حدیث مبارک کی روسے ہر مسلما ن
کے ایمان کی شرط اور بنیا د حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے نعت پا ک
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فروغ کا بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہے
۔نعت پا ک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا منظوم ذکر ہے
۔صنف نعت خود حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاہکار ربوبیت رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبا رک خواہش پر وجود میں آئی ۔اسلامی شاعر ی
کی ابتدا حمد پا ک اور نعت پاک سے ہی ہوئی ہے ۔کتنے خوش قسمت ہیں وہ ایمان
والے اور ایما ن والیا ں جنہیں نعت لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔یہ شاعری
ایمانی ،نورانی اور ایقانی خصوصیا ت کی مظہر ہے ۔جس کو یہ تو فیق عطاہوتی
ہے وہ خوش نصیب ہے کیونکہ یہ ازحد کرم والے پرور دگار کا کرم ہے ۔بے شما ر
سعادت مندوں اور عقید ت مندوں میں ایک نام حضرت علامہ صائم چشتی ؒکا بھی ہے
جن کا مقصد حیا ت نعت رسول صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ تھا ۔
حضرت علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی نعتو ں میں کامل عقیدہ کی بنا پر
ایک انمو ل رفعت پائی جاتی ہے ۔انہوں نے سراپا ء عشق ومستی میں جذب ہو کر ،انکساری
اور ادب میں رہ کر ، تدبرواحتیا ط کی تد بیر لے کر ،لا یعنی باتوں سے با
لکل مبر ا ہو کر ،حسن بیا ن و زباں کا قرینہ لئے ،دلائل وبراہین کانظم و
ضبط بر قرار رکھ کر ،دانش نورانی کی دولت لئے ،نور حقیقت و معرفت سے سرفراز
ہوکر ،احترام امام الا نبیا ء کی پاسبانی کرتے ہوئے ،تاجدار مرسلیں صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در اقدس کی چاکری کرتے ہو ئے ،ثناء مصطفے صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی سرور آگیں خو شبو کے زیر اثر ،حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی تمنا اور تڑپ رکھتے ہوئے ، جان کائنات کی شفاعت کے یقین
فروزاں کی تابندگی سے ،ازن ثنائے خاتم الا نبیا ء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا اعزاز لئے ،ہر دم خیا ل گبند خضراء سے سر شار ہو کر ،درویش منش متابعت
کی مثا ل بن کر ،قلب سلیم میں عزم صمیم کی ثابت قدمی کی سراپا علامت بنکر ،اعلی
وارفع الفاظ وخیالات کی بیاض لئے ،صا حب نسبت کی بلند نگاہ کے ذریعے اور
الفت قا ئد کائنا ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے مثا ل خزینہ قلب و ذہن
میں رکھ کر ساقی ء کوثر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گلہائے عقیدت پیش کر
نے کا شرف حا صل کیا ۔
حضرت علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے جو بھی نعت لکھی عوام نے اسے بے حد
پسند کیا ۔نعت گوئی سے دیار عشق میں شاندار مقام پیداکیا ۔ علامہ صائم چشتی
ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ، علم وفن میں اپنی مثا ل آپ تھے ۔مترنم لہجے
کے مالک تھے ۔ اردو اور پنجابی کی شعری ترکیب استعما ل کرتے تھے۔تجسیم کی
تکنیک کا اطلاق بھی کیا۔ مثلا ’’رنگین اداواں مسکراپیاں ‘‘۔
تیرے منگتے نے سب چنگے تے ماڑے یارسول اللہ ؐ
خدارامن لوو میرے وی ہا ڑے یا رسول اللہ
امت کے غمخوار آقا سید المر سلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے علامہ
صا ئم چشتی ؒکو صدق و صفاعطاہوئی جس کی بر کت سے وہ ثناء خوان مصطفے صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم بن کر خوش قسمت بن گئے ہر کسی کو یہ درجہ اور بزرگی
عطانہیں ہوتی ۔ انہیںوصف ثنا خو انی ملی تو ان کی قسمت سنور گئی ۔وہ ہمہ
وقت اسی پیا دی سرگرمی میں مصروف اور مستغرق رہتے تھے۔ان کی لکھی ہوئی نعتو
ں نے بہت زیا دہ شہر ت پائی ۔انہیں بہت زیا دہ عزت ملی ۔یہ اعجازہے عشق
مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
حسن محبوب نے عالم کو سجا رکھا ہے
رشتہ مخلوق کا خالق سے ملا رکھا ہے
جن کے ٹکڑوں پہ جہاں پلتا ہے سارا صائم
ان کی سرکار میں دامن کو بچھا رکھا ہے
قمر الزماں |