پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان
کا سب سے بڑاصوبہ ہے اوریہاں پرہونے والی سیاسی سرگرمیاں پورے ملک پر
انتہائی گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں اسی لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جوکہ
پاکستان کی دوبڑی پارٹیاں ہیں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ پنجاب میں حکومت
بنائیں لیکن پنجاب کی حکومت ہمیشہ مسلم لیگ کے پاس ہی رہی ہے مگراس بار
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدرپاکستان آصف علی زرداری پنجاب کو فتح
کرنے کا بھرپور ارادہ رکھتے ہیں اوراسی ارادے کی تکمیل کیلئے جب انہوں نے
پنجاب کی سیاست میں انتہائی نمایاں نام میاں منظوراحمدوٹو کو پیپلزپارٹی
پنجاب کا صدر بناتے ہوئے انہیں مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر شریف برادران کا
مقابلہ کرنے کاٹاسک دیا تو اب ایسا معلوم ہورہا ہے کہ اس بار پنجاب میں
انتخابی نتائج شریف برادران کے وہم و گمان سے بھی زیادہ خوفناک ہوسکتے ہیں
اس کی سب سے بڑی وجہ تو خود شہبازشریف کی ناکام پالیسیاں اور وہ منصوبے ہیں
جن سے عوام کو ریلیف کم اور خواری زیادہ ملی ہے یہ منصوبے سستی روٹی کے ہوں
یا سستے رمضان بازار کے ،یہ منصوبے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کے ہوں یا دانش سکول
اور طلباءمیںلیپ ٹاپ تقسیم کرنے کے ۔ان سب منصوبوں پر عوام کا بھاری سرمایہ
ضائع کیا گیا لیکن وہ غریب عوام جس کی جیبوں سے یہ پیسہ نکالا گیاوہ عوام
آج بھی روٹی،رہائش اور تعلیم کو ترس رہے ہیں الغرض میاں شہبازشریف صاحب جو
کبھی تو خود جذباتی انداز میں تقاریر کرتے ہوئے مائیک توڑتے نظرآتے ہیں تو
کبھی اُن کے غنڈے غریب بیکری ملازمین پر تشدد کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں یہی
وجہ ہے کہ صوبہ پنجاب کے عوام ان سے تنگ آکرسابق وزیراعلیٰ پنجاب
پرویزالہٰی کے دور کو یادکررہے ہیں جنہوں نے اپنے دور میں ریسکیو
1122،پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پوسٹس،ٹریفک وارڈن سسٹم جیسے کارآمد منصوبے
متعارف کروائے جن سے عوام آج بھی مستفید ہورہے ہیں اس کے علاوہ چوہدری صاحب
نے صحت و تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی اور کسانوں کو مراعات دیں ،ہرسال دس
لاکھ ملازمتیں دی گئیںاور جب چوہدری پرویزالٰہی صاحب نے حکومت چھوڑی تو
صوبہ 100ارب کے سرپلس میں تھا لیکن آج وہی صوبہ تباہی و بربادی کی تصویر
پیش کررہاہے 500ارب کا مقروض ہوچکاہے اوریہی وجہ ہے کہ عوام نے آئندہ
انتخابات میں مسلم لیگ ن کو بھرپور سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیاہے۔چوہدری
پرویزالٰہی ایک تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں جو صوبے کے عوام میں
اپنے ریکارڈ ترقیاتی کاموں کی بدولت ایک خاص مقام اوراثرورسوخ رکھتے ہیں اس
کے ساتھ میاں منظور احمدوٹو صاحب کی معاونت یقیناََ مسلم لیگ ن اور دیگر
پارٹیوں کیلئے پنجاب میں خاصی مشکلات کھڑی کرے گی ۔ منظوروٹو صاحب جو کہ
جوڑ توڑ کی سیاست کے ماہر مانے جاتے ہیں نے جس طرح پیپلزپارٹی پنجاب کاصدر
بنتے ہی پنجاب میں ورکنگ شروع کردی ہے اور جس طرح انہوں نے پاکستان مسلم
لیگ ق کے ساتھ مل کر پنجاب میں حکومت بنانے کے عزم کااظہار کیاہے وہ یقیناََ
منطوروٹو جیسے گھاگ سیاستدان کیلئے ناممکن بھی نہیں کیوں کہ منظور وٹو بھی
چوہدری پرویز الٰہی کی طرح سیاست کا ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں اور
85ئ88ءاور90ءمیں سپیکر شپ کے علاوہ وزارت اعلیٰ جیسے اہم منصب کی ذمہ
داریاں بھی نبھا چکے ہیں امید ہے کہ یہ دونوں عظیم سیاستدان آئندہ ہونیوالے
انتخابات میں اہم ترین کردارادا کریں گے ۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات جس
کی طرف کئی دوست خصوصاََ شیخ رشید صاحب اکثر اشارہ کرتے رہتے ہیں کہ یہ
الیکشن خونی ہوں گے اس صورتحال سے بچنے کیلئے ضرری ہے کہ چیف الیکشن کمشنر
جناب فخرالدین جی ابراہیم اسلحے کی نمائش پر سخت پابندی عائد کروائیں اس
کیلئے وہ تمام امیدواروں کو اس کا پابند بنائیں کہ وہ اپنے کارکنوں کو
اسلحے کی کھلے عام نمائش سے روکیں اور اس حکم عدولی کی صورت میں اس امیدوار
کو فوراََ نااہل قراردے دیاجائے اس کے علاوہ الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے یہ
بھی ضروری ہے کہ پولنگ بوتھ پر ایماندار اورغیرجانبدار آفیسرز تعینات کئے
جائیں جو نہ صرف یہ کہ بااختیار ہوں بلکہ انہیں مکمل سیکیورٹی فراہم کی
جائے تاکہ وہ کسی بھی قسم کی دھاندلی کا نوٹس لے سکیںاوراسے روک بھی سکیں ۔اس
کے ساتھ الیکشن کمشن کو ایسے ہنگامی اقدامات کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے جن
کی مدد سے حکومتی مشینری اور بااثر شخصیات کو الیکشن پر اثرانداز ہونے سے
ہرممکن حدتک روکاجاسکے تاکہ حقیقی عوامی نمائندے منتخب ہوسکیں۔ |