بیٹی کی پیدائش اور پرورش

بارہا ایسا ہوتا ہے کہ بندہ جو طلب کرتا ہے وہ اُس کے حق میں بہتر نہیں ہوتا اور اُس کا سُوال پورا نہیں کیا جاتا۔ اُس کی منہ مانگی مُراد نہ ملنا ہی اُس کیلئے اِنعام ہوتا ہے ۔ مَثَلاً یہی کہ وہ اولادِ نرینہ مانگتا ہے مگر اُس کو مَدَنی مُنّیوں سے نوازا جاتا ہے اور یہی اُس کے حق میں بہتر بھی ہوتا ہے۔چُنانچِہ پارہ دوسرا سورۃُ البقرہ کی آیت نمبر 216 میںربُّ العِباد عزوجل کا ارشادِ حقیقت بنیاد ہے:
عَسٰۤی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ط
( پ٢ ،البقرۃ ٢١٦)

ترجَمہ کنزالایمان:قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بُری ہو۔

بیٹی کے فضائل
یا درکھئے! بیٹی کی فضیلت کسی طرح کم نہیں اس ضِمن میں مُلا حَظہ ہوں تین فرامینِ مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:-

(١)جس نے اپنی تین بیٹیوں کی پرورش کی وہ جنَّت میں جائے گا اور اسے راہِ خدا عزوجل میں اُس جہاد کرنے والے کی مِثل اَجْر ملے گا جس نے دورانِ جہاد روزے رکھے اورنَماز قائم کی۔ (التر غیب والترہیب، ج٣،ص٤٦،حدیث٢٦،دارالکتب العلمیہ بیروت)
(٢) جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اوروہ اُن کے ساتھ اچّھا سُلوک کرے تو داخِلِ جنَّت ہو گا۔
(جامع ترمذی، ج٣،ص٣٦٦،حدیث١٩١٩،دارالفکر بیروت)
(٣)جو شخص تین بیٹیوں یا بہنوں کی اس طرح پرورش کرے کہ ان کوادب سکھائے اور ان پر مہربانی کا برتاؤ کرے یہاں تک کہ اللّٰہ عزوجل انہیں بے نیاز کردے (یعنی وہ بالِغ ہوجائیں یا ان کا نِکاح ہوجائے یا وہ صاحِب مال ہوجائیں ) (اشعۃ اللمعات،ج٤،ص١٣٢)

تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنَّت واجِب فرمادیتاہے۔یہ ارشاد نبوی سُن کر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی،اگر کوئی شخص دو لڑکیوں کی پروَرِش کرے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ اس کیلئے بھی یِہی اَجر و ثواب ہے یہاں تک کہ اگر لوگ ایک کا ذِکر کرتے توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے ۔ ( شرح السنۃ للبغوی ،ج٦،ص٤٥٢،حدیث٣٣٥١)

اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رِوایَت فرماتی ہیں، میرے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو لے کر مانگنے کے لیے آئی (بعض مجبوریوں میں مانگنا جائز ہے یہ بی بی صاحِبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا انھیں مجبوریوں میں پھنسی ہوں گی اس لیے سوال درست تھا)
(مراٰۃ المناجیح،ج٦،ص٥٤٥)

تو ایک کھجور کے سوا اس نے میرے پاس کچھ نہیں پایا،وُہی ایک کھجور میں نے اس کو دے دی۔ تو اس نے اس ایک کھجور کو اپنی دو بیٹیوں کے درمیان تقسیم کر دیااور خود نہیں کھایا اوربیٹیوں کے ساتھ چلی گئی ۔ اِس کے بعد جب رسو ل اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے پاس تشریف لائے اور میں نے اس واقِعہ کا تذکِرہ حُضُور سے کیا ، تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا، جو شخص ان بیٹیوں کے ساتھ مُبتَلا کیا گیا اس نے ان بیٹیوں کے ساتھ اچّھاسُلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لئے آگ (جہنَّم ) سے پردہ اور آڑ بن جائیں گی۔( صحیح مسلم ،ص٤١٤،حدیث٢٦٢٩،دارابن حزم بیروت)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول اور سنّتوں بھرے اجتماعات میں رَحمتیں کیوں نازِل نہ ہو ں گی کہ ان عاشقانِ رسول میں نہ جانے کتنے اولیاء کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰیہوتے ہوں گے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، جماعت میں بَرَکت ہے اور دعائے مجمعِ مسلمین اقرب بقبول( یعنی مسلمانوں کے مجمع میں دعا مانگنا قبولیت کے قریب تر ہے) عُلَماء فرماتے ہیں ، جہاں چالیس مُسلمان صالِح( یعنی نیک)جَمع ہوتے ہیں اُن میں سے ایک ولیُّ اللّٰہ ضَرور ہوتاہے ۔
(فتاوٰی رضویہ تخریج شدہ ،ج ٢٤، ص١٨٤ ، تیسیر شرح جامِعِ صغیر ، تحت ا لحدیث ٧١٤،ج١،ص٣١٢،طبعۃ دارالحدیث ،مصر )

بِالفرض دُعاء کی قَبولیّت کا اَثر ظاہِر نہ ہو تب بھی حَرفِ شکایت زبان پر نہیں لانا چاہئے۔ ہماری بہتری کس بات میں ہے اِ س کویقینا اللّٰہ عزوجل ہم سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔ ہمیں ہر حال میں اُس کا شکر گزار بندہ بن کر رَہنا چاہئے۔ وہ بیٹا دے تب بھی اُس کا شکر ، بیٹی دے تب بھی شکر، دونوں ٢ دے تب بھی شکر اور نہ دے تب بھی شکر ہر حال میں شکر شکر اور شکرہی ادا کرنا چاہئے۔
پارہ ٢٥ سورۃُ الشُّوریٰ کی آیت نمبر ،٤٩اور ٥٠ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ط یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّیَھَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّ کُوْرَ0 اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّاِنَا ثًا ج وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًا ط اِنَّہ، عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ 0
( پ ٢٥ ،الشوریٰ ٤٩، ٥٠)

ترجَمہ کنزالایمان: اللہ ہی کیلئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے، جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اوربیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کر دے بیشک وہ علم و قدرت والا ہے۔

صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولٰینا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں،وہ مالِک ہے اپنی نِعمت کو جس طرح چاہے تقسیم کر ے جسے جوچاہے دے۔ انبیاء علیہم السلام میں بھی یہ سب صورَتیں پائی جاتی ہیں۔حضرتِ سیِّدُنا لُوط عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامو حضرتِ سیِّدُناشُعَیبعَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے صرف بیٹیاں تھیںکوئی بیٹا نہ تھا اور حضرتِ سیِّدُناابراھیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے صرف فرزند تھے کوئی دُختر ہوئی ہی نہیں اور سیِّدُالانبیاء حبیبِ خدا مُحمَّدِ مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ تعالیٰ نے چار فرزند عطا فرمائے اور چار صاحِبزادیاں اور حضرت سیِّدُنا یحیٰعَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے کوئی اولاد ہی نہیں۔
(خزائن العرفان ،ص ٧٧٧)

فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم اور عنایت سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
( عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم)
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371035 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.