"درمیانے" صحافیوں کو دھمکیاں

صحافت کرنا وہ بھی ایک ایسے دور میں جب ہر جگہ جھوٹ بولا جاتا ہو اور اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے لوگوں کا قتل تک جائز ہو تو صحافت بہت مشکل کام بن جاتا ہے جو لوگ جانبداری سے کام کرتے ہیں ان کیلئے کچھ نہ کچھ فائدہ ہے کیوں کہ کہیں سے انہیں مالی طور پر فائدہ اور مراعات تو ملتی ہے لیکن جو صحافی غیر جانبدار رہ کر رپورٹنگ کرتے ہیں انہیں خطرات کا سامنا ہے -اسی صورتحال کا ہمیں بھی سامنا ہے اور خیبر پختونخواہ و قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافی انہی مشکلات سے دوچار ہے موت کا ایک دن معین ہے تاہم اس ایک دن کا خوف صحافیوںکو جینے نہیں دیتا -اسی ڈر کے باعث بہت سارے صحافی جنہیں "کہیں اور سے بھی بہت "کچھ ملتا ہے صوبہ خیبر پختونخواہ سے اپنابوریا بستر باندھ کر نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ میری طرح سینکڑوں صحافی جن کی اوقات "درمیانے"کی ہے مجبورا یہاں پر پڑے ہیںمیں اپنے ساتھیوں کو "درمیانہ"اس لئے کہہ رہا ہوں کہ یہ " ڈنڈے اور بیلٹ والے سرکار" کے ترجمان ہیں اور نہ ہی ان کا تعلق طالبان کے کسی گروپ سے ہے یہ لوگ غیر جانبدار رہ کر حقیقت بیان کرنا چاہتے ہیں لیکن یہاں کہیں پر " بیلٹ والی سرکار"کا ڈنڈا سامنے آجاتا ہے تو کہیں سے " خط " موصول ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو ٹھیک کرو - مورچوں ایوانوں میں رہائش پذیر لوگوں کیساتھ ساتھ اب تو 'پہاڑوں میں رہنے والوں سے " مراسلے آتے ہیں اور تینوں اطراف سے " صحافیوں کو اوقات بتائی جاتی ہے " حالانکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں کام کرنے والے صحافی جس بدترین صورتحال سے دوچار ہے اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں -

موجودہ حالات میں ہمارے صوبے کے صحافی جسطرح کام کررہے ہیں ان پر انکی جرات کو خراج تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں "موت کا خوف "دیکر "راہ راست "پر لانے کی کوشش کی جائے اور یہ کام تینوں اطراف سے ہورہا ہے کوئی اشارہ کرکے بتا دیتا ہے کہ " اپنی اوقات"میں رہو اور کوئی دھمکی دیکر بتا دیتا ہے کہ "انسان کے بچے "بن جائو ورنہ دوسری صورت میں نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہو-میری یہ باتیں کچھ لوگوں کو بری لگیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ صحافی بھی عام چھابڑی فروشوں مزدوروں کی طرح "مزدور" ہی ہے یہ الگ بات کہ ظاہر ی طور پریہاں کے صحافی ایسے نظر آتے ہیں جیسے کہ ان کا ا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے یا پھر یہ لوگ فیصلہ سازی کی قوت رکھتے ہیں حالانکہ میری طرح سینکڑوں صحافی جو اس وقت مختلف اخبارات ٹی وی چینلز اور ریڈیو کیساتھ وابستہ ہیں "پل"کا کردار ادا کررہے ہیں اور مختلف واقعات کی رپورٹنگ کرکے عام لوگوں تک پہنچارہے ہیں ان کی حقیقت میں اوقات "مزدور "سے بھی بدتر ہے -جبکہ میری طرح "روزی روٹی "کمانے کے چکر میں صحافت کرنے والے "للو پنجو"قسم کے صحافی نہ تو حکومتی فہرست میں اچھے صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں"پہاڑوں میں رہنے والے" پسند کرتے ہیں -نہ ہی ہم لوگ فیصلہ سازی کی قوت رکھتے ہیں -ہر روز مرنے سے ایک دن کا مرنا آسان ہے خواہ یہ موت کسی بھی صورت میں آئے -ویسے بھی "کرسیوں پر آ گے بیٹھ کر" اپنے آپ کو "وی آئی پی "سمجھنے سے " للو پنجو" قسم کے صحافیوں کی اوقات نہیں بدل جاتی اگر یقین نہیں آتا تو پانچ تاریخ کے بعد "محنت مزدوری"کرکے صحافت کرنے والے صحافیوں کے جیب / پرس دیکھ لیںآپ کو اندازہ ہو جائیگا کہ بجلی گیس پانی گھر اور رکشوں کے کرایوں سمیت سکول کے بچوں کی فیسوںنے ان صحافیوں کو عام لوگوں کی طرح مارا ہوا ہے دیکھنے میں یہ لوگ "دو ٹکے"کے عوام کی طرح زندہ دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں "زندگی" کی رمق نہیں ہوتی-یہ بھی اس صورت میں جب انہیں تنخواہیں بروقت ملتی ہوں -

کبھی عام زندگی میں آپ نے کسی صحافی کو دیکھا ہے کہ اس کے گھر والے/ بچے کہیں پارک میں بیٹھے ہوں یا پھر کہیںآئوٹنگ پر گئے ہوں سوائے چند " لوگوں "کے یہ سارے "دو ٹکے "کے عوام سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں- سرکار کے کھاتے میں آگے پیچھے پھرنے والے کچھ لوگ شوقیہ اور نمائشی صحافت کررہے ہیں یہ مخصوص لوگ اپنے مقاصد کیلئے پوری صحافی برادری کو بدنام کررہے ہیں کیونکہ مراعات پلاٹس پراجیکٹس اور غیر ملکی سیر و تفریح یہی مخصوص لوگ کرتے ہیں جو سب کوتو نظر آتی ہیں لیکن ان بدقسمت صحافیوں کا کوئی پرسان حال نہیں جو اخبار/ ٹی وی چینل/ریڈیو پر کام کررہے ہیں لیکن تنخواہ کے معاملے میں انہیں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان لوگوں نے متعلقہ اداروں کیساتھ قسطیں ڈال رکھی ہوں کیونکہ انہیں تنخواہیں بھی سہ ماہی اور شش ماہی بنیاد پر ملتی ہیں -یا پھر ان صحافیوں کو جنہیں کسی بھی وقت "لات مار کر" نوکری سے نکال دیا جاتا ہے اور پھر انہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا-درمیانے درجے کے صحافی نہ تو کسی " این جی او" سے وابستہ ہے نہ ہی کسی گروپ سے ان کا تعلق ہے اس لئے یہاں بھی مار کھا رہے ہیں کیونکہ آج کل تو این جی اوز بھی صحافیوں کو بہت کچھ سکھارہی ہیں اسی بنیاد پر کچھ لوگ تو" غیر ملکیوں"کے سامنے اپنے آپ کو "ہراساں" ظاہر کرکے نہ صرف مظلوم ظاہر کررہے ہیں بلکہ غیر ملکی امداد کیلئے راستہ بھی صاف کررہے ہیں یہی مخصوص گروپ بڑی بڑی کوٹھیو ں کے مالک ہیں اور "ٹٹ پونجئے " صحافیوں کا قسمت بھی فیصلہ بھی یہی کرتے ہیں اور "ہراساں"کرنے میں بھی یہی لوگ ماہر ہیں-

ہمیں نہیں پتہ درمیانے درجے کے صحافیوں کو کیوںجان سے مارنے کی"دھمکیاں"مل رہی ہیں کیونکہ نہ تو یہ لوگ "ہراساں" کرنے والوں میں سے ہے اور نہ ہی انہیں "پینے " کا شوق ہے نہ یہ لوگ نام نہاد آزادی کے حق میں ہے جس کیلئے بڑی بڑی ورکشاپیں اور " ٹن پارٹیاں "بھی منعقد کرائی جاتی ہیں ہاں اگر یہ جرم ہے تو پھر خیبر پختونخواہ میں صحافت سے وابستہ 90 فیصد صحافی مجرم ہے جو نہ تو کسی گروپ کا حصہ ہے نہ پشتو زبان کے مصداق کسی کے " تالی سٹ " ہیں ہاں اگر سچ بولنا جرم ہے تو یہ جرم ہر ایک صحافی کررہا ہے جو کسی کو اگر برا لگتا ہے تو لگتا رہے -ویسے بھی ہم صحافی بڑے بدقسمت لوگ ہیں کیونکہ ان کے " ٹارگٹ"ہونے کے بعد بھی انکی موت کی وجوہات کا پتہ نہیں چلتا -کیونکہ ان کی موت کے بعد تو تحقیقات کیلئے کمیٹیاں بنتی ہیں اور جہاں پر کمیٹی بن جائے وہاں پر" کام کی مٹی " بن جاتی ہے--ہر ایک کے کام آنے والے صحافیوں کو اگر کوئی اپنا دشمن سمجھتا ہے تو انہیں یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ لوگ بھی " انہی کی طرح مظلوم " ہے سوائے چند مخصوص لوگوں کے موجودہ حالات میں خیبر پختونخواہ کے صحافی تو کچھ اور نہیں کرسکتے لیکن ڈنڈے اور بیلٹ والی سرکار سمیت ایوانوں اور پہاڑوں پر رہنے والے سے گزارش ہیں کہ" ہم جینے دو "کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ہم کسی کے ساتھی نہیں اگر کوئی " فنڈز اور پراجیکٹ" لینے کیلئے ڈرامہ کرتا ہے یا پھر "ڈالروں کی آڑ میں کچھ"اور مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیںتو " بڑے " لوگوں کا کھیل ہے ہم تو ویسے بھی "مرے کو مارے شامدار"کے مصداق ہیں . ہاں اگر پھر بھی بھی "صحافی "نشانے پر ہیں تو " بسم اللہ " مرنا تو ایک دن سب نے ہے ہم اپنا حساب اس رب العزت کی دربار میں لیں گے جو سب کے دلوں کا حال جانتا ہے-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498067 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More