کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا
تھاکہ انسانی خون اس قدر ارزاں ہوجائے گا کہ کراچی کے گلی کوچوں اور سڑکوں
، شاہراہوں کو اس سے رنگین کیا جا نے لگے گا ،منی پاکستان میں ظلم ،وحشت
اور موت کا رقص ہے کہ ہرطرف جاری ہے اور شہر کراچی قریب قریب کہیں بیروت کا
منظر پیش کرنے لگا ہے ، دہشت گردی کی ان منظم وارداتوں سے یہ ثابت ہوا
چاہتا ہے کہ امن کے دشمن جب چاہیں حکومتی رٹ کی بھد اڑادیں ،شہر پر ظلم و
جبر کے کوڑے برسانا شروع کر دیں اور ایک عام آدمی سے بھی زندہ رہنے کا حق
چھین لیا جائے ۔پاکستانی حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ ان کی صفوں میں بصیرت و
بصارت اور حکمت و دانش ڈھونڈنا ہی احمقانہ پن ہے ، نہ تو ان میں اخلاص کا
داعیہ کہیں دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی احترام ِ انسانیت کاکوئی عنصر۔جب حکمت
اور دانش کو اس درجہ مفاد پرستی اور خو د غرضی شکست فاش سے دو چار کرڈالے
تو لامحالہ یہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے جو کراچی میں ہو رہا ہے۔ ابھی رینجرز
جوانوں پر حملے کی آواز مدھم نہیں پڑی تھی کہ اس سے اگلے روز جامعہ احسن
العلوم کے طلبہ سمیت سولہ افرادکی ہنستی مسکراتی زندگیوں کے چراغ گل کر دیے
گئے اور نارتھ ناظم آباد میں کالعدم سپاہ صحابہ کے ایک عہدیدار محمد عرفان
کو قتل کر دیا گیا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر جب کبھی
ہنسی آتی تھی اب اس پر رونا آنے لگا ہے ۔رینجرز حملہ کے حوالے سے ایک معاصر
نے خبر دی کہ آئی جی سندھ کو آٹھ ماہ پیشتر اس حملے کی منصوبہ بندی سے آگاہ
کر دیا گیا تھا۔ سہولت پسند سیکیورٹی اداروں اور راشی سیاستدانوں ، عبد
الرحمن ملک ایسوں کا حال یہ ہے کہ ان کی سوئی بدستور اسی ”طالبان“والے نکتے
پر اٹکی ہوئی ہے اور انہیں کراچی کے قبضہ مافیا ، منشیات فروشوں ، اسلحہ
سپلائرزاور رسہ گیروں کی پشت پر ”طالبان“ہی دکھائی دیتے ہیں۔اپنی قومی ذمہ
داریاں کماحقہ نبھانے ، عروس البلاد کے شہریوں کو ظلم کی اس سیاہ رات سے
نجات دلانے اور مضبوط قبضہ گروپوں اور ان کے اصل پشت پناہ سیاسی دھڑوں کے
خلاف بلاامتیاز کارروائی کرنے کے بجائے طالبان ، طالبان کا واویلا کر کے
ملک کے کروڑوں عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی ناکام اور مضحکہ خیز کوششیں کی
جارہی ہیں۔دہشت پسندی ، انارکی سے نجات کی کوئی سبیل نہیں نکالی جارہی اور
دہشت گردوں کی ہر کارروائی اور خون کی ہولی کے بعد نادیدہ ”طالبان“کے خلاف
بیان داغ دیا جاتا ہے اور دیدہ طاقتوں اور ان کے غنڈوں کو کھلی چھوٹ دے دی
جاتی ہے ۔جس طرح انکل سام نے فرضی کہانیاں اور من گھڑت قصو ں کابازار گرم
کر کے امت مسلمہ کا سکون تباہ کر ڈالا، بعینہ انکل سام کے نام لیوا
پاکستانی حکمران ،یکیورٹی حکام کراچی کے حوالے سے طالبانائزیشن کافرضی بت
تراش کردر اصل اسلام پسند قوتوں کی راہیں مسدود کرنے کی مغربی کوششوں کا
حصہ بنے ہوئے ہیں ۔ کراچی میں موت کے رقص پر قابوپانے اور تخریب کاروں کی
سرکوبی ،حوصلہ شکنی کے بجائے طالبان طالبان کا شور مچانے والے یہ کیوں بھول
رہے ہیں کہ گزشتہ ایک سال سے کراچی میں سب سے زیادہ کالعدم سپاہ صحابہ ؓ کے
لوگ نشانہ بن رہے ہیں ، کیا تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں کوئی
ایک بھی ایسی مثال ملتی ہے کہ اس کی طرف سے مذکورہ جماعت کے لوگوں کو قتل
کیا گیا ہو ۔۔۔؟ نااہل حکمرانو ں کی معلومات کا یہ عالم ہے کہ انہیں پتہ ہی
نہیں کہ اس شہر میں موت کے سوداگروں کانشانہ بننے والوں کی اکثریت کس مسلک
اور عقیدے سے تعلق رکھتی ہے ۔۔۔۔؟ کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہے کہ کراچی
میں سب سے زیادہ مسلک دیوبند کو نشانے پر رکھا جا رہاہے اور خواہ کالعدم
سپاہ صحابہ ؓ، جے یو آئی ، طلبہ تنظیمیں ہوں یا دینی مدارس کے طلبہ ،
علمائے کرام اور انتظامیہ ان سب کو تاک تاک کر نشانہ بنایا جارہا ہے ،
لاتعداد روح فرسا اور کلیجہ دہلادینے والے واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں جن
میں انتہاءدرجہ بے ضرر اور زمانے کو امن کا درس دینے والی شخصیات کے خون سے
ہاتھ رنگے گئے اور ان کے قاتلوں کے نام و نشان تک کا پتہ نہ چل سکا ،ان کی
تفصیلات میںجاناکرب ناک ہو سکتا ہے ۔ اگر ایک طرف مولانا یوسف لدھیانوی
شہیدؒ کا خون حکمرانوں کا گریبان پکڑے کھڑا ہے تو کہیں مولانا عبد الغفور
ندیم ؒ ، مفتی جمیل شہید ؒ اور مولانااسلم شیخو پوری ؒ جیسی سدا کی بے ضر ر
اور شفیق ہستیوں کے تڑپتے لاشے حکومتی مجرمانہ خاموشی اور قومی بے حسی پر
ماتم کناں ہیں۔ بھلے وقتوںمیں یہ کہاں تصور تھا کہ ہمارے قانون کے رکھوالے
ادارے دہشت گردوں کے آگے سرخم کر دیں گے اور بھتہ خور مافیا ، انسانی خون
کے پیاسے بھیڑیے شہر بھر میں دندناتے پھریں گے ،مگر اب وہ وقت آن پہنچا ہے
جب رینجرز ، پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ان جرائم پیشہ گروہوں کے آگے ہتھیار
ڈال کر بھیگی بلی بن چکے ہیں ، کسی گوٹھ یا محلے میں ان اداروں کے افسران
باقاعدہ سماج دشمنوں کاساتھ دے کر اپنی تجوریاں بھرنے میں مگن ہیں تو کہیں
قانون شکن عناصر کی دہشت اور سربریت سے گھبرا کر سیکورٹی اہلکار اپنی
زندگیوں کی بھیک مانگے جار ہے ہیں اوردن دیہاڑے مسلح گروپوں کے آگے ہٹ جانے
میں ہی عافیت کا پہلو ڈھونڈتے ہیں۔خفیہ والوں نے تازہ رپورٹ دی ہے کہ” دہشت
گرد کسی نئی حکمت عملی کے تحت ملک بھر میں حملے کر سکتے ہیں “۔ کیا حساس
اداروں کے ذمہ یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ خفیہ اطلاعات اکٹھی کر یں ،کاغذو ں
کاپلندہ وزارت داخلہ کو بھیج کر اپنی تنخواہیں ”حلال“ کر لیں اور اپنے منصب
کا قرض چکا ڈالیں ۔۔۔؟جب ان حملوں کی خفیہ اطلاع آٹھ ماہ پیشتر دی جا سکتی
ہے تو ایسے عناصر تک پہنچنے میں اور ان کی بیخ کنی کرنے میں آخر ایسی کون
سی طاقت حائل ہے جس تک پہنچے کے لیے خفیہ والوں کے بھی پر جلتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟سچ
کہتے ہیں جب گھر کا چوکیدار ہی لٹیروں سے مل بیٹھے تو تباہی و بربادی ہی
ایسے آشیانوں کا مقد ر ہوا کرتی ہے، جب دھرتی کے رکھوالے ہی وطن دشمنوں سے
مل بیٹھیں تو امن اور انصاف بھلا کہاں سے مل پائے گااور انسانیت کے قاتلوں
تک کیونکر پہنچا جا سکے گا۔۔ ۔؟ سب ہی اندھیروں کا ساتھ دینے پر آمادہ نظر
آئیں تو بتائیے کہ روشنی کی کرن بھلا کہاں سے پھوٹ پائے گی۔۔۔؟٭٭٭٭٭ |