پاکستانی جمہوریت کی گاڑی کو درپیش حادثات

تحریر،مرزا عارف رشید

جہاں دُنیا میں بڑے بڑے حادثات ہوتے ہیں ‘ مگر ہمارے ملک میں عجیب سے حادثات ہوتے ہیں ‘جن حادثات کی میں بات کر رہا ہوں وہ نہ تو کوئی روڈ ایکسیڈنٹ ہے نہ ہی ٹرین کا حادثہ ہے اور نہ ہی کسی جہاز کا کریش ہونا ہے ۔ یہ ایک سیاسی حادثے کی بات ہے جوکہ ہمارے ملک کی جمہوریت کیساتھ اکثر ہوتے ہیں ‘ ہمارے ملک کی جمہوریت ایک ایسی گاڑی کا نام ہے جو چلنے کا نام ہی نہیں لے رہی وہ تھوڑا سا چلتی ہے اور پھر حادثہ ہو جاتا ہے اگر جمہوریت کا ڈرائیور اس گاڑی کو ٹھیک طرح سے چلانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری جماعت کا سارجنٹ سامنے کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ تمہاری گاڑی ٹھیک طرح سے نہیں چل رہی ‘ ہماری آپس کی لڑائیوں نے جمہوریت کی گاڑی کو دھکا دینے کی بجائے اور روک لیا ہے ‘ ہر سیاسی جماعت کی یہ کوشش ہے کہ اسکی جماعت کی حکومت ہو اور گاڑی کا سٹیرنگ اسکے ہاتھ میں ہو ‘ ملک کے بہت سے لیڈر اب بھی حکومت کرنے کو تیار بیٹھے ہیں بھلے انکی گاڑی کے کاغذ پورے ہوں یا نہ ہوں لیکن خواب حکومت کرنے کے دیکھ رہے ہیں ۔ اصغر خان کیس کے سامنے آتے ہی کچھ لیڈران کی تو زبانیں بند ہو گئیں اور کئی اب بھی بول رہے ہیں ‘ کچھ لیڈر تو یہاں تک بھی کہنے لگے ہیں کہ پہلے ہمارے خلاف ثبوت لے آؤ ‘ پہلے کونسا ملک میں ثبوت پیش ہوتے رہے ہیں جو اب ہونگے ؟ چیف جسٹس آف پاکستان کو چاہئے کہ جس دلیری سے انہوں نے اصغر خان کیس کا فیصلہ سنایا اُسی دلیری سے ہی ان مجرموں کو پکڑ کر سلاخوں کے پیچھے ڈالیں اور وطن عزیز کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لایا جائے جنہوں نے بھی یہ کرپشن کی ہے وہ سب بھی وطن عزیز کے ہی رہنے والے ہیں کسی نے باہر سے آ کر تو یہ کرپشن نہیں کی ‘ چیف جسٹس آف پاکستان اگر الیکشن سے پہلے ہی ان چہروں کو بے نقاب کر دیں تو پاکستان کے بھولے بھالے عوام کو ان مکروہ چہروں کو پہچان لینگے اگر ہم دوبارہ ثبوت اکٹھے کرنے میں لگ گئے تو شاید 50سال اور گذر جائیں اور ہو سکتا ہے کہ آپ بھی اس سیٹ پر نہ ہوں اور آنیوالا جسٹس آپکی طرح فیصلہ نہ کر سکے جو حالات اس وقت وطن عزیز کے ہیں وہ ساری دُنیا جانتی ہے ہماری جمہوریت کو سیاستدانوں نے مذاق بنا رکھا ہے اگر سیاستدان ملک کو نہیں چلا سکتے تو مجبوراً آرمی کو آنا پڑتا ہے ‘ ہم یہ بات تو کہہ دیتے ہیں کہ جمہوریت اپنی پٹڑی پر چل رہی تھی لیکن ایک ڈکٹیٹر کی وجہ سے جمہوریت پر شب خون مارا گیا ہے ۔ ہمارے سیاستدان عوام کو تصویر کا ایک رخ کیوں دیکھاتے ہیں جبکہ اس تصویر کا ایک رخ اور بھی ہوتا ہے ۔ اس وقت کا چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف جنہیں یہ سیاستدان ڈکٹیٹر کہتے ہیں جب وہ اپنے آنے کیلئے ہوائی جہاز میں سوار ہوا تو آپکے ہی حکم پر اس ہوائی جہاز کو ائر پورٹ پر اترنے سے روک دیا گیا اور دوسری طرف آپکے حکم ضیاء الدین بٹ نامی شخص کو آرمی چیف مقرر کر دیا گیا اور اپنے ہی ہاتھوں سے سٹارز لگا دیئے ‘ ایک چیف آف آرمی سٹاف کے ہوتے ہوئے دوسرا کیسے آرمی چیف بن سکتا ہے ‘ یہ ہے تصویر کا دوسرا رخ ‘ جب ہماری پاک آرمی نے دیکھا کہ یہ غلط ہو رہا ہے تو انہوں نے کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا کیونکہ ہماری بد نامی پوری دُنیا میں ہونی تھی جوکہ پاک آرمی نے نہیں ہونے دی مگر آپ اس وقت بھاری مینڈیٹ کے نشے میں تھے ‘ ہمارے ملک میں بادشاہی نظام نہیں جمہوری نظام ہے اگر آپ لوگ اس جمہوریت کی گاڑی کو ٹھیک طور چلاتے تو پھر کیوں کوئی دوسرا آپکی جمہوری گاڑی کو ڈی ریل کرتا ‘ اگر آج بھی چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جو بیان دیا ہے وہ ٹھیک ہے کہ بجائے آرمی کو بد نام کرنے کے آپ جمہوریت کو مضبوط کریں اُلٹا آپ لوگ جمہوریت کو کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن ہر جماعت کی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر تو نظر آتے ہیں مگر سٹاپ آنے سے پہلے وہ گاڑی سے اتر جاتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اب حکومت ختم ہونیوالی ہے تو وہ مسجد کا رخ کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کیخلاف بولنا شروع کر دیتے ہیں اور مولانا کا یہ بھی ریکارڈ ہے کہ وہ ہر آنیوالی حکومت کا حصہ ہوتے ہیں ۔ شیخ رشید صاحب کو بھی آجکل بہت غصہ آ رہا ہے انہیں جہاں بھی موقع ملتا ہے سب لیڈروں کے ’’کپڑے‘‘ اتار دیتے ہیں مگر جب شیخ صاحب خود اقتدار میں ہوتے ہیں تو انہیں کچھ نظر نہیں آتا مگر اب انہیں بھی سب برا لگنے لگا ہے ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تو ایسے لگتے ہیں کہ جیسے وہ وزیر اعظم بن گئے ہوں ‘ عمران خان کو لگتا ہے کہ جمہوریت کے بارے میں صحیح طور معلوم نہیں کہ وہ بھی لیڈروں کے دیکھا دیکھی سب کچھ کر رہے ہیں ‘لگتا ہے عمران خان جب صبح اٹھ کر جب اخبار پڑھتے ہیں تو کسی بھی لیڈر کا محاسبہ کرنا شروع کر دیتے ہیں ‘ عمران خان کو تو پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ ہی کافی ہیں ‘ وزیر قانون جسکے پیچھے پڑتے ہیں تو پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں ۔ رانا ثناء اللہ کو چاہئے کہ وہ یا تو اپنا ایک ٹی وی چینل بنا لیں یا تو پھر ایک عدد اخبار شائع کر لیں اس طرح روزانہ انکی پسند کے بیانات شائع یا نشر ہو جایا کرینگے اور وزیر قانون کی دل پشوریاں بھی ہو جایا کرینگی ۔ وزیر قانون صاحب !پنجاب کے خادم اعلیٰ آجکل بہت پریشان ہیں انکو آپکی رہنمائی کی بہت ضرورت ہے ‘ انہوں نے خود بھی کئی مرتبہ کہا ہے کہ پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ میرے علم ہے ‘ آپ ان کیساتھ ملکر کوئی ایسا قانون بنائیں جس سے پنجاب کے عوام کو فائدہ ہو اور آپکی سیٹ بھی پکی ہو جائے اور دوبارہ اسمبلی میں آ جائیں وزیر قانون ہو سکتا ہے کہ نا اہل نہ ہوں ‘ چیف الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ اسمبلیوں بیٹھے ان کرپٹ لیڈروں کو نا اہل کرے جو ایک عرصہ سے کرپشن کرتے آ رہے ہیں اور بار بار اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں ‘ ہمارے ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ جس سے ہر مرتبہ منتخب ہونیوالا کسی اور کیلئے بھی جگہ چھوڑے ‘ وطن عزیز میں ایسے بھی لیڈران ہیں جو زندگی بھر کیلئے اسمبلیوں میں دھرنا دیئے ہوئے ہیں ۔ خدارا اب تو نئے چہروں کو آنے دیا جائے تاکہ جمہوریت کی گاڑی کو صحیح طور اور حقیقی معنوں میں عوام دوست بنا کر چلائی جائے ۔
umar farooq khan
About the Author: umar farooq khan Read More Articles by umar farooq khan: 17 Articles with 13158 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.