کرشن چندر کی شہرۂ آفاق ناول
ایک گدھے کی سرگزشت کا جب پنجابی میں ترجمہ ہوا تو اس کا نام گدھے کی واپسی
رکھا گیا اور یہی عنوان براک اوبامہ کی صدارتی انتخاب میں کامیابی پر پوری
طرح صادق آتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کا
انتخابی نشان گدھا ہے ۔ امریکہ میں گدھے کو وفادار اور محنت کش جانور سمجھا
جاتا ہے اور ریپبلکن پارٹی کے نشان ہاتھی کو خوشحال اورمنہ زوروحشی حالانکہ
دنیا بھر کے لوگ امریکی گدھے کی منہ زوری سے بھی پریشان ہیں ۔ براک اوبامہ
اپنی پہلی میقات میں داخلی اور خارجی دونوںمحاذپر بری طرح ناکام رہے ۔
تبدیلی کا جو حسین خواب انہوں نے عوام کو دکھلایا تھا وہ ایک بھیانک حقیقت
میں تبدیل میں ہو گیا جس کا اعتراف خود انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران
کیا اور کہا کہ تبدیلی کیلئے چار سال کی مدت ناکافی ہے اس لئے انہیں ایک
مرتبہ اور موقع دیا جائے ۔ وہ تو خیر امریکی دستور انہیں دو سے زیادہ مرتبہ
انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں دیتا ورنہ چالیس سال بھی وہ یہی کہتے کہ تبدیلی
کیلئے یہ مدت ناکافی ہے انہیں ایک اور موقع درکار ہے اس لئے کہ آج تک
تبدیلی لانے کے بجائے خود تبدیل ہو جانے والے بہروپئے دنیا میں کوئی انقلاب
برپا نہیں کیا ۔
وڈی ایلن نے انتخاب سے قبل کے امریکی سماج کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا تھا
کہ ‘‘ہم آج ایک دوراہے پر کھڑے ہیں ۔ایک راستہ ناامیدی اور شدید مایوسی کی
طرف جاتا ہے تو دوسرا کامل معدومیت کی جانب رہنمائی کرتا ہے ۔ امید ہے کہ
ہمیں درست فیصلہ کرنے کی دانائی حاصل ہوگی ۔ امریکی عوام ویسے بھی مایوسی
کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں اس لئے انہوں مکمل طور پر فنا
ہوجانے پر اپنی ناامیدی کی کیفیت کو ترجیح دیتے ہوئے اسے جاری رکھنے کا
فیصلہ کیا۔ ان بیچاروں کے سامنے گہری کھائی یا آ گ کا الاؤ کے سوا کوئی
اور متبادل ہی نہیں تھا سو انہوں نے آگ کے مقابلے کھائی کو پسند کیا ۔معروف
مفکر لن ڈن نےاس صورتحال کو یوں بیان کیا کہ امریکی جمہوریت ایک طعام گاہ
کی مانند ہے جس کے مینو میں صرف دو پکوان ہوتے ہیں ۔ اس سے کوئی فرق نہیں
پڑتا کہ آپ کیا منگائیں گدھا یا ہاتھی ۔آپ کے سامنے ایک خون آلود زہریلا
کھانا پروس دیا جاتا ہے ۔ اگر آپ اس سے مطمئن نہ ہوں تو آپ کے پاس مزید
چار سال انتظار کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا ۔ویسے اس انتظار
بسیار کے بعد بھی کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا ہےپھر ایک بار وہی زہریلی
بدبودار غذا عوام کا مقدر بنتی ہے ۔
سرمایہ دارانہ نظام کا نعرہ یہ ہے کہ اس میں کسی کو مفت میں کھانا نہیں
ملتا ۔ ہر شخص کو اپنی غذا کی قیمت چکانی ہوتی ہے اس سے قطع نظر کہ وہ غذا
اس کیلئے مفید ہے یا مضر ۔اس انتخاب سے قبل بھی براک اوبامہ امریکہ کے صدر
تھے اور اس کے بعد بھی وہی ہیں ۔ اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن اپنی
تاریخ کے شدید ترین معاشی بحران سے دوچار امریکی عوام نے اس جمہوری تماشے
پر ۱۳ ہزار کروڈ روپئے پھونک دئیے اور اس کی مدد سے عوام نے پھر ایکبار
جنگی مجرمین اور بنکوں کے لٹیروں کو پناہ دینے والے سیاستدانوں کواپنے اوپر
مسلط کرلیا ۔ امریکی تعلیم گاہوں میں فی الحال خوب جم کر فیس لی جاتی ہے ۔
بنک اس کیلئے طلباء کو سود پر قرض فراہم کرتے ہیں اورپچاس فیصد سے کے قریب
مقروض طلباءیونیورسٹی سے فارغ ہوکر ملازمت کیلئے در بدر ٹھوکریں کھاتے
پھرتے ہیں ۔ اگر انتکابی مہم پر خرچ ہونے والی کثیر رقم تعلیم یا عوامی
فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی اوراس سےقرض کے دباؤ کا شکارنوجوان نسل کا
بوجھ کو ہلکا کردیا جاتا تو شاید وہ اس قیمتی سرمائے کا بہتر استعمال ہوتا
۔
امریکہ کے بیشتر مفکرین بڑے تجارتی اداروں کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو دی
جانے والی اعانت کو بلاواسطہ رشوت گردانتے ہیں۔ اس دنیا میں کون ایسا
سرمایہ دار ہو سکتا ہے جو بلا کسی مفاد کے سیاستدانوں کو ہزاروں کروڈ روپئے
خیرات کرے اور انتخاب کے بعد اسے وصول نہ کرے ؟ کوئی سیاسی رہنما یا جماعت
اگراپنے سرمایہ کاروں کو مایوس کردےتواسے انتخابی پرچار کیلئے دوبارہ رقم
حاصل ہی نہیں ہو گی نیز اگر کسی جماعت کے پاس ذرائع ابلاغ کا پیٹ بھرنے
کیلئے سرمایہ نہ ہو تو وہ انتخاب میں کا میابی کا خواب بھی دیکھ سکتی۔ بڑے
سرمایہ دار جس طرح سٹہ بازار(شیئر مارکٹ) میں روپیہ لگاتے ہیں اسی طرح
سیاسی بساط پر بھی سکے ّ اچھالتے ہیں ۔ دوسرے کاروبار میں ان کو کبھی فائدہ
تو کبھی کبھی نقصان بھی ہوتا ہے لیکن جمہوری انتخاب ایک ایسی منڈی ہے جس
میں سرمایہ کار اور سیاستدان ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں اور عوام ہمیشہ ہی
خسارے کا شکار ہوتے ہیں ۔ یہ سرمایہ دار جن امیدواروں پر روپیہ خرچ نہیں
کرتے ان کا کیا حشر ہوتا ہے وہ بھی دنیا کے سامنے ہے ۔ اس مرتبہ بھی
لبریٹیرین پارٹی اور گرین پارٹی کے امیدواروں کو بالترتیب ایک فیصد اور ایک
چوتھائی فیصد سے کم ووٹ ملے ۔ اس لئے کہ ان کے پاس ذرائع ابلاغ پر خرچ کرنے
کیلئے سرمایہ نہیں تھا اور اب وہی ذرائع ابلاغ جنہوں نے ان کے افکاروخیالات
کی اشاعت نہیں کی یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ امریکی عوام نے انہیں مسترد کردیا
۔
براک اوبامہ کامیاب ضرور ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجودامریکی پارلیمان (
کانگریس ) میں ان کی مخالف جماعت ریپبلکن کو اکثریت حاصل ہے اس لئے توقع کی
جارہی ہے کہ انتخاب سے قبل ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آنے والے اوبامہ
اور رومنی پھر ایک بار پردے کے پیچھے مل بیٹھیں گے اور ان کے درمیان اپنے
سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر مصالحت ہو جائیگی ۔اس سودے بازی کے
نتیجے میں پھر ایک بار سرکاری اخراجات میں کمی کے نام پر عوامی فلاح بہبود
مثلاًطبی امداد اور سماجی تحفظ وغیرہ میں کٹوتی کر دی جائے گی۔ساتھ ہی بڑے
تجارتی اداروں کو ٹیکس میں سہولت دے کرغریبوں کے منہ کا نوالا چھین کر
امیروں کا پیٹ بھرا جائیگا ۔ یہ سودے بازی دونوں جماعتوں کی یکساں ضرورت ہے
اس لئے کہ دونوں ہی کو سرمایہ داروں کا احسان چکانا ہے ۔
امریکہ کے اس انتخاب نے عوام کودوقطبین پر جمع کردیا ۔ایک طرف رومنی کے
ساتھ خوشحال ، گورے مرد حضرات تھے تو دوسری جانب اوبامہ کے ہمراہ بدحال ،کالے
اور خواتین تھیں ۔ مٹ رومنی خود بہت امیر کبیرسرمایہ دار ہیں اور انہیں
شیلڈن ایڈلسن نامی ایک بڑے سرمایہ دار خاندان کی کھلی حمایت حاصل تھی ۔ مٹ
رومنی نے اپنی انتخابی مہمکے دوران ٹیکس میں کٹوتی کا جو وعدہ کیا تھا اس
سے ایڈلسن خاندان کو ۹ بلین ڈالر کا فائدہ ہو سکتا تھا اور خود مٹ رومنی کا
نہ جانے کتنا؟ ایڈلسن ایک یہودی سرمایہ دار ہے جسے رومنی کی حمایت کرنے کا
مشورہ اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے دیا تھا ۔ نتن یاہو کی
رومنی کے ساتھ ۴۶ سال پرانی ملاقات ہے اور وہ بزعمِ خود اپنے آپ کو امریکی
سیاست کا بہت بڑا ماہر سمجھتا ہے ۔ نتن یاہو نے یہاں تک کہنے سے گریز نہیں
کیا کہ رومنی کو ووٹ دینا اسرائیل کے حق میں ووٹ دینے کے مترادف ہے ۔
مسلمانوں کے اندر بہت سارے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں بالعموم
اور امریکہ میں بالخصوص جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ صرف اور صرف یہودیوں کے
اشارے پر ہوتا ہے لیکن اس انتخاب نے اس مفروضہ کو غلط ثابت کردیا ۔ نتن
یاہو کا یہ دعویٰ کہ اسرائیل ایک قومی ریاست ہے ۔ ساری دنیا کے یہودی اس کے
شہری ہیں اس لئے وہ ساری دنیا کے یہودیوں کا نمائندہ ہے غلط ثابت ہو گیا
اور فلوریڈا جیسی ریاست کے یہودیوں نے اس کے فتویٰ کو ماننے سے انکار کردیا
اور یاہو کو یہ پیغام دیا کہ وہ اسرائیلی نہیں بلکہ امریکی ہیں ۔ جنوری میں
خود نتن یاہو کو انتخاب لڑنا ہے اور اس پر اوبامہ و امریکی انتظامیہ سے
تعلقات بگاڑنے کا الزام لگایاجا رہا ہے ۔ یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ
اسرائیل کا ناپاک وجود یوروپ اور امریکی کا مرہونِ منت ہے ۔جس دن وہ سہارہ
ختم ہوگا یہ ناپاک شجر اپنے آپ سوکھ جائیگا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ا وبامہ
اسرائیل کے انتخاب میں کیا رویہ اختیار کرتا ہے ۔ اس بات کا امکان بہت کم
ہے کہ اوبامہ انتقام کی روش اختیار کرے اس لئے کہ کیا پدیّ اور کیا پدیّ کا
شوربہ؟ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اوبامہ کی موجودگی میں نتن یاہو کی قصر
ابیض کے اندر پہلے جیسی آو بھگت اب کبھی نہیں ہوگی ۔
اسرائیلی سیاستداں آئندہ انتخاب میں ایران کے جوہری اسلحہ کا خوف دلا کر
رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ مٹ رومنی نے اس
بابت اسرائیل پشت پناہی کا وعدہ تو کیا تھا لیکن انتخاب سے قبل عہدو پیمان
کچھ اور ہوتے ہیں اور بعد میں فیصلے مختلف ہوتے ہیں ۔ فی الحال امریکہ کے
معاشی مسائل اور افغانستان میں نظر آنے والی شکست اسے ایران کے ساتھ محاذ
آرائی کی اجازت نہیں دیتی ۔ اوبامہ تو درکنار رومنی کیلئے بھی اس حماقت کی
جرأت سے مشکل تھی لیکن اوبامہ کے برسرِ اقتدار آجانے کے سے ایران پر حملے
کے امکانات ناپید ہوگئے ہیں ۔ اگر اسرائیلی حکومت اپنی انتخابی ضرورت کے
پیش نظر یہ اقدام کر گزرتی ہے تو ایران کے جوابی حملہ پر امریکہ کی حمایت
زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھے گی ۔ ویسے امریکہ اور اسرائیل کی قومی
تشکیل میں زبردست مشابہت پائی جاتی ہے ۔ دونوں ممالک مہاجرین کے غاصبانہ
قبضہ سے وجود میں آئے ہیں ۔ دونوں مقامات پر مہاجرین نے سفاکی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے مقامی باشندوں پر بے تحاشہ ظلم و ستم توڑا ہے ۔ دونوں کے
اندربلاوجہ کا احساسِ برتری پایا جاتاہے۔ اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنےاور
اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھاکر بیان کرنے کی خصلت یہ دونوں اپنے اندر رکھتے
ہیں ۔
امریکہ کے معاشی بحران اور اس کے عالمی خلفشار کے پیچھے امریکی عوام کا
اخلاقی انحطاط کارفرما ہے ۔ انتخابی عمل تو ایک چکی کی طرح ہے کہ اس میں
گیہوں ڈالو تو آٹا باہر آئیگا اور چنا ڈالو تو بیسن ۔امریکی رائے دہندگان
جب اس چکی میں پستے ہیں اس میں سے اوبامہ اور رومنی جیسے لوگ باہر آتے ہیں
جن کے افکار و نظریات نیزعادات و اطوار میں کوئی بنیادی فر ق نہیں ہوتا ۔
اس اخلاقی بحران کا سب سے بڑا ثبوت براک اوبامہ کے خاص معتمد اور سی آئی
اے کے ڈائرکٹر ڈیوڈپیٹریاس کا اپنے عہدے سے استعفیٰ ہے ۔یہ حسن اتفاق ہے اس
سے قبل لیون پینیٹا کو بھی اس عہدے سے صدر براک اوبامہ پر تنقید کے نتیجہ
میں مستعفی ہونا پڑا تھا ۔پیٹریاس نے ۱۹۷۴ میں اپنی فوجی تعلیم مکمل کی۔
۲۰۰۷ سے ۲۰۰۸ تک اسے بین الاقوامی فوج کا کمانڈر بنا کرعراق میں تعینات
کیا گیا اور ۲۰۱۰ سے لے کر ۲۰۱۱ کے دوران اس کوسربراہ بناکر افغانستان
روانہ کیا گیا۔ سینٹب نے اسے اتفاق رائےسے اسےسی آئی اے کا سربراہی پر
فائز کیا ۔ قومی خفیہ ایجنسی کے سربراہ جیمس کلیپر کے مطابق گزشتہ پانچ
دہائیوں میں انہوں نے جن فوجیوں کو دیکھا ہے ان میں پیٹریاس کو سب سے زیادہ
ممتازاورعظیم وفادارِقوم پایا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سب بہتر کا یہ
حال ہے تو سب سے کمتر کا کیا حال ہوگا ؟ اور جب ان درندوں کو لاکھوں کی
تعداد میں نہتے عوام پر چھوڑ دیا جاتا ہوگا ان کی حالتِ زارکیسی ہوتی گی ؟
صدر اوبامہ نےڈیوڈ پیٹریاس کی تعریف میں کہا کہ اس نے کئی دہائیوں تک
امریکہ کی غیر معمولی خدمت کی ہے اور ملک کو محفوظ اور طاقتور بنایا ہے ۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جس کے شر سے خود اس کی آپ بیتی لکھنے والی
شادی شدہ خاتون محفوظ نہ رہ سکی اس نے امریکہ کو کیسے محفوظ بنا دیا؟ جو
شخص خود اس قدر کمزور ہے اپنی ۳۷ سالہ ازدواجی زندگی کے بدتبھی اپنے آپ
کوقابو میں نہ رکھ سکا اورذلیل و شرمسار ہو کر بھاگ کھڑا ہوا وہ ملک کو
کیسے طاقتور بنا سکتا ہے ؟ڈیوڈ پیٹریاس نے استعفیٰ دے کو اپنے آپ کو نہایت
پارسا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن دراصل وہ ایک خونخوار جنگی مجرم ہے جس
کے سر پر عراق اور افغانستان کے بے شمار مظلومین کے قتل الزام ہے ۔ امریکی
قانون کے لحاظ سے بھی اس کی پذیرائی نہیں بلکہ کورٹ مارشل ہونا چاہئے اس
لئے جاسوسی کی دنیا میں جاسوسوں کی جاسوسی اکثر خواتین کی مدد سے کی جاتی
ہے اس لئے ایک عام رنگروٹ کو بھی اس طرح کے معاملات میں کوتاہی برتنے کی
اجازت نہیں دی جاتی ۔
ایف بی آئی کی تحقیق کے مطابق مسز براڈویل فوجی اسکول سے تعلیم یافتہ
خاتون تھیں اور پیٹریاس کے ذاتی ای میلس تک ان کی رسائی تھی ۔ وہ پیٹریاس
کے ساتھ افغانستان کے اندر قیام پذیر تھیں اور ان کے پیٹریاس کے ساتھ
ناجائز تعلقات تھے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملالہ پر مگرمچھ کے آنسو بہانے
والوں کو براڈ ویل کی کسمپرسی پر کوئی ملال نہیں ہے جس کی عصمت وعفت کےساتھ
فوجی چھاونی کے اندر وردی بردار نے کھلواڑ کیا ۔ اس استعفیٰ کا ایک پہلو یہ
بھی ہے آئندہ ہفتہ پیٹریاس کو پارلیمانی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے بن غازی
میں امریکی قونصل خانے پر ۱۱ ستمبر کو ہونے والے حملہ کی صفائی پیش کرنے کی
خاطر حاضر ہونا تھا ممکن اس سے بچنے کیلئے ڈیوڈ پیٹریاس یہ بہانہ بنا کر
راہِ فرار اختیار کی ہو ؟
امریکی رائے دہندگان پھر ایک بار اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے ہیں کہ انہوں
نے جن نمائندوں کو منتخب کیا ہے وہ ان کے مفادات کی حفاظت کریں گے لیکن یہ
حقیقت ہر چارسال بعد سامنے آتی ہے کہ یہ عوامی نمائندے خود اپنا اور ان
سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں جو ان پر روپیہ لگا کر انہیں
کامیاب کرواتے ہیں۔ یہ سیاستداں جن بلند بانگ دعووں کے ساتھ انتخاب کے
میدان میں اترتے ہیں ، کامیاب ہوتے ہی انہیں بھول جاتے ہیں ۔ عوام بھی وقت
کے ساتھ ان عہدو پیمان کو بھلا دیتے ہیں جو انتخابی مہم کے دوران ان سے
باندھے گئے تھے ۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی وہ پھر ایک بار جذبات میں آکر
سیاستدانوں کو اپنے ووٹ دے کر دنیا بھر میں ظلم و بربریت ننگا ناچ کرنے کا
نیز اندرونِ ملک بدعنوانی و استحصال کرنے کا پروانہ عطا کر دیتے ہیں ۔ اس
پر ستم ظریفی یہ کہ عیش کوئی اور کرتا ہے اور ذمہ داری کسی اور پر آتی ہے
۔امریکی جمہوریت کے تماشے کو صدر اوبامہ کے دو نعروں کی مدد سے سمجھا جا
سکتا ہے ۔ براک اوبامہ نے پہلی مرتبہ انتخاب جیتنے سے قبل کہا تھا ’’ہم یہ
کر سکتے ہیں‘‘ اور دوسری مرتبہ کامیاب ہونے کے بعد کہا’’ہم نے یہ کردیا ‘‘
۔ ایک امریکی صدر یہی کرسکتا ہے کہ ایک سے دو مرتبہ کا میاب ہو جائے اور
رائے دہندگان یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کامیاب کردیا ۔ اس سے زیادہ نہ
کوئی کچھ کہہ سکتا ہے اور نہ کرسکتا ہے ۔اس تمام کہنے اور کرنے پر ہزاروں
کروڈ روپئے خرچ تو ضرور ہو جاتے ہیں لیکن اس سے آقا اور غلام کے درمیان کا
فرق ختم تو کجا کم بھی نہیں ہوتا ۔بقول امریکی مفکر ہربرٹ مارکیوز’’
آقاؤں کا آزادانہ انتخاب آقائی و غلامی (کے نظام ) کا خاتمہ نہیں کرتا
‘‘ - |