مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟

جس طرح انجلینا جولی ، جولیا رابرٹس، کرینہ کپور یا قطرینہ کیف سے ملنا مشکل کام ہے۔ یا میرا صاحبہ کا بغیر اٹکے اردو اور اچھی انگریزی بولنا مشکل کام ہے اسی طرح سے آجکل پاکستان میں مرنا بھی بہت مشکل کام بنا ہوا ہے۔ خرچے سے تنگ، مہنگائی کے مارے، بھوک کے ستائے ، بجلی ، گیس کے بلوں سے خوفزدہ ،سیاستدانوں کے ڈسے ، ننگ دھڑنگ، گردے اور اپنے لختِ جگر بیچتے غریب عوام بیچارے دعا کرتے ہیں کہ اللہ اب انکے گھر میں کوئی میت نہ ہووے۔ یا پھر گھر کا کوئی فرد او پر کو سدھارے بھی تو کہیں ایسی جگہ مرے کہ لوگ لاوارث سمجھ کر خود ہی وہیں دفنا دیں۔ کیونکہ مرے سے مرا مردہ بھی لواحقین کے اپنے چالیسویں تک چالیس ہزار ، بلکہ کئی چالیس ہزار لگوا جاتاہے۔

کسی آدمی کے مرحوم ہونے پر سب سے پہلے دور پرے کے عزیز و اقارب کو اطلاع بہم پہنچائی جاتی ہے تاکہ وہ مردے کا منہ دیکھنے کو ضرور با ضرور پہنچ سکیں۔ پتہ نہیں لوگ مرے کا منہ ہی ضرور کیوں دکھوانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ اسکی زندگی میں کبھی دیکھنے کو نہیں کہتے کہ کہیں چائے پانی کاخرچہ نہ پڑ جائے ؟؟ ویسے بھی بندہ دیکھے تو مادھوری کا منہ دیکھے، کاجول کا دیکھے، رانی مکھر جی، ایشوریا رائے، ریما یا وینا ملک کا جوانی میں منہ دیکھے ۔ مردے کا ہی کیوں دیکھے؟۔خیر جناب! دور پرے کے رشتہ داروں کو اطلاع ملتے ہی غریب رشتہ دار تھوڑا سا بین کر کے محلے والوں کو سنواتے ہیں پھر ان سے کرائے کے پیسے اگاڑنے شروع کردیتے ہیں ۔بعض دفعہ اگر ٹائم شارٹ ہو تو ٹیکسی کار کرا کر بھی مردے کے دیدار کو پہنچا جاتا ہے۔ ورنہ بس، وین یا ٹرین تو ہے ہی۔ مردے کے رشتے دار تمام مساجد میں اعلان کرا دیتے ہیں کہ جنازہ فلاں ٹائم پر اور فلاں جگہ پر ہے۔پچھلے دنوں جب نئے پرانے ٹائم کی پھسوڑی تھی تو مسئلہ ہی رہتا تھا کہ نیا ٹائم کہ پرانا۔ آس پڑوس والے لوگ اور رشتے دار عارضی حاضری لگواکر، انکے عزیزوں کو چہرہ دکھا کر کہ میں آیا تھا، پانچ دس منٹ میںہی رفو چکر ہو جاتے ہیں اور عین میت اٹھانے یا جنازے کے ٹائم پر مسکین مصلی کا سا منہ بنا کر آن وارد ہوتے ہیں کہ جیسے پرسوں سے میت کے ساتھ بندھے چلے آرہے ہوں۔ آنے والی خواتین مرنے والوں کے رشتے داروں کے گلے لگ کر نت نئے انداز میں بین کر رہی ہوتی ہےں ۔ میت پر بین ڈالنے کے اپنے ہی انداز ہوتے ہیں، بعض دفعہ تو یہ سارے راگ مل کر ایسا سماں باندھتے ہیں کہ بندہ اس بنے بنائے میوز ک پر بس گانا فٹ کردے تو گانا تیار۔ وہ کہتے ہیں نا کہ مردہ سب کچھ دیکھ او رسن رہا ہوتا ہے تو مردہ بیچارہ بھی شاید ان راگ پاٹ سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہوگا۔ ایسے موقعے پر موقعہ پرستوں کی موقع پرستیاں بھی مردے پر خوب آشکار ہوتی ہےں کہ سالوں نہ ملنے والے اقربا ءبھی با آوازِ بلند بکرے کی دھاڑ کی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر رونے کی ناکام کوشش کرہے ہوتے ہیں۔ کئی حضرات تو اسٹرپ سلز کی گولیاں جیب میں رکھتے ہیں کہ کہیں گلا خراب ہو کر آواز کلیئر نہ ہو تو ایک گولی چوس کر دوبارہ سے شروع ہو جاتے ہیں۔ مرحوم کی بیوہ کے تو کیا کہنے کہ دن رات میاں کو کوسنے دینے والی گلا پھاڑ پھاڑ کر اور عابدہ پروین کی طرح بال بکھیر ے ملنگ بن کر یوں بین ڈال رہی ہوتی ہے کہ جیسے لیلا کا مجنوں چلا گیا ہو۔ حالآنکہ دل ہی دل میں بڑبڑا رہی ہوتی ہے کہ اچھا ہوا بڈھے سے جان چھوٹی، سارا دن کھانس کھانس کر سر درد چڑھا دیتا تھا ۔رہی نا ہنجار اولاد کہ جس نے ساری عمر باپ کا کہا جوتے کی نوک پر رکھا، اس روز یہ حضرات بھی رونے دھونے کے چھکے چوکے مارنے میں پیچھے نہیں رہتے ۔ میرے خیال سے بیٹی صرف فردِ واحد ہوتی ہے کہ جسے باپ کے جانے کا حقیقی دکھ ہوتا ہے۔ باقی سب ہیر پھیر ہے۔ قرض دینے والوں کو اپنی فکر پڑی ہوتی ہے کہ پیسے نہ ڈوب جائیں اور وہ بار بار لواحقین کے سامنے سے گزرتے ہیں تاکہ انہیں یاد رہے۔ اکثر میتوں کے جنازے کے بعد لین دین کے ذمے دار وغیرہ کا اعلان بھی لازمی کرایا جاتا ہے جسے سنکر قرض دینے والے کی جان میں جان آجاتی ہے۔اسکے علاوہ میت دابنے اور تیجا ہونے کے بعد بڑے بڑے بیٹے صاحب یا کسی چھوٹے کو پگ پہنا کر گھر کا بڑا بنا دیا جاتا ہے چاہے وہ بیچارہ بوجھ اٹھانے کے قابل ہو کہ نہ ہو۔ بعض دفعہ اس امور پر اختلاف بھی ہو جاتا ہے کہ بڑے کو بڑا کیوں بنایا ، کام تو سارے چھوٹا کر تا ہے۔زمین جائیداد اور مکانوں کا بٹوارا بھی بعض جگہوں پر فورا ہی عمل میں لایا جاتا ہے۔ اکثر گاﺅں دیہات میں تو لوگ اپنے باپوں کو صرف زمین جائداد کی خاطر ہی قتل کردیتے ہیں اور اسمیں بہنوں کو اکثر انکے حصے سے محروم رکھا جاتا ہے۔

مرنے والی اگر کسی کی بیوی ہو تو لوگ میاں سے اظہارِ افسوس کر رہے ہوتے ہیں جبکہ میاں دل ہی دل میں شکر ادار کر رہا ہوتاہے کہ اچھا ہوا موٹی بھینس سے جان چھوٹی ،روز روز کی چک چک بک بک ختم ہوئی اور اسکے شاطر ذہن میں بہت سی دوسری کنواری لڑکیوں کے نام اور شکلیں گھوم رہی ہوتی ہیں کہ اگلا فال کس کے نام کا نکالوں ۔ یہ بیچارہ بار بار آکر میت کو جھانکتا ہے کہ کہیں کمبخت دوبارہ اٹھ کر نہ بیٹھ جائے اور تو اور کئی روز تک صبح شام قبرستان کے چکر بھی کا ٹتا ہے کہ کہیں فارمر بیوی موصوفہ قبر پھاڑ کر باہر ہی نہ نکل آئے اور اسکے تمام خواب ادھورے رہ جائیں۔ بلکہ ایک بار تو قبرستان کے چرسیوں اور نشیوں نے ایک میاں بیچارے کو گھیر لیا تم ضرور یہاں روزانہ بھر ی ہوئی سگریٹ کے سوٹے لگانے آتے ہوگے، لہذا ہمیں بھی ایک چرس بھر ی سگریٹ دو۔ بیچارے نے بڑی مشکل سے لے دلا کر جان چھڑائی اور پھر قبرستان کو ایسے بھول گیا جیسے یار لوگ گناہ کر کے یا پھر سیاستدانوں کے کالے کارنامے بھول جاتے ہیں۔ اس موقعہ پر تو اکثر کنواری لڑکیوں والے اسی میت والے گھر میں ڈیرے ڈال کر ایسے سگے رشتے دار بن جاتے ہیں کہ جیسے جنم جنم سے ساتھ ہوں اور ہلنے جلنے کا نام تک نہیں لیتے۔ اگر لڑکا اچھا اور شریف ہو تو لڑکیوں والے گلے کا ہار بن جاتے ہیں اور اگر بچے یا بچا ہو تو وہ بھی قبول ہو تا ہے کہ اسے گود سے نہیں اترنے دیتے۔ حالآنکہ کہاوت یہ ہے کہ : دوسرے کی بکری کو گھاس کوئی نہیں ڈالتا!۔

پھر جناب کچھ اقرباءقبر بنوانے کے بہانے ٹائم پاس کرنے قبرستان پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہو تا ہے کہ قبر کے ریٹ بھی کپڑے کی ورائٹی کی طرح مختلف ہیں۔ مثلا: قبر کی پہلی منزل کے ریٹ زیادہ اور نیچے والی منزل کے ریٹ ذرا کم ہوتے ہیں۔سایہ دار اور بغیر سایہ کے جگہ کے ریٹ بھی مختلف۔ پھر آخر کار گورکن سے ر یٹ طے ہو ہی جاتا ہے۔ تاہم اگر تمام کام جیسا کہ بیگ ورڈ اور دیہاتی علاقوں میں ہوتا ہے کہ قبر خود تیار کرنی ہو تو پھر کچی اینٹیں، مٹی کے گھڑے، پلاسٹک کی شیٹ، چٹائی یا سلیب، پانی ، تختی ، قبر کھودنے کے لیے کسیاں وغیرہ اور قبر کھودنے والے کا بندوبست بھی خود کر نا پڑتا ہے اور یوں قبر بھی ہزاروں میں جاکر پڑتی ہے۔

اب جناب ٹائم ہوا مردے کو نہلانے کا تو اس کے لیے بھی سپیشلائز قسم کا بندہ چاہئے ہوتا ہے جو کہ اکثر ناپید ہوتا ہے کہ مردے کو غسل دلانا بھی ایک ٹیکنکل کام ہوتا ہے کہ پہلے وضو بھی ذرا ٹیکٹیک سے کراکر پھر غسل دیا جاتا ہے۔ اسکے بعد اسے سفید کپڑے یعنی کفن دیا جاتا ہے اور اسکا پہنانے کا طریقہ بھی ذرا مختلف ہوتا ہے جو کہ ہر کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ پھر اس بیچارے کو اٹھانے کا وقت آتا ہے تو بھرے گھر میں موجود خواتین کے بین اور آوازیں سننے والی ہوتی ہےں کہ مختلف آوازیں مل کر عجیب سا ماحول پیدا کر رہی ہوتی ہیں اور پورے محلے کو پتہ لگ جاتا ہے کہ میت اٹھ چکی۔ یہ راگ پاٹ جنازہ گھر کے دروازے سے نکلنے تک جاری ر ہتا ہے۔جنازہ نکلنے کی دیر ہوتی ہے کہ سب ریلکس ہو کر کھانے کی انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں اور تمام خواتین گروپ کی صورت میں کپڑوں کے ڈیزائن یا دوسرے موضوعات پر گفت و شنید شروع کر دیتے ہیں تاکہ مائنڈ تبدیل اور ٹائم پاس ہو جاوے۔ پھر کھانا کھاکر موچھوں کو تاﺅ دیکر سب لوگ یہ جا وہ جا ۔البتہ جاتے جاتے سوئم کے بارے میں ضرور دریافت کرتے ہیں کہ وہاں بھی اکثر بڑے شہروں میں مرغ مسلم چلتا ہے۔ہم نے تو کئی لوگوں کو نہ صرف بمعہ اہل و عیال یہ طعام کرتے دیکھا بلکہ گھر میں رہ جانے والے افراد کے لیے شاپر میں کھانا لیجاتے بھی دیکھا ہے!

بڑے شہروں میں تو میت گاڑیاں میت قبرستان لیجانے کا کام سر انجام دیتی ہیں، تا ہم زیادہ تر علاقوں میں اس کام لیے میت چارپائی کا بندوبست کیا جاتا ہے اور پیدل ہی جنازے کو آخری آرامگاہ تک لیجایا جاتا ہے۔کچھ کام چور قسم کے لوگ جنازہ پڑھ کر ہی دائیں بائیں ہوجاتے ہیں اور آخر تک صرف قریبی گھر والے ہی رہ جاتے ہیں جو راستے بھر کلمہ شہادت کی آوازیں لگاتے مردے کو اسکی آخری آرامگاہ تک پہنچاتے ہیں۔ بعض دفعہ تو بندے کم ہونے اور راستہ لمبا ہونے کی صورت میں چند بندوں کو ہی یہ بوجھ سہارنا پڑتا ہے اور تھکے ترٹے بندے بیچارے کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح کوئی اور کندھا دینے والا بھی آجائے ، پر ایسے کم کم ہی ہوتا ہے خاص طور سے اگر مرگت گرمیوں کے سیزن میں ہو تو بندہ زیادہ

کندھا دینے سے ویسے ہی یرکتا ہے ۔بعض علاقوں میں تو جناب نمازِ جنازہ کے لیے اما م ڈھونڈنا بھی مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ ہم میں سے اکثر لوگ ٹھیک طرح سے کلمہ یا سورہ اخلاص بھی نہیں پڑھ سکتے تو نمازِ جنازہ کیسے یاد ہو گی۔کچھ ٹائم کے ناپابند حضرات عین جنازے کے ٹائم پر پہنچ کر امام صاحب کو تنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ تیار نمازِ جنازہ کسی خاص شخصیت کے فوٹو سیشن کے لیے کئی کئی گھنٹے لیٹ کر دی جاتی ہے۔ نمازِ جنازہ اور قبرستان لانے کے بعد میت کو قبر میں اتارنے کا بھی مسئلہ ہوتا ہے کہ کون اتارے گا۔ اسکے لیے بھی کسی قریبی عزیز کی مدد درکار ہوتی ہے یا پھر بیچارہ گورکن تو ہے ہی۔

جنازے کے بعد قلوں تک روٹی پانی کا بھی بہت مسئلہ ہوتا ہے ۔ مہنگائی کے مارے ہر جاننے والے خاندان کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ خرچہ میرے سر نہ پڑے اور جسیے ہی انہیں پتہ چلتا ہے کہ کسی نے روٹی دے دی ہے تو سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ پر ازراہے ہمدردی پوچھتے ضرور ہیں کہ کسی ٹائم کی روٹی ہمیں بھی دے دیں اور اگر کوئی بھی کسی ایک ٹائم کی روٹی نہ دے تو یہ آس پاس نظر ہی نہیں آتے کہ خرچہ گلے نہ پڑجائے ۔ اگر یہ خرچہ گلے آ بھی جائے تو انہیں ادھار شدھار لیکر یہ ونگار بھگتانی پڑتی ہے۔ اگر کوئی بھی کھانا نہ دے تو بیچارے میت والے گھر کو یہ انتظام خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ جو کہ ایک اور خرچے والا کام ہے۔ دور پرے اور محلے والے لوگ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ روٹی کھلے یا چلے تو وہ بھی اسمیں ہاتھ ڈالیںاور کھسکیں ۔ بعض جگہ پر میت کے بعد کی روٹی کو کوڑی روٹی بھی کہا جاتا ہے اور اگر کوئی نہ کھائے تو ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ویسے پہلے زمانے میں تو لوگ پورے تین دن تک سوگ مناتے اور گھر میں آگ نہیں جلاتے تھے ۔پر آجکل کے مصروف زمانے میں لوگ اگلے روز ہی قل کرکے جان چھڑانے کی کوشش کر تے ہیں۔ پھر جناب قلوں پر غریب سے غریب آدمی کو بھی کم از کم دو دیگیں تو چنوں کی پلاﺅ لازمی لگانی پڑتی ہے ۔ ورنہ امیروں کے ہاں میت ہو جائے تو تین روز تک مستقل مرغ مسلم چلتے ہیں اور محلے خاندان والوں کی عیاشی ہو جاتی ہے۔

غریب کے ہاں فوتگی ہو جائے تو وہ بیچارہ سارے کام ہی مانگ تانگ کر کرتا ہے اور ساتھ ساتھ دعا بھی کرتا ہے کہ اللہ کہیں میت نہ دِیو اور اگر دیو تو پہلے پیسے دیو۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے کئی لوگ تو میت کے لیے چندہ جمع کرتے بھی پائے گئے ہیں۔ میت پر دور پرے کے رشتے دار اور کچھ بزرگ اقرباءاقربا پروری کرتے ہوئے چالیسویں یعنی میت کے چہلم تک ضرور اس گھر میں پسرے رہتے ہیں تاکہ گھر والوں کو دلاسہ دیتے رہیں، حالا نکہ گھر والے دل ہی دل میں دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ جلدی سے جائے تو جان چھوٹے۔ بعض دفعہ تو کہیں شادی وغیرہ میں جانے کا بہانہ کر کے رشتے داروں کو بھگایا جاتا ہے۔غرضیکہ سوا ماہ تک گھر میں خوب غدر مچتا ہے اور لاکھوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ اکشر گاﺅں دیہات میں ایک رسم یہ بھی ہے کہ تین دن بعد بڑے قل ہوتے ہیں جس میں درجنوں دیگیں شادی بیاہ کی طرح چڑھائی جاتی ہیں اور اسمیں پورا گاﺅں ، خاندا ن اور دور پرے کے تمام رشتہ دارانوائٹڈ ہوتا ہے اور لاکھوں روپے بہہ جاتے ہیں ۔ بلکہ آجکل تو اس کام کے لیے بھی باقاعدہ کارڈ چھپوائے جاتے ہیں۔ تا ہم ہر آنے والا حسبِ حال کچھ نہ کچھ پیسے ضرور دیتا ہے، یا پھر کلو چینی کا ایک پیکٹ لازمی لاتا ہے جو کہ وہاں کے رسم و رواج کے مطابق ضروری ہوتا ہے۔

فوتگی کے بعد مرحوم کے نام کے کپڑے، جوتے، رومال، بنیان، ازار بند، لنگی، تولیہ، چادر وغیرہ کا دینا، چالیس روز تک مرحوم یا مرحومہ کے نام کا کھانا کہیں غریب کو دینا، ہر دسویں روز ختم قرآن کرانا، چالیس روز بعد چالیسواں اور دیگر بہت سی رسوم و روایات پر لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ ان تمام رسوم و رواج کو صرف اسلامی طور طریقو ں کی مطابق ادا کیا جائے نہ کہ دنیاوی دکھاوے کے لیے۔ نمود و نمائش سے بہتر ہے کہ مرحوم یا مرحومہ کی مغفرت کے لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ ، خیرات کیا جائے اور قرآن پڑھ کر مرحوم یا مر حومہ کی روح کو اسکا ثواب پہنچایا جائے۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247478 views self motivated, self made persons.. View More