کرے کوئی اور بھرے کوئی اور -

کرے کوئی اور بھرے کوئی اور اس کا پشتو زبان میں میں اپنا ہی مزہ ہے لیکن میں یہاں پر اپنی زمانہ طالب علمی کی بات کررہا ہوں جہاں پر دوران تعلیم اس محاورے کی تشریح کرنی تھی وہ تشریح تو اس وقت ہم نے کرلی تھی لیکن گذشتہ دنوں اس کی تشریح کی صحیح سمجھ آئی ہوا کچھ یوں کہ میرے ایک صحافی دوست نے مجھ سے ڈیجیٹل کیمرہ مانگا جو میں نے اسے دیا اس وقت اس نے مجھے بتا دیا تھا کہ اس نے کچھ تصاویر لینی ہیں -شام کو جب اس نے مجھے کیمرہ واپس کردیااور میں نے اس میں تصاویر دیکھی جس میں معصوم بچوں کی تصاویر موجود تھی جو عید پر ملنے والے کپڑوں پر خوشی کا اظہار کررہے تھے پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ ان معصوم بچوں کی تصاویر ہیں جو اس وقت ناکردہ گناہوں کی جرم میں جیل کے اندر سڑ رہے ہیں ان تصاویر کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہم کتنے بے حس لوگ ہیں کسی اور کی سزا ہم کس طرح ان معصوم بچوں کو دے رہے ہی ان تصاویر نے اس محاورے کی تشریح کردی پشتو زبان میں اس کی اپنی ایک مثل ہے جویہاں پر لکھی نہیں جاسکتی کیونکہ پھر " فحاشی کا الزام" لگنے کا ڈر ہے -اس کیمرے میں ان معصوم بچوں کی تصاویر تھی جو اس وقت سنٹرل جیل پشاور میں بغیر کسی جرم کے زندگی گزار رہے ہیں ان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ان معصوم بچوں کی مائیں مختلف جرائم میں جیل کے اندر مقید ہیں کچھ ان میں ملزم ہیں اور کچھ مجرم بن بیٹھی ہیں اور ان کے ساتھ ان کے معصوم بچے بھی "مفت "میں سزائیں کاٹ کر جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہیں ان خواتین پر اپنے شوہروں کے قتل کے الزامات سمیت منشیات فروشی سمگلنگ اور کار لفٹنگ کے الزامات ہیں ان معصوم بچوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہم اپنے بچوں کیلئے کتنا دکھ درد رکھتے ہیں لیکن دوسروں کے بچوں کیلئے ہمیں کوئی پروا ہی نہیں ٹھیک ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے اور ہمارے ہاں تو قانون ویسے بھی اندھا ہے "غریب کیلئے الگ قانون اور امیر کیلئے الگ قانون "بنائے جاتے ہیں لیکن قانون کو اتنا اندھا بھی نہیں ہونا چاہئیے کہ کسی اور کی سزا کوئی اور بھگتے اور وہ بھی معصوم بچے یہ وہ معصوم بچے ہیں جنہیں نہیں پتہ کہ جرم کیا ہوتا ہے اور ان کا اپنا جرم کیا ہے جو کھیلنا تو جانتے ہیں لیکن انہیں کھیلنے کا میدان تک میسر نہیں-

نہ تو جیل میں مقید ان معصوم اور ہمارے آنیوالے مستقبل کو کوئی جیل میں کھیلنے دیتا ہے کبھی کبھار ان بد نصیب بچوں کو غلیظ ترین نظریں اور گالیاں سننے کو ملتی ہیں جن کا تصور بھی ہم اور آپ لوگ نہیں کرسکتے یہ وہ بدقسمت بچے ہیں جن کے اپنے رشتہ دار بھی انہیں بھول جاتے ہیں جیل کی سلاخوں کے اندر رہنے والے یہ معصوم بچے اپنے مائوں کیساتھ ناکردہ گناہوں کی سزائیں کاٹ رہے ہیں ہمارے معاشرے میں جہاں پر ویسے بھی بچوں کو کوئی نہیں پوچھتا ایسے میں اگر یہ معصوم بچے جیل کے اندر تو پھر ان پر مخصوص چھاپ بھی لگ جاتی ہیں کہ یہ جرائم پیشہ کے بچے ہیں-جس طرح ہمارے جیلوں کا حال ہے ایسے میں فرشتوں کی مانند ان بچوں کو اگر جیلوں میں زندگی گزارنے کا موقع ملے تو یہ کیا سیکھ کر آئیں گے اور اس کے اثرات ہمارے ان بچوں کے مستقبل پر کیا ہونگے کیا اس کا اندازہ کسی کو ہے -تصاویر میں ان بچوں کو دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ان معصوم بچوں نے کبھی خوشیاں بھی دیکھی ہونگی-بقول صحافی دوست نے جب میں نے ایک بچے سے سوال کیا کہ تم یہاں پر کیوں ہوتو اس بچے نے فورا جواب دیا کہ میری ماں نے تین سو دو کی ہے اور اس جرم میں وہ بھی اندر ہے اور میں اپنی ماں کیساتھ ہوں یہ اس معصوم بچے کے اداکردہ الفاظ ہے ٹھیک ہے کہ ان جیسے بچوں کی مائوں نے حالات /واقعات/ کے پیش نظر کوئی جرم اگر کیا بھی ہو تو ان کیسز میں یہ بچے کیوں مفت میں اندر ہیں اور کیوں ان بچوں کے ذہن اور زندگیاں تباہ کی جارہی ہیں-

ان معصوم بچوں کیلئے مختلف این جی اوز بھی کام کررہی ہیں لیکن ان کی تعلیم اور ذہنی نشوونما کیلئے کوئی پروگرام کسی کے پاس نہیں ہمارے صحافی دوست کے بقول اس وقت سنٹرل جیل پشاور میں سولہ ایسے بچے ہیں جو اپنے مائوں کیساتھ جیل کی کال کوٹھڑیوں میں بند ہیں یہ صرف ایک سنٹرل جیل پشاور کا حال ہے صوبے کی دیگر جیلوں میں مقید مائوں کے ساتھ قید بچوں کی تعداد کتنی ہے ان کی عمریں کتنی ہیں اس کا اندازہ اور ڈیٹاکسی کے پاس نہیں نہ انہیں تعلیم دینے / فنی ہنر /ذہنی تربیت کیلئے کوئی منصوبہ /ادارہ کا م کررہا ہے - اور تو اور ان معصوم بچوں کو ہم جیسے لوگ بھی اپنی خوشیوں میں یاد نہیں رکھتے -عیدالفطر/عیدالضحی جیسے مواقع پر بھی یہ بچے کسی کو یاد نہیں آتے کوئی ان کیلئے جوتے لیکر نہیں دیتا نہ ہی انہیں کوئی نئے کپڑے لیکر دیتا ہے -میں تو اس خاتون صحافی کی جرات کو حیران ہوں جس نے امسال عیدالضحی پر قربانی کرنے کے بجائے ان معصوم بچوں کا سوچا اور ان کیلئے کپڑے خرید کر دئیے حالانکہ یہ کام حکومت کا ہے کسی انفرادی شخصیت کا نہیں ہے کوئی ان بچوں کو خوشیوں میں یاد رکھنے والا! اس وقت سنٹرل جیل پشاور میں مقید بچوں میں آٹھ ماہ کا سب سے کم عمربچہ ہے جبکہ نو سال کا سب سے بڑابچہ ہے اس طرح کے بچے ہمارے اپنے گھروں میں ہیں ہم ان کیلئے کیا سوچتے ہیں کیا یہ اس قوم کے بچے نہیں-

موجودہ حالات میں ہم تو یہاں صر ف عدلیہ سے ہی توقع کرتے ہیں کہ ان معصوم بچوں کیلئے کوئی اقدام اٹھائے جتنے "سوموٹو" دیگر معاملات میں اٹھاتے ہیں اگر ان معصوم بچوں کیلئے"سوموٹو" لیا جائے تو یہ نہ صرف ان معصوم بچوں اورآنیوالے مستقبل کیساتھ بہتر ہوگا بلکہ ان خواتین کیساتھ بھی بہتر ہوگا جو کئی سالوں سے جیلوں میں قید ہیں مگر ان کی کیسز کی باری نہیں آرہی اگر ان کے کیسز ترجیحی بنیادوں پر عدالتوں میں پیش کئے جائیں تو یقینا بہت سارے خواتین اور بچے جیل سے باہر نکل آئیں گے اور یہ سلسلہ صرف پشاور سنٹرل جیل تک نہیں بلکہ صوبے کے دیگر جیلوں میں قید خواتین کیلئے ہونا چاہئیے جبکہ جن خواتین پر کوئی جرم ثابت ہو اور ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ہوں تو ان کیلئے کوئی عارضی پناہ گاہ بنائی جائے جہاں پر انہیں معاشرے کا فعال شخص بنانے کیلئے نہ صرف انہیں تعلیمی /فنی سہولیات دی جائے بلکہ انہیں جیل کے سلاخوں سے بھی دور رکھاجائے اور بعد میں یہ بچے نہ صرف اپنے مائوں کا سہارا بنے بلکہ ملکی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرے -سب سے آخری اور اہم بات کہ جو خواتین اس وقت جیلوں میں حاملہ ہیں کم از کم انہیں توصحت کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور انہیں ماہانہ بنیادوں پر چیک کرنے کا انتظام خاتون لیڈی ڈاکٹر کے ذریعے کیا جائے -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497972 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More