بربادی کا تسلسل

وادی کشمیر کے دورے سے واپس آیا تو ملک میں اداروں،شخصیات کے درمیان اختلافات کی صورتحال دیکھنے میں آئی۔چیف جسٹس سپریم کورٹ چودھری محمد افتخار ،چیف آف آرمی جنرل اشفاق پرویزکیانی اور ایئر مارشل اصغر خان کیس کے حوالے سے جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ اور دوسرے افراد کے بیانات سے قومی اداروں،اعلی عہدوں پر فائز شخصیات کے درمیان عدم ہم آہنگی اور تشویش پائی گئی۔افواج پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ایک حصے کے طور پر ملک کے مختلف علاقوں میں برسر پیکار ہے،بلوچستان کی خطرناک صورتحال سے نمٹنے کے موثر اقدامات دیکھنے میں نہیں آر ہے،پاکستان کا یورپ کہلانے والا صوبہ نما شہر کراچی ہلاکتوں اور بدامنی کا شاہکار بن چکا ہے،پنجاب میں شہری ”چین کی بانسری “ بجانے کے صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔وفاق کے زیر انٹظام علاقوں میں قبائلی علاقہ جات کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی آتا ہے،آ زاد کشمیر اور گلگت بلتستان وفاق سے آئینی اختیارت میں اضافے کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں ۔حکومتی اور سرکاری سطح کی بد انتظامی،اقرباءپروری اور رشوت ستانی کے ماحول نے عام شہری کے مفاد کے تصور کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔افراط زر ،بنیادی سہولیات،غربت کے مارے عوام کو ناقابل برداشت مہنگائی کے ہاتھوں رسوا کرتے ہوئے کچلا جا رہا ہے۔ہر صوبے کے ہر علاقے میں طاقتور خاندان موجود ہیںجو سیاسی،انتظامی،حکومتی حوالے سے اپنے ناجائز مفادات کے تحفظ و ترویج کا سازگار ماحول رکھتے ہیں۔ان خاندانوں کے اپنے اسلحہ بردار گروپ موجود ہیں۔پولیس کا محکمہ اور اس کی کار گزاریاں عوام کے لئے عذاب کی صورت نازل ہیں۔ملک میں لینڈ مافیا کا چلن ہے،کوئی زمینوں پر قبضے کرتا ہے،کوئی محکموں،اداروں اور اور کوئی آئین و قانون کے حوالے سے بڑا قابض ثابت ہوتا ہے۔

ملک میںحقیقی سیاسی جماعتیں موجود نہیں جو ملک و قوم کو درپیش ان سنگین ترین خطرات میں عوام کی نگہبانی کرتے۔جنرل(ر) ایوب خان کی ”کرم نوازیوں“ کی بدولت آج ملک میں سیاسی جماعتوں کے بجائے خاندانی،شخصی،علاقائی اور فرقہ واریت کی بنیاد پر گروپ موجود ہیں۔فوجی اقتدار کے حامی عناصر موجود ہ سیاسی بد اعمالیوں کو جواز بناتے، اپنی تنقید کو تیز کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ جب حکومت نے ہر معاملے میں فوج کو ہی استعمال کرنا ہے تو پھر کیوں نہ فوج ہی’ ڈرائیونگ سیٹ‘سنبھال لے؟جبکہ ہمارے معزز ٹی وی اینکرز اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اب کی تمام نام نہاد سیاست ایوب،ضیاءاور مشرف کی پیدا کردہ ہے۔یوں موجودہ سیاسی پراگندگی جمہوریت کے بجائے ’ملٹری ڈیموکریسی‘ کی بدترین صورتحال کے طور پر ملک و عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔جنرل ایوب نے جس طرح تمام پاکستانی عوام کی پر فخر بھرپورنمائندگی کرنے والی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو جس طرح دھونس ،زبر دستی کے ذریعے ’کارنر‘ کیا اور ملک و عوام کے مفاد پریقین رکھنے والے سیاسی کارکنوں کے بجائے ناجائز کمائی کے دھندے کے طور پر اس میدان میں آنے والے سیاست کاروں کا چلن اپنایا،اور جس طرح جنرل ضیاءاور جنرل مشرف نے جنرل ایوب کے ’منفی سیا سی ہتھکنڈے ‘ اپناتے ہوئے اس سلسلے میں اپنے نئے طر یقے بھی متعارف کرائے،اس سے ہماری سیاست ملکی مفادات کی سوچ اور ادراک رکھنے والوں کے بجائے ایسے لوگوں کے اختیار میں آگئی جو اقتدار و اختیار ات کو ذاتی،خاندانی مادی مفادات کے حصول کا ذریعہ سمجھنے پر ایمان رکھتے ہیں،جائز ناجائز کوئی معنی نہیں رکھتا،ہمارے ملک میںصاحب اقتدار و اختیار کا ہی یہ حق قرار پاتا کہ وہ جسے درست قرار دے وہی قومی مفاد اور صحیح ہے۔آج کے بعض سیاست دان کیا بھولے ہیں ، انہیں کس بات پہ اعتماد ہے؟مادر ملت ماطمہ جناح کے ساتھ جو سلوک کیا گیا جن کی پشت پر تمام عوام موجود تھی تو آج ایسا کون ہے جو بقول شیخ رشید احمد عسکری حلقوں کی کیاریوں میں تیار نہیں ہوا یا ان سے مستفید نہیں ہوا۔ان لوگوں پر سیاست کے دروازے بند کر دیئے گئے جو پاکستان کے قیام د کو ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے چلے آ رہے ہیں۔

برصغیر کی قدیم تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ خطہ ہے جہاں تبدیلی بھی جمود کی مانند وقوع پذیرہوتی ہے۔جنوبی ایشیاءکے اس خطے میں ایک ہزار سال کا عرصہ ایسا بھی گزرا ہے کہ جس میں کوئی نئی ایجاد تو درکنارپہیہ بھی جیسا تھا ویسا ہی رہا۔غلے کی فراوانی تھی اور لوگ اسی میں مطمئن تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وسط ایشیا میں تبدیلی آئے اور افغانستان اور پاکستان اس سے متاثر نہ ہوں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے حالات و واقعات سے ہندوستان محفوظ رہے،جسے ترقی یافتہ ممالک سرمایہ کاری کے لئے محفوظ تصور کر رہے ہیں۔

عید کے دن سے میں نے اپنا سفر نامہ”آبائی وطن وادی کشمیر میں 28 دن“ لکھنا شروع کیا۔خیال تھا کہ کچھ دن اور گزرے تو کئی باتیں بھولتے ہوئے لکھنے سے رہ جائیں گی اور یوں اس سفر نامے کے بیان کے اظہار کے حقیقی تاثرات محو ہوتے چلے جائیں گے۔یہ سفر نامہ لکھنے میں مجھے چھ دن لگے،رات کو اپنے خیالات مرکوز کرتے ہوئے کئی گھنٹے مسلسل اپنے” لیب ٹاپ“ پہ انگلیاں چلاتے ہوئے اپنے دورہ کشمیر کے واقعات و احساسات اردو ٹائپنگ کے ذریعے احاطہ تحریر میں لاتا رہا۔داستان مکمل ہوئی تو معلوم ہوا کہ سفر نامہ کافی طویل ہو گیا ہے،لکھنا اور کہنا تو اور بھی بہت کچھ چاہتا تھا لیکن مضمون کی طوالت دیکھ کر اس سفر نامے میں اضافے کا خیال ترک کر دیا۔یہ سفر نامہ کئی اخبارات اور نیوز ویب پورٹلز میں شائع ہوا ۔سفر نامے کے شائع ہوتے ہی مجھے روزانہ کئی ٹیلی فون موصول ہونے لگے جو مجھے اس سفر نامے کو پڑھ کر فون کرتے تھے۔اکثر نے کہا کہ آپ نے منظر کشی اور اپنے احساسات خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے ہمیں یہاں بیٹھے ہی جنت نظیر وادی کشمیر کی سیر کرا دی ہے۔ کئی اصحاب نے اس سفر نامے کو کتاب کی صورت شائع کرنے کی بات کہی۔درجنوں دوستوں،اصحاب نے مختلف ذرائع سے میرے اس سفر نامے پر اپنے گہرے جذبات کا اظہار کیااوریوں کشمیر سے اپنی والہانہ ناکام محبت کا ذکر کیا کہ مجھے اک شعر یاد آ گیا ،
اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں میری رسوا
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں

چند دن قبل میرے موبائل فون پر گھنٹی بجی،دو مرتبہ بیل کے بعد فون خاموش ہو گیا،میں نے نمبر پر نظر ڈالتے ہوئے سوچا کہ ابھی کام سے فارغ ہو کر اس نمبر پر فون کرتا ہوں۔چند منٹ بعد اسی نمبر سے دوبارہ کال آئی،میں نے فون اٹھایا تو کوئی صاحب کہہ رہے تھے کہ انہوں نے میرا سفر نامہ پڑھ کر مجھے فون کیا ہے،اس نے کہا کہ میں آپ کا ٹیلی فون نمبر اپنے فون میں محفوظ کر رہا تھا کہ آپ کو کال چلی گئی،نمبر محفوظ کر کے اب فون کر رہا ہوں۔اس نے بتایا کہ وہ پمز ہسپتال اسلام آباد سے فون کر رہا ہے۔اس نے کہا کہ اس کا ایک ماہ کا بچہ تقریبا ایک ماہ سے ہسپتال میں زیر علاج ہے۔آہستہ اور ٹہر ٹہر کر بولنے والے میرے اس قاری نے بتایا کہ بچے کی پیدائشی طور پر انتڑیوں میں خرابی تھی،وہ بچہ دو یا تین دن کا تھا کہ اس کے والدین اسے اسلام آباد کے پمز ہسپتال لے آئے اور اب وہ ایک ماہ سے اپنے نوعمر بچے کی بیماری کی پریشانی اور اس کا صدمہ لئے غیر شہر کی بے اعتنائیاں جھیل رہے تھے۔پھر معلوم ہوا کہ کوٹلی کا رہنے والا میرا وہ قاری ،محمد فاروق گوھر خود بھی صحافی ہے۔میں سوچنے لگا کہ اس کے دل میں کشمیر سے کتنی محبت ہے کہ اس کا لخت جگر شدید بیمار ہے اور اس حالت میں اس نے ہسپتال سے ہی مجھے فون کر کے وادی کشمیر کے اس سفر نامے سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ایک دو دن بعد مجھے مظفر آباد سے پروفیسر شفیق کا ٹیلی فون آیا۔اس فون کا موجب بھی میرا یہی سفر نامہ تھا۔پروفیسر صاحب کے کلمات میرے لئے باعث افتخار ہیں۔ پروفیسر شفیق بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر اور لداخ ،کرگل کا تفصیلی دورہ کر چکے ہیں انہیں کئی بار وہاں جانے کا موقع ملا اور انہوں نے جموں،وادی کشمیر اورلداخ و کرگل کا ہر علاقہ چھان مارا۔پروفیسر صاحب کی باتیں سن کر مجھے ان پر رشک آنے لگا۔میں نے کہا کہ میری نظر میں آپ یہاں کی وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں جموں،وادی کشمیر ،لداخ اور کرگل تفصیلی طور پر دیکھنے کا موقع ملا ہے تو آپ نے اس بارے میں کچھ لکھا کیوں نہیں؟ اس پر پروفیسر شفیق قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ بات ملاقات پر بتاﺅں گا۔

پنجاب کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے ’یوم اقبال‘ کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ
”غریب کی زندگی تنگ ہو گئی ہے،لوگ انقلاب چاہتے ہیں“۔واقعی پاکستان کے عوام کی زندگی کو بد سے بدتر بنا دیا گیا ہے۔ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات تو ایک طرف ہمارے پالیسی سازوں کی پالیسیوں نے آج پاکستان اور اس کے عوام کو جس حال میں پہنچا دیا ہے ،وہی اختیارات ، احترام و وقار کے حوالے سے شاکی ہیں۔فوج وہی کامیاب رہتی ہے جس کی نگہبان عوام اور حکومت ہوتی ہے،کوئی حکومت اور عوام سے ہو کر ہی فوج تک پہنچ سکتا ہے۔لیکن اگر فوج ’فرنٹ لائین‘ پر آ جائے تو حکومت اور عوام کے لئے اس کا دفاع خواہش و کوشش کے باوجود ممکن نہیں ہو سکتا۔خرابیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اب ملک میں آئین و قانون کی اداروں،شخصیات پر مکمل بالا دستی،عوامی مفاد کی ترجیح کے خواب کی تعبیر کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا جس کی روشنی کی کرن میں تبدیل ہونے کی امید کی جاسکے۔بات مایوسی پھیلانے کی نہیں بلکہ اس سنگین صورتحال کا ادراک کرنے کی ہے جو بدکرداریوں کے عریاں نظاروںوالی پالسیوں سے ملک و عوا م کو رسوا اور برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

ادب کے ایک شاہکار ،نوبیل انعام یافتہ روسی ناول ”ڈاکٹر ژواگو“ میں مصنف ا نقلاب روس کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ” انقلاب اتنا تکلیف دہ عمل ہے کہ جیسے کسی زندہ انسان کے جسم سے اس کا گوشت ہڈیوں سے کھینچ کر اتارا جائے اور پھر ہڈیوں پر دوسرا گوشت چڑہایا جائے“۔عوام کی عزت جانے کے بعد اب کھال تو اتر رہی ہے لیکن پاکستانی عوام جسم کی ہڈیوں سے گوشت کھینچ کر اتارے جانے کے قابل تو نہیں ہیں،یہ تو چند طالع آزماﺅں کی کارستانیاں ہیں جن کی بد اعمالیوں کو روایت بناتے ہوئے مملکت خداد داد پاکستان کو اس حال میں پہنچادیا ہے کہ جہاں غیر یقینی ہی غیر یقینی ہے۔دیکھنا تو یہ بھی ہے کہ انقلاب لانے اور اس کی حمایت کرنے والے کس عذاب مسلسل سے گزرتے ہیں کہ وہ انقلاب کے اس تکلیف دہ عمل پر راضی ہو جاتے ہیں جس کی تکالیف اور مصائب کے بعد تبدیلی بھی بے معنی ہو جاتی ہے۔

میں وادی کشمیر کے اٹھائیس روزہ دورے سے واپس آ کر بھی وصل عشق میں کھویا رہا،اپنی تصاویر دیکھتا تو کشمیر کے انہی مناظر کے لطف میں گم ہو جاتا،اپنا سفر نامہ پڑہتا تو کئی مزید واقعات یاد آ جاتے جو لکھنے سے رہ گئے،کوئی مجھ سے مخاطب ہوتا تو میں کہتا کہ میرا ذہن ابھی کشمیر میں ہی ہے۔لیکن موبائل فون سے بھیجے گئے ایک چھوٹے سے میسج نے مجھے وادی کشمیر کی حسین یادوں کی رنگینیوں سے پاکستان کے اس بدبو دار ٹینشن زدہ ماحول میں لاپھینکا جہاں مقاصد پاکستان کی سوچ رکھنے والوں کو نشان عبرت بنا دینے کی روایت حب الوطنی قرار پاتی ہے۔تین دن پہلے کی بات ہے کہ میں نے اپنے فون پر آنے والے فاروق گو ھر کے ایک ’ایس ایم ایس‘ کو کھول کو پڑھا، لکھا تھا ” بچہ فوت ہو گیا ہے“۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699562 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More