ملک اور یہاں کے باشندوں
کے ساتھ منافقت اور مکاری کرنے والوں کا انجام برا ہوگا۔ ذرا غور کریں تو
معلوم ہوگا کہ ملک سے بے وفائی کرنے والوں کو اللہ نے اس زمین سے ہی دور
کردیا۔ سمجھنے والوں کے لیے یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے ۔
قائداعظم محمد علی جناح کے نام کو استعمال کرکے نیا پاکستان بنانے کا نعرہ
لگانے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ قائداعظم اور ان کے قریبی ساتھی ایسے
لیڈر تھے جو قیام پاکستان کے بعد یہاں پر ہی رہے۔ بیماری اور جان کا خوف
انہیں نہ زندگی میں اور نہ ہی مرنے کے بعد اس ملک سے دور کرنے میں کامیاب
ہوسکا۔ محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لیے پاکستان حاصل کرنے کی غرض سے 37
سال کی عمر میں جدوجہد شروع کی تھی۔ وہ تحریک ِ پاکستان کی کامیابی اور ملک
کے قیام کے بعد سے وفات تک پاکستان میں رہے۔ انہوں نے بیماری کے باوجود
لندن یا امریکا جانے کے بجائے پاکستان میں ہی زندگی کے آخری ایام گزارے اور
یہیں انتقال کیا۔ اس طرح انہوں نے آخری وقت تک پاکستانیوں کی خدمت کی اور
ان ہی کے ساتھ رہے۔ قائداعظم جس تحریک کے لیڈر بنے اس کے کارکنوں سے ایسا
نعرہ نہیں لگوایا کہ ’’منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘۔ بلکہ انہوں نے لوگوں کو
منزل بھی دلائی اورخود بھی منزل پائی۔ وہ بزدل تھے اور نہ ہی منافق… بلکہ
وہ سچے مسلمان اور پکے پاکستانی کے ساتھ ساتھ سچے حق پرست اور وطن پرست
تھے۔
بعض لیڈر چیخ چیخ کر یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کسی رشتے دار کو کوئی
بھی عہدہ اور آسائش نہیں دی۔ تو عرض ہے جناب کہ قائداعظم محمد علی جناح تو
وہ شخصیت تھے کہ اُن کے بھائی احمد علی جناح جب اُن سے ملاقات کی غرض سے
گورنر جنرل ہائوس پہنچے تو ان سے ملاقات کرنے سے صرف اس لیے انکار کردیا کہ
احمد علی جناح نے ایک کاغذ پر اپنے نام کے ساتھ برادر آف محمد علی جناح
لکھا تھا۔ جب ان کے سیکریٹری نے اصرار کیا کہ سر ملاقات کرلیں آپ کے بھائی
ہیں، تو قائداعظم نے انہیں ڈانٹ دیا اور کہا کہ اس نے میرا نام اپنے نام کے
ساتھ کیوں لکھا؟ اگر میں اس سے ملاقات کرلوں گا تو اس کی حوصلہ افزائی
ہوگی، پھر وہ ہر ایک پر رعب ڈالے گا، جب کہ میری زندگی پاکستانیوں کے لیے
ہے، اب میں اس کا بھائی بعد میں، پہلے پاکستان کا گورنر جنرل ہوں۔
پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانے والوں کو چاہیے کہ اپنے نعرے پر غور
کریں۔ کہیں وہ ایسا کہہ کر پاکستان کے، قائداعظم کا پاکستان ہونے سے انکار
تو نہیں کررہے؟ قائداعظم اچھے اور سچے مسلمان ہونے کے ساتھ اپنے لوگوں کے
ساتھ مخلص تھے۔ ان کا ہر عمل حق پرستانہ تھا۔ ان کی کابینہ کے کل ارکان دس
تھے۔ وہ اپنے ساتھ پروٹوکول پسند نہیں کرتے تھے، نہ ہی رکھتے تھے۔ ان کا
پرسنل سیکریٹری ان کے ساتھ گاڑی میں سفر کرتا تھا اور ان کی گاڑ ی سے آگے
کبھی کبھی دو موٹر سائیکل سوار پائلٹ ہوا کرتے تھے ۔
پاکستان کو دوبارہ قائداعظم کا پاکستان بنانے والوں کو چاہیے کہ وہ
قائداعظم کی طرح اپنے ہی’’ وطن میں جینا تو سیکھ لیں‘‘۔
مجھے ہر نئے ایشو اور نئے نعرے کی طرح اِس بار بھی ڈر ہے کہ کہیں کوئی
’’شہادت‘‘ سامنے نہ آجائے ۔ کسی معصوم کو قائداعظم کے پاکستان کا شہید ہونے
کا اعزاز نہ مل جائے۔ اللہ ہم سب کو حق بات سمجھنے، سننے اور برداشت کرنے
کی توفیق عطا فرمائے، ہماری حفاظت کرے اور ہم سب کو اپنے دین پر رکھے،آمین۔ |