ہمارے ہاں پاکستان میں بالعموم میٹھی عید
کے بعد سے شادیوں کا سیزن شروع ہو تا ہے جو بقرعید کے بعد تک جاری رہتا ہے۔
پچھلے دنوں کئی شادیوں میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ طبیعت کی خرابی کی وجہ
سے اکثر حضرات سے تو معذرت کر لی، لیکن ایک دعوتِ ولیمہ میں شرکت کرنا ہی
پڑی۔ہم دیے گئے وقت پر پہنچے تو دیکھا کہ حسبِ روایت میزبان تک نہیں آئے
تھے ۔ آدھے گھنٹے کے بعد میزبان تشریف لائے۔مہمان اپنے اپنے ذوق کے مطابق
گروپ بنا کر بیٹھے تھے۔ مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہو رہا تھا۔ہم جس
ٹیبل پر تھے، وہاں کافی سنجیدہ اور علمی گفتگوبلکہ بحث ہو رہی تھی۔ اپنی
دلیل میں عجب نکتے اور حوالے پیش کیے جا رہے تھے۔ ہم خاموش رہے کہ نہ ایسا
حجتی علم ہمارے پاس تھااور نہ اتنی اونچی آواز رکھتے تھے کہ اتنے شور میں
اپنی بات اگلے کے کان میں انڈیل سکیں،سو سن کر سر دھنتے رہے۔تقریباً سوا
گیارہ بجے کھانا شروع ہونے کا اعلان ہوا اور ....اور پھر وہ ہڑبونگ مچی کہ
بقول کسے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ساری بقراطیت، سارے فلسفے قورمے بریانی
کی خوشبوؤں میں تحلیل ہو گئے۔ سوٹ بوٹ پہنے، باوقار ، مہذب لوگ کھانا لگنے
کی آواز سنتے ہی وحشی درندوں کی طرح کھانے کی میز پر چڑھ دوڑے۔ بوٹی سے
بوٹی اچھلتی تھی،توند سے توند ٹکراتی تھی۔ الامان الحفیظ کیا نظارہ تھا!
کسی دانشور نے بالکل صحیح کہا ہے کہ دسترخوان، سفر اور معاملات کسی بھی شخص
کے اندرون کو جانچنے کے بہترین وسیلے ہیں۔آپ دیکھیں گے کہ ایک شخص کا حلیہ
بڑا مہذب، باتیں بڑی شانداراورانداز بڑے پر شکوہ ہوتے ہیں۔ چہرے پر بے
نیازی ایسی کہ جیسے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے لیکن آپ کبھی ان کے ساتھ
دستر خوان پر بیٹھیں ، کبھی ان کے ساتھ سفر کریں یا کوئی معاملہ ان کے ساتھ
کر کے دیکھیں تو ایک ایک کر کے سارے ملمع اترتے جائیں گے۔بہرحال یہ ہمارا
آج کا موضوع نہیں، آج تو ہم بات کرنا چاہ رہے ہیں کھانے کی ناقدری کے بارے
میں اور خصوصاً شادی میں کھانے کی ناقدری کے بارے میں۔
شادیوں کا کھانا شاید بہت سے لوگوں کا آخری کھانا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار تو
یوں لگتا ہے جیسے شادی میں جانے کے دو ہی اہم مقاصد ہیں۔ ایک کھانا کھانے
سے پہلے کھانے کے بارے میں اندازے لگانا، اور دوسرا کھانا آنے پر اس پر ٹوٹ
پڑنا۔ ویسے تو کھانا کھانے کا وقت ہی دیکھنے کے قابل ہوتا ہے لیکن اس سے
پہلے کا وقت بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہوتا ایسے میں لوگ بار بار اس دروازے کی
طرف دیکھتے ہیں جہاں سے کھانا لانے والوں کا نزول ہو تا ہے۔ یہ وقت گذارنا
بھی کئی لوگوں کے لیے بڑا مشکل کام ہے۔ ویٹر پہلے تو کھانے کی ڈشوں کے نیچے
لیمپ رکھے گا پھر ان میں گرم پانی ڈالے گا پھر پلیٹیں اور کہیں آخر میں جا
کر قابوں کے ڈھکنے کھلنے کی کرخت مگر انتہائی مطلوب آوازسنائی دیتی ہے ۔
ہمارا تو بلڈپریشر چوں کہ ہائی رہنے لگا ہے ،اور شادیوں کے کھانے میں نمک
خوب ہوتا ہے ۔ اس لیے مجبوراً اب ہم مقابلے میں نہیں اترتے اور گویا مہذب
بننے کی اداکاری کرتے ہیں۔ خیر تو اس دن نفسانفسی کا منظر دیکھتے ہوئے ہم
چپکے بیٹھے خوبانی کے میٹھے سے انصاف کررہے تھے ۔ اور ہماری ٹیبل میں
پلیٹوں کا ڈھیر لگ گیاتھا۔ ہم نے اندازہ کیا تو انکشاف ہوا کہ تین قسم کے
سالن، بریانی،نان، رائتہ، سلاد، چٹنی اور کولڈ ڈرنک کا انتظام کیا گیا تھا!
یوں اگر ایک میز کے گرد چار آدمی ہیں تو کم ازکم دس پندرہ پلیٹیں ٹیبل پر
تھیں اورہر پلیٹ کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کناروں سے ابلی پڑ رہی تھی۔
یقینا کوئی کتنا ہی پیٹو ہو، تین چار لبالب پلیٹ کھانا نہیں کھا سکتا۔ اور
کھانا بھی وہ جس میں شوربہ کم اور ڈھیروں ڈھیر مرغ کی ٹانگیں زیادہ لشکارے
مار رہی ہوں، یعنی فل مرغن غذا! لیکن جب اتنا کھایا نہیں جا سکتا تو نکالا
کیوں جاتا ہے؟ تو اس کا آسان جواب ہے ندیدہ پن جسے آپ حرص کہہ لیں ، جو
ہمارے دل کے نہاں خانوں میں چھپی بیٹھی ہے،اورجس کا کبھی پیٹ نہیں بھرتا۔
پھر ہوتا کیا ہے؟بمشکل تھوڑا تھوڑاہر پلیٹ سے چکھا ہی ہوتا ہے کہ معدہ ساتھ
چھوڑنے لگتا ہے۔تھوڑی دیر اور اپنے اوپر جبر کیا جاتا ہے، لیکن کب تک؟آخر
جوٹھے سالن سے بھری پلیٹیںیونہی پڑی رہ جاتی ہیں جو بالآخر کچرے کی نذر ہو
جاتی ہیں۔
ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ پوری دنیا میں غذا کی قلت ہو رہی ہے۔ ہزاروں
بچے روزانہ بھوک سے یا غذائی کمی سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔اور دوسری
طرف حال یہ ہے کہ صرف امریکہ میں 50فی صد خوراک کوڑے کی زینت بنتی ہے۔
برطانیہ میں 20 ملین ٹن خوراک ضائع کردی جاتی ہے۔ جاپان میں 101.6ارب ڈالر
مالیت کی خوراک تلف ہوجاتی ہے۔ برصغیر میں کھانا ضایع کرنے کے اپنے ڈھنگ
ہیں، جس میں سرفہرست شادی ہے۔ پاکستان کا حال تو سب کے سامنے ہے، پڑوسی ملک
ہندوستان بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں۔ ایک ایک حالیہ جائزے کے مطابق صرف
بنگلور میں ہرسال شادیوں میں نو سو پچاس ٹن غذائی اشیاءضائع ہوجاتی ہیں۔ ہر
برس تقریبا اسی ہزار شادیاں ہوتی ہیں اور ہر شادی میں اوسطاً ایک تہائی
کھانا ضائع ہوتا ہے۔یعنی سالانہ تین سو انتالیس کروڑ روپے کا کھانا شادیوں
میں برباد ہوتا ہے جب کہ وہاں بھوک اور غذائی قلت کا حال ہمارے ہاں سے بھی
بدتر ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے بڑے شہروں میں جس
قدر خوراک کا ضیاع ہوتا ہے اس کے دسویں حصے سے دنیا میں بھوک سے مرنے والے
لاکھوں افراد کو دووقت کا کھانافراہم کیا جاسکتا ہے۔غذا کو کچرے میں
پھےنکتا ہوا انسان اس بات سے لاتعلق ہے کہ ٹھیک اسی لمحے بے شمار انسان
بھوک سے مر رہے ہیں۔ بھوک سے مرنے والے انسانوں کے اعداد و شمار ہوش رباہیں
اور دور جدید کے انسان کی بے حسی پر ماتم کنا ں بھی ، صرف شمالی کوریا میں
اب تک پچاس لاکھ افراد قحط کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں۔اس وقت بھی ۵۱ لاکھ سے
زائد انسان افریقی ممالک میں مرنے کے قریب ہیں۔
پاکستان غذائی قلت کے شکار سولہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ مشیر عالمی
ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں غربت، مہنگائی کی وجہ سے عوام کو بنیادی
خوراک تک رسائی نہیں۔اسی وجہ سے پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر پینتالیس
فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔اس لیے بحیثیت ایک مسلمان ہماری ذمہ داری
ہے کہ کھانے کی ناقدری سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیںتا کہ
اضافی خوراک اس انسان کے پیٹ میں چلی جائے جو خالی ہے۔
اوپر پاکستان میںغذائی قلت سے متعلق آپ نے رپورٹ پڑھی ، اب حیرت انگیز طور
پراس کے برعکس ایک اور رپورٹ ملاحظہ فرمائیے جوان حضرات و خواتین کے لیے ہے
جو شادیوں میں ، آئے دن ہوٹلنگ میں، اور گھر میں مرغ مسلم سے حلق تک پیٹ
بھرتے ہیں۔جی ہاں! طبی ماہرین نے پاکستانیوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کو
قابلِ تشویش قرار دیا ہے۔ان ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی لگ بھگ
پندرہ سے اٹھارہ فی صد آبادی موٹاپے کا شکار ہے۔ موٹاپا جو ”امّ الامراض“
ہے،بلاشبہ ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، امراضِ قلب، کینسر اور جوڑوں کے درد
سمیت کئی سنگین امراض کا سبب بنتا ہے۔اور اس موٹاپے کی کوئی جینیاتی وجہ
نہیں بلکہ الم غلم کھانا اور خوب کھانا ہے۔سو میرے ہم وطنو! کسی اور کے لیے
نہ سہی اپنی صحت کے لیے ہی سادہ کھانے کواور ضرورت کے مطابق کھانے کو ترجیح
دیں۔ آیندہ کسی شادی میں جانا ہو تو ہمارا یہ شعرگنگنا لیجیے گا
تکہ آئے یا بریانی آئے
ہاتھ ہولے رکھنا ہے
کھانا چاہے غیر کا ہو
پیٹ تو آخر اپنا ہے |