آئندہ الیکشن اور نئے خدشات

اس وقت جو ملکی حالات چل رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں ایک عام آدمی تو کیا اب تو مڈل کلاس کا بھی زندگی گزارنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے اور آمدنی کے ذرائع کم ہوتے جارہےہیں۔امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے تمام سیاسی پارٹیاں الیکشن کی تیاری میں مصروف نظر آتی ہیں عوام بھی الیکشن کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الیکشن سے حالات معمول پر آجائیں گے؟غریب کو دو وقت کی روٹی میسر آ جائے گی۔جو بچے بیماریوں کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی سے گزر رہے ہیں ان کے لیے کسی مسیحا کا بندوبست ہو جائے گا۔جو بچہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر سکول نہیں جا سکتا اس کے لیے کسی سکول کا انتظام ہو جائے گا۔۔۔۔۔

موجودہ حکومت سے اس کی امید رکھنا اندھوں کے شہر میں چشمے اور گنجوں کے شہر میں کنگھے بیچتے کے مترادف ہے۔ تو دوسری صورت میں الیکشن کا انتظار کرنا ھی اصل مسائل کا حل ہے۔ اگر الیکشن کا جائزہ لیا جائے تو مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بڑی تبدیلی آئے گی شاید چہرے تبدیل ہوں لیکن پالیسیاں وہی رہیں گی کیونکہ اس حکومت نے حالات اس قدر خراب کر دیے ہیں کہ اگلی حکومت چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پائے گی بہر حال اچھی امید رکھنی چاہیے۔

پاکستان مسلم لیگ ق اور پی پی پی ایک ساتھ الیکشن لڑنے کا عندیہ دے چکی ہیں اس کا مطلب ہے کی پنجاب میں میاں برادران کو ٹف ٹائم دینے کا پلان تیار ہو گیا ادھر جماعت اسلامی ابھی تک کسی انتخابی مہم کا حصہ نھیں بنی۔پی پی پی کے لیے آئندہ حکومت بنانا کوئی مشکل کام نہیں وجہ صاف ظاہر ہے جو جماعتیں اس وقت مرکز میں اس کی اتحادی ہیں وہی جماعتیں صوبوں میں سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کا فارمولا اپنائیں گی اور آئندہ مرکز میں پی پی پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی اور سینٹ میں پی پی کو برتری حاصل رہے گی جو مرکز میں آئندہ حکومت بنانے میں ایک اہم کڑی ثابت ہو گی۔

صوبائی حکومتیں اپنی جگہ پر قایم رھیں گی البتہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف میاں برادران کی کچھ سیٹیں اور کے پی کے میں اے این پی کی کچھ سیٹیں لینے میں کامیاب ہو جائے گی۔مولنا فضل الرحمان کی حیثیت اپنی جگہ قائم رہے گی ہوسکتا ہے ایم ایم اے کی بحالی سے پنجاب میں اور کے پی کے میں مزید کچھ سیٹیں لینے میں کامیاب ہو جائیں اور آئندہ حکومت میں جس کے ساتھ چاہیں مل جائیں البتہ کے پی کے میں اگر تحریک انصاف کی پوزیشن بہتر ہوئی تو ایم ایم اے اور تحرکی انصف صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

سندھ میں متحدہ اور پی پی کی برتری قائم رہے گی اگر میاں صاحب نے بہت تیر مارا تو ایک آدھ سیٹ سے زیادہ آگے نہیں جا پائیں گے البتہ کراچی کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔بھتہ خوروں سے تنگ کراچی کی عوام کس کو ووٹ دے گی الیکشن سے پہلے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن جن جماعتوں کو سپریم کورٹ نے کراچی کے حالات کا ذمہ دار ٹھرایا ہے اگر عوام دوبارہ بھی انھیں ووٹ دے تو حالات درست نہیں ہو سکتے دوسری صورت میں عوام کے پاس ایم ایم اے اور جماعت اسلامی کی صورت میں ایک آپشن موجود ہے جس کا ثبوت عوام نے مولنا فضل الرحمان کی اسلام زندہ باد کانفرنس میں دیا۔

بلوچستان کی عوام صوبائی اور مرکز کی حکومت سے تو ناراض ہی دکھائی دیتی ہے اس صورت میں تحریک انصاف کا سکہ چل سکتاہے اگر تحریک انصاف چند بلوچوں کو اپنے ساتھ ملایے اور حالات کو بہتر بنانے کی ذمہ داری اٹھائے۔ورنہ بلو چستان کے حالات اس قدر خراب ہیں کہ کسی بھی وقت کوئی نئی تنظیم سر اٹھا سکتی ہے جو بلوچستان کے مستقبل کے لیے بہتر نہیں ہو گا۔

اگر اپوزیشن بشمول پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی،ایم ایم اے اور دوسری علاقائی سیاسی پارٹیاں پاکستان کے حالات درست کرنا چاہتی ہیں تو ان تمام جماعتوں کو الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا اپنانا ہو گا تاکہ موجودہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کا راستہ روکا جا سکے کیونکہ پارلیمنٹ سے باہر کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت موجود نہیں جو اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو اور عوام کو بھی سوچنا ہو گا کہ اسے تمام تر صوبائیت اور لسانیت کی بنیا د پر ووٹ دینا ہے یا قائد اعظم اور علامہ اقبال نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا اسے شرمدہ تعبیر کرنے والوں کو ووٹ دینا ہے-
waseem akhtar
About the Author: waseem akhtar Read More Articles by waseem akhtar: 5 Articles with 6115 views i am writter and .. View More