پاکستان کا تعلیمی نظام

تعلیم کی اہمیت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ تعلیم کسی بھی قوم کو پروان چڑھانے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔تعلیم بناء ترقی فقط خواب کہا جائے توبے جاء نہ ہو گا۔گر کسی قوم کے مستقل کو پختہ بنایاجاسکتا ہے تو فقط تعلیم ہی کی بدولت۔اس لیے کسی بھی قو م کے روشن مستقبل کیلئے نظام کو انتہائی سنجیدہ طریقے سے اپنانا ضروری ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کے بیشتر شعبہ جات قیام پاکستان سے اب تک چونسٹھ برس گزر جانے کے بعد بھی مختلف ادھورے تجربات کا شکار ہیں اور شعبہ تعلیم کا شمار بھی اسی فہرست میں ہوتا ہے۔اس حساس مگر انتہائی اہمیت کے حامل شعبے میں اول تو کبھی خاص توجہ نہیں دی گئی اوراگر کبھی کسی کو بھولے سے خیال آ بھی گیا تو انتہائی ناقص اقدامات کیے گئے جس کے باعث ایک منظم نظام کی تشکیل میں رکاوٹیں حائل ہو گئیں اور یہ شعبہ ابھی تک ایک منظم نظام سے محروم ہے۔

چونسٹھ برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ ہمارا ذریعہ تعلیم کیا ہونا چاہیے؟ ہمارے نصاب تعلیم میں کن تبدیلیوں کو بروئے کار لا نے کی ضرورت ہے؟نظام کی یہ خستہ حالت ہمارے تاریک مستقبل کا پتہ دیتی ہے۔ ایک ہی ملک میں مختلف نظامِ تعلیم اور طریقہ تعلیم رائج ہیں۔ تعلیم کے نام پر کی جانے والی اصلاحات محض سیاسی نعروں کی حیثیت رکھتی ہیں جو صاحبِ اقتدار طبقہ اپنی بیش بہا شہرت کیلئے بلند کرتا رہتا ہے۔کتابیں مفت تقسیم کرنے سے غریب بچے اعلٰی تعلیم معیاری نصاب اور باسہولت درسگاہوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم’’برائے فروخت‘‘ چیزبن کر رہ گئی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ کسی بھی ملک کے تعلیمی شعبہ کودفاع اور معیشت سے بڑھ کر اہمیت حاصل ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں یہ شعبہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔اگر کسی حکومت نے تعلیمی شعبہ میں دوررس نتائج کے حامل اقدامات کیے بھی تو دوسری آنے والی حکومت نے اسے نامنظور قرار دے دیااور اب صورت حال یہ ہے کہ ایک ہی ملک میں کئی اقسام کے نظام تعلیم رائج ہیں۔ہر سکول اپنی مرضی کا نصاب منتخب کئے ہوئے ہے۔سرکاری اسکولوں کے نصاب کا تو یہ حال ہے کہ نسل در نسل ایک ہی سبق رٹا لگوایا جاتا ہے۔اور یہ اسکول محض غریب طلبہ کے لیے ہیں۔جہاں صحت مند ماحول اور تعلیمی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع موجود نہیں۔یہ بات قابل افسوس ہے کہ حکومت کے زیر اثر اسکولوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔بے شمار اسکول تو ایسے ہیں جن کا اندراج حرف کا غذوں کی حد تک ہے مگر زمین پر ان کا وجود نہیں۔

اسکے برعکس کاروباری ذہن رکھنے والے افراد میدان میں اترے اور انہوں نے معمولی سرمایہ لگا کر انگلش میڈیم کے لیبل سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ ہر گلی محلہ میں اسکولوں کی بھرمار ہے۔انہی سکولوں سے میٹرک کر نے والے طالب علم کو چند سوروپوں کے عوض استاد رکھ لیا جاتا ہے۔گوء کہ ذریعہ تعلیم انگریزی ہوتا ہے مگر غیر تجربہ کار اساتذہ کے باعث حوصلہ افزاء نتائج برآمد نہیں ہو پاتے۔ ایک ناخواندہ فرد بھی سرمایہ کی خاطر کسی بھی گلی کوچے میں سکول قائم کر لیتا ہے۔ ان اسکولوں میں تعلیم کی کیا صورت حال ہے؟

اب ان اسکولوں کی کار کردگی پر نظر ڈالتے ہیں جہاں قوم کی کل آبادی کا صرف ایک فیصد سے بھی کم بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ان سکولوں میں انتظامیہ اعلٰی تعلیم اور وسیع تجربے کی حامل ہوتی ہے۔ جدید سہولتوں سے مزین ان اسکولوں میں بچوں کے ذہنی اور جسمانی ضرورتوں کو مدنظم رکھتے ہوئے تعلیمی ماحول میسر کیا جاتا ہے۔مگر یہ مہنگے اسکول خاص طبقہ تک ہی محدود ہیں۔

یہ ہمارے ملک کی تعلیم کا حال ہے کہ کوئی ایک تعلیمی نظام موجود نہیں جبکہ بھارت،سری لنکا وہ ممالک ہیں جنہوں نے تعلیم کے میدان میں انقلابی تبدیلیاں کیں۔ان ممالک میں تمام طبقات خواہ غریب ہو یا امیر کے لیے یکساں نظام تعلیم موجود ہے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ممالک کے نوجوان دنیا بھر کے نامور اداروں میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

اسکے برعکس حکومت پاکستان نے تعلیمی مسائل سے لا تعلقی اختیار کیے رکھی۔ ہر باشعور قوم زمانے کے ساتھ ساتھ نظام تعلیم میں تبدیلیاں کرتی رہتی ہے۔لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران تعلیمی میدان میں بہتری لانے کے لیے اعلٰی سطح پر اقدامات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔جبکہ اکیسویں صدی میں ترقی کی راہوں پر گامزن اقوام کے قدم سے قدم ملانے کے لیے یکساں تعلیم کی راہ میں موجود رکاوٹیں دور کرنانہایت ضروری ہیں۔

ہمارے تعلیمی اداروں کا اولین مقصد یہی ہونا چاہیے کہ وہ طالب علموں کو اچھی علمی فضااور نظامِ تعلیم فراہم کرے کہ جس میں تعلیم جدید تحقیق اور بحث و مباحثہ جیسے عوامل موجود ہوں۔تعلیم یافتہ اقوام کیلئے تعلیمی ادارے انہی بنیادوں پر قائم ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ حکومتِ پاکستان نے ہر دور میں مختلف تعلیمی اصلاحات متعارف کروائیں لیکن جب تک یکساں نظام کے لیے کوشش نہیں کی جائے گی تب تک کسی بھی نوعیت کی تعلیمی اصلاحات فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی۔تعلیم نہ صرف جدید علوم و فنون سے روشناس کرواتی ہے بلکہ انسان کو انسانیت کی معراج تک پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔جب یکساں بنیادوں پر علم فراہم کیا جائے گا تو غربت بھی کسی طالب علم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔یہ فرض بھی ریاست پر عائد ہوتا ہے کہ وہ ہر بچے کیلئے مساوی تعلیم کی فراہمی کا بندوبست کرے۔

مگر کیا کہئے اس حکومت کے جس میں پے در پے ڈگریوں کے خریدار برآمد ہو رہے ہیں ۔ہم ایوان بالا اور ایوان زیریں میںبیٹھے ان جعلی ڈگری ہولڈر ،کرپٹ مگر عوام کے منتخب کردہ نمائندوں پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے۔
’’ہنوز دہلی دور است‘‘
سمیعہ رشید بنت
About the Author: سمیعہ رشید بنت Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.