اقبال کی عظمت کا باعث ان کی
شاعری میں محض فن کی جلوہ ریزیاں نہیں، اس لیے کہ شاعری میں فنی التزام ہی
ضروری نہیں بلکہ فکر و خیال کی عطر بیزی بھی درکار ہے۔ اقبال کی شاعری میں
مجاز سے زیادہ حقیقت کا رنگ غالب ہے۔ جس کا سبب ان کے یہاں فکر و خیالات کی
بلندی اور سوزِ دروں ہے۔ یہی سبب ہے کہ مناظر کائنات، حسنِ عالم، نغمہ
طائرانِ قدس، جلوہ گلستاں، سنبل و نرگس کی شوخیاں، حیاتِ انسانی کی
رنگینیاں، مقصد تخلیق، قوت پرواز ان کے یہاں اپنے مقصد تخلیق کے ساتھ بیاں
ہوتی ہیں۔
یہ ایک لازمہ ہے کہ فکر و خیال میں انقلاب پیدا کرنے کے لیے جن حوادث کا
عمل دخل رہا ہے اس میں شعرا کے کردار سے اعراض نہیں کیا جا سکتا۔ ہر
انقلابی فکر کی ہم واری میں اشعار کی تب و تاب پنہاں رہی ہے۔ لیکن گزری کئی
صدیوں کے اُردو سرمائے کا مطالعہ کر لیجیے، خیالات کی بزمیں تلاش کر لیجیے،
دواوین کا مطالعہ کر لیجیے، جیسی جدت، جوش و جذبات کی دھمک، فکر و خیال کی
بلندی، نگہ کی جولانی، انداز کی تابانی، رمز حیات کی صدق بیانی، رازِ دروں
کی جلوہ سامانی اور کسکِ دل کی تخم ریزی اقبال کے اثاثہ شعری میں نظر آئے
گی اس کی مثال نہیں۔
اقبال نے اپنی شعری دھاک جمانے کے لیے سخن آرائی نہیں کی۔ اس سے ان کا مطمح
نظر قوم کی خفتہ رگوں میں زندگی کی حرارت پیدا کرنا تھا، غفلت کے خواب سے
قوم کو بیدار کرنا تھا، عزائم کو جواں کرنا تھا، خیالات کو مجتمع کرنا تھا،
اس لیے ان کی شاعری مقصدی تھی، اس دور میں ویسے بھی انگریز کی غلامی نے
جسموں کو بے جان کر کے رکھ دیا تھا، حیات تھی لیکن بجھی بجھی سی، زندگی
موجود تھی لیکن روح سے عاری تھی،اپنے معنوی شباب سے عاری تھی، اقبال نے
روحانیت کو زندہ کیا، یہی اگر زندہ ہو جائے تو خفتہ قوم کا نصیبہ جاگ جائے:
جاگے کوئل کی اذاں سے طائرانِ نغمہ سنج
ہے ترنم ریز قانونِ سحر کا تار تار
ہے ذوقِ تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل! تو نرا صاحبِ ادراک نہیں ہے
اقبال نے جو فکر پیش کی وہ کوئی نئی نہیں، ہاں! افکار کی بیداری کے لیے
پیغام میں ”نوائے امروز“ ہے، انداز نیا ہے، اور ”شرابِ کہن در جامِ نو“ کا
لطف بجا طور پر محسوس ہوتا ہے۔ عزم محکم کے ساتھ اقبال نے زمانہ سازی کا
درس دیا ہے، ان کی فکر کا خمیر ”عشق“ سے اٹھتا ہے، وہ ”عقل“ کو ناقص قرار
دیتے ہیں، اقبال عقل و خرد سے خوب آگاہ تھے، لیکن انھیں فلسفہ عشق پتا تھا،
عقل و عشق کی معرکہ آرائی میں کس کی فتح ہوتی ہے اس کا مشاہدہ اقبال کو تھا
اسی لیے تاریخ کے چلمن سے پردہ ہٹا کر اقبال نے گردشِ ایام کا وہ نظارہ
دیرینہ دکھلایا جس سے عشق کا فلسفہ کھل کر سامنے آیا۔ عقل کی عیاری بھی
سامنے آئی، عقل کے پرستاروں کی عشوہ طرازی بھی ہویدا ہوئی،عشق کی سرفرازی
بھی سامنے آئی، انھوں نے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کیا تھا، مادی دنیا میں زندگی
کے نشیب و فراز کا مشاہدہ کیا تھا،ان کی نگہِ بلند نے پست کو بالا کرنے کے
ذرایع تلاش کر لیے تھے اور اس گراں بہا دولت سے قوم کو فوری واقف بھی کروا
دیا، تلقین کا یہ انداز اقبال ہی کا حصہ ہے اور ان کی فکر کا لازمہ:
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد ﷺ سے اُجالا کر دے
وفا شعاری اور وفا داری صاحبِ ایمان کی پہچان ہے لیکن اس میں بھی کھرا وہی
ہوتا ہے جو منزلِ عشق میں اپنا محبوب اس ذات کو بناتا ہے جن سے کائنات میں
رنگ ہے، جن سے بہار جناں ہے، جن سے انبیاے کرام کی بزم آراستہ ہے، یعنی
رحمت کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے وفاداری ایمان کی علامت ہے،جن کا
وفا شعار ہر ڈگر پر کامراں ہوتا ہے، ہر منزلِ سخت آساں ہو جاتی ہے، منشا و
مراد کا حصول آسان ہو جاتا ہے،حتیٰ کہ نوشتہ تقدیر اس کی مُراد کے مطابق
بدلتا ہے، گویا قسمت کا ستارا اوج پر ہوتا ہے، اقبال کی شاعری کا دورِ زریں
اسی کی ترجمانی کرتا ہے کہ:
کی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ایک صاحب بصیرت نے سچ ہی کہا تھا کہ : اقبال نے قرآن کی طرف دلوں کو پھیرا
اور رضا بریلوی نے صاحب قرآن کی طرف، دونوں عشق کے داعی تھے۔ دونوں محبتوں
کے نقیب تھے، دونوں ترجمان قرآن تھے اور دونوں مدحت شاہ (صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم) میں سرشار تھے، بارگاہِ ناز کے وفا دار تھے، دونوں نے دلوں کے
طاق پر محبت و عشق کی وہ شمع فروزاں کی جس کی روشنی آج بھی اسلامیان بر
صغیر کو والیِ طیبہ کی بارگاہ تک پہنچا رہی ہے۔ مکین گنبد خضرا کا عاشق بنا
رہی ہے:ع
میں نے تو کیا پردہ اسرار کو بھی چاک
دانشِ فرنگ کے جلوے نگہِ اقبال کو خیرہ نہ کر سکے حالاں کہ اقبال نے تمدنِ
مغرب کا قریب سے تجزیہ کیا، مادیت کی چمک دمک ان کی نگاہوں کا غازہ نہ بن
سکی، انھوں نے مادی انقلاب کو ملاحظہ کیا، اس میں انھیں سُراب نظر آیا،
دھوکا دکھائی دیا، فریب نظر کہہ کر اقبال نے مادی چکا چوند کی حقیقت کھول
دی، مادی انقلاب جس دوش سے اٹھا ناکامی اس کا مقدر بنی، بلا شبہہ مادی
بنیادوں پر نہ تو نظام کائنات کو بدلا جا سکتا ہے نہ ہی مذہب کی ماہیت کو
اپنے فہم کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے،انسان نے ترقی کی لیکن مادیت کی گرداب
میں ایسا الجھا کہ اپنی حقیقت فراموش کر بیٹھا، اقبال نے روح کی اصلاح کی،
خودی کا احساس دلایا، انسانی مقام سے آشنائی عطا کی، اس ایک شعر میں فلسفہ
کا جہان آباد ہے جس میں حیاتِ انسانی کی واقعیت بھر پور انداز میں نہاں ہے:
حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا
تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے، نہیں ہے
مقام انسانیت کیا ہے؟ یہ ایک معمہ ہے جسے اللہ کے مخصوص بندے ہی سمجھ سکتے
ہیں، اقبال کے الفاظ میں ”بندہ مومن“ ہی انسانی رمز سے خوب آشنا ہوتے ہیں
اور بندہ ¿ مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے دھارے کو اپنے عزم محکم
سے موڑ لیتاہے، اقبال ایسے مقام پر ایک صوفی کی شکل میں نظر آتے ہیں جس کی
ایک ضرب ہو سے بگڑی تقدیر سنورتی اور بات بنتی دکھائی دیتی ہے، جس کے نالہ
¿ نیم شبی اور آہِ صبح گاہی سے شرق و غرب فیض یاب ہوتے ہیں، لیکن! ایسے
مقام پر اقبال جہدِ مسلسل اور سعیِ پیہم کو فراموش نہیں کرتے بلکہ جفا کوشی
اور قوتِ عمل پر زور دیتے ہیں، قوت کے درست استعمال کی حقیقت سے پردہ
اٹھاتے ہیں :
کوہ شگاف تیری ضرب، تجھ سے کشاد شرق و غرب
تیغ ھلال کی طرح عیش نیام سے گزر
لادیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
الغرض اقبال کی شاعری میں حرکت و عمل کا پیام شوق ہے۔ تطہیر قلب و نگاہ کا
ساماں ہے، خودی سے وہ خدا کی طرف رہ نمائی کرتے ہیں، وہ انسانیت سازی کا
درس دیتے ہیں، ان کا ادب تصوف و پاکیزگیِ اخلاق سے سنورتا ہے، بلندیِ کردار
سے ان کا فکری کینوس پھیلتا ہے اورقوم کی تعمیر و ترقی کے لیے ان کا لفظ
لفظ ”اذانِ سحر“ کہے جانے کا مستحق ہے۔ اقبال کی بانگ درا نے غلام ہندوستان
میں انقلاب کی وہ فضا قائم کی جس سے حوصلے جواں اور عزائم مستحکم ہوئے،
انسانیت کی یہ معراج ہے کہ وہ اپنے مقامِ حقیقی کی طرف مراجعت کرے اور یہی
فکرِ اقبال کا نچوڑ ہے جسے ہم اقبال کا فلسفہ حیات یا افکارِ اقبال کا ”عطر
مجموعہ“ کہہ سکتے ہیں:
بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان |