فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان
کی حکومت جب عوامی تحریک کو کچلنے میں ناکام ہو گئی اور اس تحریک کو کنٹرول
کرنا اس کے بس سے باہر ہو گیا تو جنرل محمد ایوب خان نے اقتدار اپنے ایک
دوسرے فوجی بھائی جنرل یحی خان کے سپرد کر کے اقتدار کے ایوا نوں کو خیر
باد کہہ دیا۔وہ بھی کیا زمانہ تھا جب اس ملک کی باگ ڈور جنرل یحی خان جیسے
نا عاقبت اندیش حکمران کے ہاتھوں میں تھی جسے نہ اپنا ہوش تھا اور نہ ہی
ملک کی کوئی خبر تھی ۔البتہ اتنا ضرور تھا کہ اسے جن چیزوں میں رغبت تھی ان
کا اسے بہر حال ہوش رہتا تھا ۔ میں تو اسے پاکستان کی بد قسمتی ہی کہونگا
کہ اس ملک پر یحی خان جیسے لوگوں کو بھی حکو مت کرنے کا اختیار مل گیاتھا
اور یہ اختیار اسے فوج کی قوت سے حاصل ہوا تھا۔جنرل محمد ایوب خان نے 1958
میں قتدار پر قبضہ کر لیا تو سب نے اسے بادلِ نخواستہ قبول کر لیا اور پھر
دس سالوں تک جنرل ایوب کو برداشت بھی کیا ۔ سیاسی غلطیوں سے کوئی بھی مبرا
نہیں اور بہت سی غلطیاں جنرل ایوب خان سے بھی ہوئیں لیکن عوامی تحریک سے خو
ف زدہ ہو کر اقتداریحی خان جیسے لوگوں کے حوالے کرنا اتنی سنگین غلطی تھی
جس پر قوم ایوب خان کو کبھی معاف نہیں کرےگی ۔جنرل ایوب خان کا فرض تھا کہ
وہ ایک غیر جانبدار عبوری حکومت تشکیل د یتے جو منصفانہ انتخا با ت کا
انعقاد کر کے اقتدارملک کے حقیقی نمائندوں کے حو الے کر دیتی لیکن جنرل
محمد ایوب خان ایسا کرنے میں ناکام رہے بلکہ انھوں نے اقتدار فوج کے حوالے
کر کے ملک کو ایسی دلدل میں پھینک دیا جس سے پاکستان دو لخت ہو گیا۔ جنر ل
یحی خان نے مارشل لا لگایا تو اسے حسبِ روائیت عدالت میں چیلنج بھی کر دیا
گیالیکن حیران کن بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے یحی خان کے دورِ حکومت میں اس
کے خلاف کوئی فیصلہ صادر نہ کیا بلکہ سپر یم کورٹ کا فیصلہ اس وقت سامنے
آیا جب یحی خان کو اقتدار کے ایوانوں سے گھسیٹ کر باہر نکالاجا چکا تھا۔یہ
سچ ہے کہ فوج پاکستانی سیاست کا سب سے طاقتور فریق ہے لیکن اس کا مطلب یہ
نہیں کہ اس طاقتور فریق کو سارے اختیارات تفویض کر دئے جائیں کہ وہ جو اس
کے جی میں آئے کرتی رہے اور جسے جب چاہے اقتدار کے ایوانوں سے ر خصت کر کے
اقتدار پر قابض ہو جائے۔حقِ حکمرانی صرف عوام کو حاصل ہے اور مارشل
لاءلگانا جمہوری اور آئینی حکومت پر شب خون مارنا ہوتا ہے جسے آئین غداری
سے تعبیر کرتا ہے اور پاکستان کے سارے مارشل لا اسی غداری کے زمرے میں آتے
ہیں۔بد قسمتی سے عدالتیں مارشل لا کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتی رہیں
اور مارشل لاﺅں کو جائز اور آئینی قرار دے کر جمہوریت کا خون کرتی رہیں۔
جنرل پرویز مشرف کو تو عدالتوں نے از راہِ محبت آئین میں تبدیلی کا اختیار
بھی تفویض کر دیا تھا۔ اسی جرنیلی گروہ نے 1988 کے انتخابات اور پھر 1990
کے ا نتخابا ت میں من پسند نتائج حا صل کر نے کےلئے اپنا اثرو رسوخ استعمال
کیا تھا۔سیاسی اداکار ،مخصوص سیاست دان اور عدالتیں جرنیلوں کی دم چھلا بنی
ہو ئی تھیں لہذا جرنیلوں کے من میں جو کچھ آتا تھا وہ کرتے تھے۔ائر مارشل
اصغر خان 1990 کے انتخابات میں پی پی پی کے حلیف تھے اور میاں محمد نواز
شریف کے خلاف انتخابات میں امیدوار تھے لیکن ہزاروں ووٹوں کے فرق سے یہ
انتخاب ہار جانے کے بعد انھوں نے انتخابات میں فوجی مداخلت اور اور اثرو
رسوخ کے خلاف ایک پٹیشن عدالت میں دائر کر دی جس کا فیصلہ چند دن پہلے آیا
ہے۔ فیصلے میں سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق جنرل اسد درانی کو
سیاست میں مداخلت کرنے اور من پسند سیاست دانوں میں رقوم بانٹنے کا سزاوار
ٹھہرایا گیا ہے۔اس فیصلے کی مثال اسی فیصلے سے دی جا سکتی ہے جس میں سپریم
کورٹ نے جنرل یحی خان کے خلاف اس وقت فیصلہ دیا تھا جب وہ اقتدار سے علیحدہ
کر دئے گئے تھے ۔ مرزا اسلم بیگ بھی اس وقت فوجی وردی میں نہیں ہیں لہذا ان
کے خلاف عدالتی فیصلہ سمجھ میں آتا ہے۔مرزا ا سلم بیگ نے اس فیصلے کو تسلیم
کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کسی سیاست دان کو
پیسے نہیں دئے ۔ ان کا اصرار ہے کہ اگر اسد درانی یا کس دوسرے جنرل نے پیسے
دئے ہیں تو یہ اس جنرل کا ذاتی فعل ہے مجھے اس میں کیوں گھسیٹا گیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ جب جر نیل اقتدار میں ہوتے ہیں تو سارے ان کی خوشامدیں کرتے
ہیں اور اس وقت آئین و قانون کو سر دخا نے میں رکھ دیا جاتا ہے۔جنرل محمد
ایوب خان،جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاﺅں میں تو ہم نے
یہی دیکھا ہے۔چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر کسی کو سرِ دار لٹکادیتا ہے اور
کبھی کسی کو جلا وطنی پر مجبور کر دیتا ہے اور کوئی ان سے یہ پوچھ نہیں
سکتا کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا تھا۔گمشدہ افراد کا مقدمہ اس وقت سپریم
کورٹ کے روبرو ہے لیکن اس میں کئی سالوں کی کاروائی کے باوجود سپریم کورٹ
کسی باوردی جنرل کو عدالت میں طلب نہیں کر سکی۔ عدلیہ نے وزیرِ اعظم کی
طلبی میں تو بڑی پھرتیاں دکھائی تھیں لیکن جہاں پر انسانی جانوں کا ضیاع
ہوا ہے اور آئین و قانوں کو پس، پشت ڈالا گیا ہے وہاں پر قانون بے بسی کی
تصویر بنا ہوا ہے۔ریٹارڈ جنرل کو عدالت میں بلوانا یا ان پر الزامات لگا کر
انھیں کسی سازش میں شامل کرنا کوئی نئی اور حیران کن بات نہیں ہے کیونکہ
ریٹائرڈ جنرل کے پیچھے فوج کی کوئی قوت نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے بحریہ کے چیف
سطور الحق کے ساتھ بھی ایسا معاملہ پیش آچکا ہے۔ان پر بھی کرپشن کے الزامات
لگے تھے انھیں گرفتار بھی کیا گیا تھا لیکن پھر کیا ہوا کسی کو کوئی خبر
نہیں۔سوال تو تب اٹھتا ہے جب جنرل اقتدار میں ہو اور اس سے اس کے اعمال کی
باز پرس کی جائے۔جنرل پر ویز مشرف کی اقتدار سے رخصتی کو اگر کچھ لوگ کسی
تحریک کا ثمر کہتے ہیں تو مجھے ان سے اختلاف ہے کیونکہ جنرل پرویز مشرف کسی
تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے الگ نہیں ہوا۔وہ تو ججز کو اسیرِزندان کر کے
بڑی مستی میں حکومت کر رہا تھااور کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر رہا
تھا۔یہ سچ ہے کہ سیاست دانوں،وکلا اور عدالتوں نے اس کے خلاف مزاحمتی رویوں
کا اظہار کیا تھا لیکن وہ جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے الگ نہیں کر سکے
تھے۔ اس کی اقتدار سے ر خصتی کی بنیادی وجہ وردی اتارنا تھا جس کی وجہ سے
وہ اپنی اصلی قوت سے محروم ہو گیا تھا۔اسے زعمِ باطل تھا کہ وہ عوام میں بے
پناہ مقبول ہے اور وہ وردی کے بغیر بھی انتخابات جیت کر پاکستان پر حکمرانی
کر سکتا ہے وہ اپنی اس خوش فہمی کے ساتھ کہ وہ ملک کی سب سے مقبول شخصیت ہے
انتخابات میں گیا لیکن ا نتخابات میں عوام نے اس کی خوش فہمی کو چکنا چور
کر کے رکھ دیا ۔اس کی تشکیل کردہ جماعت مسلم لیگ (ق) کو انتخابات میں شکست
کا سامنا کرنا پڑا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) پارلیمنٹ کی دو بڑی جماعتیں
بن کر ابھریںاور یہی سے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہو نا شروع
ہو گیا اور وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا اور
جنھیں وہ اپنا دوست سمجھتا تھا انھوں نے بھی اس سے آنکھیں پھیرنا شروع کر
دیں۔وردی وہ پہلے ہی اتار چکا ہے اور اب پارلیمنٹ میں بھی اسے اکثریت حاصل
نہیں رہی تھی۔ اس کی اپنی جماعت مسلم لیگ (ق) بھی اس سے بغا وت پر آمادہ ہو
چکی تھی اور اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ سیاست دانوں کا قبلہ نیا آرمی چیف جنرل
اشفاق پرویز کیانی تھا کیونکہ فیصلہ کرنے کی قوت اب اس کی مٹھی میں بند
تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز
شرف نے ایک سمجھوتے کے تحت جنرل پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش
کرنے کا اعلان کر دیا۔جنرل پرویز مشرف موا خذے کی تحریک کے خوف سے اپنے
اوسان کھو بیٹھا اور یوں ستمبر 2008 میں اس نے پاکستان سے خود ساختہ جلا
وطنی اختیار کر لی۔
1988 اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی اور اس بات کا پاکستان کے
بچے بچے کو علم ہے۔۶ اگست 2008 کو صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان نے محترمہ
بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برخاست کیا تو وہ سارے کردارجو اس وقت باہم دست و
گر یبا ن نظر آتے ہیں اس وقت پی پی پی کے خلاف متحد تھے۔ جنرل اسلم
بیگ،غلام اسحاق خان،جنرل حمید گل اور جنرل اسد درانی اور دوسرے تمام کردار
باہم شیرو شکر تھے اورا ن سب کا واحد حدف پی پی پی تھی لہذا اسکی خوب درگت
بنائی گی لیکن پی پی پی کو ختم کرنے کا انکا خواب پورا نہ ہو سکا کیونکہ پی
پی پی عوام کے دلوں میں بستی تھی ۔اس وقت سارے فیصلے فوج کی پشت پناہی اور
رضا مندی سے ہوتے تھے اور اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ کیا خارجہ امور کے
فیصلوں میں فوجی تسلط کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟بالکل نہیں کیا جا سکتا
لیکن اس جانب کوئی اشارہ نہیں کرےگا کیونکہ آرمی چیف کے خلاف بات کرنا موت
کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برخا ست کرتے
وقت ایک سازش تیار کی گئی تھی اور اس سازش کا وہ لوگ حصہ تھے جو اس وقت بڑے
پارسا بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔کیا عدالیہ اس سازش کا حصہ نہیں تھی۔؟کیا
عدلیہ نے ہمیشہ پی پی پی کے خلاف فیصلے نہیں دئے ؟کیا پی پی پی کی قیادت کو
ہمیشہ نا کردہ گناہوں کی سزا نہیں دی گئی؟اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو پھر عدلیہ
کو انصاف کے کٹہرے میں کون لائےگا ´؟کیا عد لیہ محض اس وجہ سے کہ وہ عدلیہ
ہے ہر قسم کی جوابدہی سے مبرا ہو جائےگی؟ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے
بھی تو مارشل لاﺅںکو جائز اور حلال قرار دیا تھا اور پی سی او کے تحت حلف
بھی اٹھا یا تھا کیاا س غیر آئینی طرزِ عمل کی جوا بدہی کا کوئی طریقہ کار
موجود ہے ؟ اگر فوجی جنرل مجرم ہیں تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور
دوسرے تمام ججز جنھوں نے مارشل لاﺅں کو جائز قرار دیا تھا وہ بھی تو آئین
کے مجرم ہیں تو کیا ا نھیں بھی سزا وار ٹھہرایا جائےگا؟مجھے ڈر ہے کہ عدلیہ
کی جوابدہی کی بات کوئی نہیں کرےگاکیونکہ عدلیہ کے ہاتھوں میں آئین کی
تشریح کی تلوار ہے اور سب کو اپنی گر د ن پیاری ہے ۔۔۔ |