خان صاحب آپ کو کیا ہو گیا

اگر انسان مضبوط اعصاب کا مالک ہو اور کامیاب حکمت عملی اورنیک نیتی سے کسی کام کو آگے بڑھائے تو قدرت کبھی اس کی محنت کو ضائع نہیں کرتی ۔اس صورت میں قدرت کے فیصلے ایک مسلمان اور ایک کافر کے لیے ایک ہوتے ہیں لیکن اگر انسان ایک وژن لے کر چلے جب اس وژن میں کامیابی کے آثار دکھائی دیں تو اس وژن کو بھول کے موجودہ زمانے کی ڈگر پر چلنا شروع کردے جن ہاتھوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دے۔ جن ہاتھوں نے اسے بلندی پر ہہنچنے کے لئے اپنی طاقت اور قوت فراہم کی ان ہاتھوں کی لکیروں کو مٹانا شروع کر دے۔تو اس صورت میں انسان تو کیا قدرت بھی اپنا ہاتھ کھینچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کیونکہ معاشرہ ظلم پر تو قائم رہ سکتا ہے نا انصافی پر نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ھی ہوایہ کہنا غلط ہے کہ عمران خان راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے بلکہ یہ نتیجہ تھاعمران خان کی اور خان صاحب کے ان ساتھیوں کی انتھک محنت کا جو پچھلے پندرہ سال سے خان صاحب کے ساتھ ایک وژن اور ایک نیا پاکستان بنانے کا خواب اپنے دلوں میں سجائے گلی گلی کوچے کوچے یہ نعرہ بلند کرتے نظر آتے “کون بچائے گا پاکستان ‘عمران خان ‘عمران خان“ تیس دسمبر ٢٠١١ تک تو سب ٹھیک تھا۔ پھر وہ وقت بھی آ پہنچا جب مینار پاکستان کے سائے تلے اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا موقع قدرت نے عمران خان کے ہاتھ دے دیا ۔نوجوانوں کو یہ یقین ہو گیا کہ اب حالات بدل کر رہیں گے۔ اک نئے پاکستان کا خواب ضرور پورا ہو کر رہے گا۔پچھلے تمام جلسوں کے ریکارڈ ایک مذاق معلوم ہونے لگے اور تاریخ کے اندر ایک نیا باب شروع ہو گیا۔پندرہ سالوں سے کام کرنے والے کار کنوں کے حوصلے اور بھی بلند ہو گیے۔کارکنوں کو کیا معلوم تھا یہ خوشیان غموں میں اور حوصلے مایوسیوں میں بدلتے وقت نہیں لگتا۔۔۔۔۔۔۔

موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھائی لوگوں نے اپنا بوریا بستر ایک ڈیرے سے اٹھایا اور خان صاحب کے گرد جمع ہونا شروع ہو گیے ۔خیر ایک دو کی بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ مگر جب سارہ شہر ہی گنجوں کا اکھٹا ہو جائے تو تاریخ دان بھی کسی معجزے کے منتطر ہو جاتے ہیں ۔آہستہ آہستہ بیچارے محنت کے مارے کارکنوں میں چہ مہ گوئیاں شروع ہوئی اور وہ صحافی جو جنہوں نے اس پر آواز بلند کرنا چاہی انھیں گالیوں اور دھمکیوں سے نوازا گیا اور جو تحریک انصاف سے گیا اسے بے ہودہ اور فحش قسم کے القابات سے نوازا گیا بات یہاں تک پہنچ گئی کہ عمران خان کو خود کہنا پڑا کی تحریک انصاف میں بڑھتی ہوئی تعداد کنٹرول سے باہر ہو گئی جس وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔عنقریب اس پر قابو پالیں گے۔

جو وجوہات سامنے آئیں ان میں کسی کی کوئی سازش نظر نہیں آتی بلکہ عمران خان صاحب کی وہ غلطیاں ہیں جو انھیں ایک نوجوان نسل کا نمائندہ اور ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے نہیں کرنی چاہیں تھیں،کوئی ایک وجہ ہو تو انسان بات کرتا ہے کہیں وہ مشرف باقیات کے سہارے الیکشن لڑنے کا عندیہ دیتے ہیں تو کہیں وہ لال مسجد کے قاتلوں کو اپننی گود میں بٹھا کر عافیت محسوس کرتے ہیں۔ وہی پرانے چہرے وہی کرپٹ سیاستدان کیا اسی لئے نوجوانوں نے عمران خان کا ساتھ دیا تھا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تیس اکتوبر کے جلسے کے بعد مزید محتاط ہونے کو ضرورت تھی کی کہیں کوئی لٹیرا یا کوئی چور تحریک انصاف میں نہ گھس آئے لیکن خان صاحب نے تو اپنی سیاست کا دروازہ تک توڑ دیا تاکہ کسی کو آنے میں تکلیف نہ ہو اور یوں نوجوانوں کا خواب الیکشن سے پہلے ہی ریزہ ریزہ ہو گیا اور دلیل یہ تراشی جاتی ہے کہ فرشتے کہاں سے لاوں جناب مانا کی فرشتے تو موجود نہیں لیکن کیا انسان بھی اس پاکستان مپں ناپید ہو گئے مجھے تو یہ الفاط گالی بن کر برس رہے ہیں۔

یہ تبصرہ میرا نہیں بلکہ پاکستان کے ان دکھی نوجوانوں کا ہے جو پچھلے پندرہ سالوں سے خاموشی سے “کون بچائے گا پاکستان ‘عمران خان‘عمران خان“ کا نعرہ بلند کر رہے تھے ۔ابھی میں یہ مضمون مکمل کر ہی رہا تھا کی میر اایک جیالا دوست آگیا اور میرےیہ الفاظ پڑھ کر آپے سے باہر ہو گیا اور کہا کی “ہاں ہاں اب تو تم یہی لکھو گے کہ یہ تبصرہ میرا نہیں کیونکہ تجھے پتہ ہے نا کہ دوسرے کالم نگاروں کی طرح اس کالم پر بھی کس قسم کے تبصرے آنے والے ہیں“میں نے سنی ان سنی کر دی اور اپنے کام میں لگ گیا اور سوچنے لگا کی اس قسم کے جنونی نوجوانوں کے لیے میں کیا کر سکتا ہوں پھر اچانک خیال آیا کہ میں تو دعا ہی کر سکتا ہوں سو وہ میں نے کر دی۔

آئندہ کالم میں اس کا حل تجو یز کرنے کی کوشش کروں گا۔
waseem akhtar
About the Author: waseem akhtar Read More Articles by waseem akhtar: 5 Articles with 6114 views i am writter and .. View More