تین بہادر بھائی

تین بہاد ربھائی
محترم قارئین ماہ ِ محرم الحرام جذبہئ ایثار و قربانی اور بڑی فضیلتوں کا حامل ہے جس میں عظیم شہیدوں کی یاد منائی جاتی ہے اور انکی قربانی اور ایثار سے قلوبِ امت ِمسلمہ منورہوتے ہے۔ اسلام کی سربلندی کے لئے مسلمانوں نے بے حد قربانیاں دی جن کو پڑھ کر ہمارے ایمان تازہ ہوجاتے ہیں ۔آئیے!جذبہ ایمانی سے لبریزتین نوجون بھائیوں کی ایمان افروز داستان پڑھتے ہیں۔

علامہ ابو الفَرَج ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عیون الحکایات میں نقل کرتے ہیں ،'' تین شامی گھڑسوار بہادر نوجوان بھائی اسلامی لشکر کے ساتھ جہاد پرروانہ ہوئے، لیکن وہ لشکر سے الگ ہو کر چلتے اور پڑاؤ ڈالتے تھے ۔ اور جب تک کفار کا لشکر ان پر حملہ میں پہل کرتا وہ لڑائی میں حصہ نہیں لیتے تھے ۔ ایک مرتبہ رومی ( عیسائیوں ) کا ایک بڑا لشکر مسلمانوں پر حملہ آورہوا اور کئی مسلمانوں کو شہیداور متعدد کوقیدی بنا لیا۔ یہ بھائی آپس میں کہنے لگے ، '' مسلمانوں پر ایک بڑی مصیبت نازل ہو گئی ہے ہم پر لازم ہے کہ اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر جنگ میں کود پڑیں، یہ آگے آئے اورجو مسلمان باقی بچے تھے ان سے کہنے لگے،'' تم ہمارے پیچھے ہو جاؤ اور ہمیں ان سے مقابلہ کرنے دو۔ اگر اللہ عزوجل نے چاہا تو ہم تمہارے لئے کافی ہوں گے۔پھر یہ رومی لشکر پر ٹوٹ پڑے اور رومیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ رومی بادشاہ ( جو ان تینوں کی بہادری کا منظر دیکھ رہا تھا) اپنے ایک جرنیل سے کہنے لگا،'' جو ان میں سے کسی نوجوان کوگرفتار کر کے لائے گا میں اسے اپنا مقرب اور سپہ سالار بنا دوں گا۔'' رومی لشکر نے یہ اعلان سن کر اپنی جانیں لڑا دیں اور آخر کار ان تینوں بھائیوں کو بغیر زخمی کئے گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ رومی بادشاہ بولا، ان تینوں سے بڑھ کرکوئی فتح اور مال غنیمت نہیں، پھر اس نے اپنے لشکر کو روانگی کا حکم دے دیااور ان تینوں بھائیوں کواپنے ساتھ اپنے دارالسلطنت قسطنطنیہ لے آیااور ان کو عیسائی ہونے کے لئے کہا اور بولا، اگر تم عیسائی ہو جاؤ تو میں اپنی بیٹیوں کی شادی تم سے کر دوں گا ا ور آئندہ بادشاہت بھی تمہارے حوالے کر دوں گا۔ ان بھائیوں نے ایمان پرثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی یہ پیشکش ٹھکرادی اور سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پکارا اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے استغاثہ کیا(یعنی فریاد کی)بادشاہ نے اپنے درباریوں سے پو چھا یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ درباریوں نے جواب دیا،'' یہ اپنے نبی کو پکار رہے ہیں، بادشاہ نے ان بھائیوں سے کہا،'' اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تین دیگوں میں تیل خوب کڑکڑا کر تینوں کو ایک ایک دیگ میں پھنکوا دونگا۔'' پھر اس نے تیل کی تین دیگیں رکھ کر ان کے نیچے تین دن تک آگ جلانے کا حکم دیا۔ ہر دن ان تین بھائیوں کو ان دیگوں کے پاس لایا جاتا اور بادشاہ اپنی پیشکش ان کے سامنے رکھتا کہ عیسائی ہو جاؤ تو میں اپنی بیٹیوں کی شادی بھی تم سے کردوں گا اور آئندہ بادشاہت بھی تمہارے حوالے کر دونگا۔ یہ تینوں بھائی ہر بار ایمان پر ثابت قدم رہے اور بادشاہ کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ تین دن کے بعد بادشاہ نے بڑے بھائی کو پکارا اور اپنا مطالبہ دُہرایا، اس مردِ مجاہد نے انکار کیا۔ بادشاہ نے دھمکی دی میں تجھے اس دیگ میں پھنکوا دونگا۔ لیکن اس نے پھربھی انکارہی کیا۔ آخر بادشاہ نے طیش میں آ کر اسے دیگ میں ڈالنے کا حکم دیا جیسے ہی اس نوجوان کو کھولتے ہوئے تیل میں ڈالا گیا، آناً فاناً اس کا سب گوشت پوست جل گیا اور اس کی ھڈیاں اوپر ظاہر ہوگئیں، بادشاہ نے دوسرے بھائی کے ساتھ بھی اسی طرح کیا اور اسے بھی کھولتے تیل میں پھنکوا دیا۔ جب بادشاہ نے اسقدرکڑے وقت میں بھی اسلام پرانکی استقامت اور ان ہوش ربا مصائب پر صبر دیکھا تو نادم ہو کر اپنے آپ سے کہنے لگا،'' میں نے ان (مسلمانوں) سے زیادہ بہادر کسی کونہ دیکھا اور یہ میں نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ پھر اس نے چھوٹے بھائی کو لانے کا حکم دیا اور اسے اپنے قریب کر کے مختلف حیلے بہانوں سے ورغلانے لگالیکن وہ نوجوان اس کی چالبازی میں نہ آیا اور اس کے پائے ثبات میںذرہ برابرلغزش نہ آئی ، اتنے میں اس کا ایک درباری بولا، '' اے بادشاہ اگر میں اسے پُھسلا دوں تومجھے انعام میں کیا ملے گا؟ بادشاہ نے جواب دیا،'' میں تجھے اپنی فوج کاسپہ سالار بنا دونگا۔ وہ درباری بولا مجھے منظور ہے، بادشاہ نے دریافت کیا،'' تم اسے کیسے پھسلا ؤ گے؟ درباری نے جواباً کہا،'' اے بادشاہ تم جانتے ہو کہ اہل عرب عورتوں میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ بات سارے رومی جانتے ہیں کہ میری فلانی بیٹی حسن و جمال میں یکتا ہے او ر پورے روم میں اس جیسی حسینہ کوئی اور نہیں۔ تم اس نوجوان کو میرے حوالے کر دو مبں اسے اور اپنی اس بیٹی کو تنہائی میں یکجا کر دونگا اوروہ اسے پھسلانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ بادشاہ نے اس درباری کو چالیس دن کی مدت دی اور اس نوجوان کو اس کے حوالے کر دیا، وہ درباری اسے لیکر اپنی بیٹی کے پاس آیا اور سارا ماجرا اسے کہہ سنایا۔ لڑکی نے باپ کی بات پر عمل پیرا ہونے پر رضا مندی کا اظہار کیا، وہ نوجوان اس لڑکی کے ساتھ اس طرح رہنے لگا کہ دن کو روزہ رکھتا رات بھر نوافل میں مشغول رہتا۔ یہاں تک کہ مقررہ مدت ختم ہونے لگی تو بادشاہ نے اس لڑکی کے باپ سے نوجوان کا حال دریافت کیا۔ اس نے آ کر اپنی بیٹی سے پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ میں اسے پھسلانے میں ناکام رہی یہ میری طرف مائل نہیں ہو رہا شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دونوں بھائی اس شہر میں مارے گئے اور انکی یاد اسے ستاتی ہے لہٰذا بادشاہ سے مہلت میں اضافہ کروا لو اورہم دونوں کو کسی اور شہر میں پہنچا دو۔ درباری نے سارا ماجرا بادشاہ کو کہہ سنایا۔ بادشاہ نے مہلت میں اضافہ کر دیا اور ان دونوں کو دوسرے شہر پہنچانے کا حکم دے دیا۔ وہ نوجوان یہاں بھی اپنے معمول پر قائم رہا یعنی دن میں روزہ رکھتا اور رات بھر عبادت میں مصروف رہتا، یہا ں تک کہ جب مہلت ختم ہونے میں تین دن رہ گئے تو وہ لڑکی بے تابانہ اس نوجوان سے عرض گزار ہوئی،'' میں تمہارے دین میں داخِل ہونا چاہتی ہوں اور یوں وہ مسلمان ہو گئی پھر انہوں نے یہاں سے فرار ہونے کی ترکیب بنائی وہ لڑکی اصطبل سے دو گھوڑے لائی اور اس پر سوار ہو کر یہ اسلامی سلطنت کی طرف روانہ ہو گئے۔ ایک رات انہوں نے اپنے پیچھے گھو ڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنی ۔ لڑکی سمجھی کہ عیسائی سپاہی ان کا پیچھا کرتے ہوئے قریب آ پہنچے ہیں۔اس لڑکی نے نوجوان سے کہا، '' آپ اس رب سے جس پر میں ایمان لاچکی ہوں دعا کیجئے کہ وہ ہمیں ہمارے دشمنوں سے نجات عطا فرمائے، نوجوان نے پلٹ کر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ اس کے وہ دونوں بھائی جو شہید ہو چکے تھے فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ ان گھوڑوں پر سوار ہیں ۔ اس نے ان کو سلام کیا پھر ان سے ان کے احوال دریافت کئے وہ دونوں کہنے لگے ۔ ہم ایک ہی غوطے میں جنت الفردوس میں پہنچ گئے تھے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں تمہارے پاس بھیجا ہے اس کے بعد وہ لوٹ گئے ۔ اور وہ نوجوان اس لڑکی کے ساتھ ملک شام پہنچا اور اس کے ساتھ شادی کر کے وہیں رہنے لگا۔ ان تین بہادرشامی بھائیوں کا قصہ ملک شام میں بہت مشہور ہوا اور ان کی شان میں قصیدے کہے گئے جن کا ایک شعر یہ ہے ؎
سَیُعطِی الصَّادِقینَ بِفَضلِ صِدقٍ
نَجَاۃً فی الحَیَاۃِ وَ فِی المَمَاتِ
ترجمہ: عنقریب اللہ تعالیٰ سچوں کو سچ کی برکت سے زندگی اور موت میں نجات عطا فرمائے گا۔ ( عیون الحکایات ص ١٩٧،١٩٨ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

محترم قارئین! دیکھا آپ نے ان تینوں شامی بھائیوں نے ایمان پر استقامت کا کیسازبردست مظاہرہ کیا، ان کے دلوں میں ایمان کس قدرراسخ ہو چکا تھا، یہ عشق کے صرف بلندبانگ دعوے کرنے والے نہیں حقیقی معنیٰ میں مخلص عاشقانِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم تھے۔ دونوں بھائی جام شہادت نوش کر کے جنت الفردوس کی سرمدی نعمتوں کے حقدار بن گئے۔اور تیسرے نے روم کی حسینہ کی طرف دیکھا تک نہیں اور دن رات رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مصروف رہا اور یوں جو بہ نیت شکار آئی تھی خود اسیر بن کررہ گئی ۔ ا س حکایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشکلات میں سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے مدد چاہنا اور یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پکارنااہلِ حق کاقدیم طریقہ رہا ہے۔
یا رسول اللہ کے نعرے سے ہم کو پیار ہے
ان شاء اللہ عزوجل دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
راحتِ دنیا کے منہ پرٹھوکرماردی

اُس شامی نوجوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عزم و استِقلال اوراس کی ایمان پر استِقامت مرحبا! ذراغور تو فرمایئے! نگاہوں کے سامنے دو پیارے پیارے بھائی جامِ شہادت نوش کر گئے مگر اس کے پائے ثَبات کو ذرا بھی لغزِش نہیں آئی نہ دھمکیاں ڈرا سکیںنہ ہی قید و بند کی صُعُوبتیں اسے اپنے عزم سے ہٹاسکیں۔ حق و صداقت کا حامی مصیبتوں کی کالی کالی گھٹاؤں سے بالکل نہ گھبرایا۔ طوفانِ بلا کے سیلاب سے اس کے پائے ثَبات میں جُنبش تک نہ ہوئی ۔ خداو مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا شیدائی دنیا کی آفتوں کو بالکل خاطر میں نہ لایا۔ بلکہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں پہنچنے والی ہر مصیبت کا اس نے خوش دلی کے ساتھ خیر مقدم کیا، نیز دنیا کے مال اور حُسن وجمال کالالچ بھی اس کے عزائم سے اس کو نہ ہٹا سکا اور اس مردِ غازی نے اسلام کی خاطر ہر طرح کی راحتِ دنیا کے منہ پر ٹھوکر مار دی۔
یہ غازی یہ تیرے پر اَسرار بندے
ہے ٹھوکر سے دو نِیم صحرا و دریا
دو عالَم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

جنہیں تو نے بَخشاہے ذوقِ خدائی
سِمَٹ کر پہاڑ ان کی ہیبَت سے رائی
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومِن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشوَر کُشائی

آخِر کا ر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے رہائی کے بھی خوب اَسباب فرمائے۔ وہ رومی لڑکی مسلمان ہو گئی اور دونوں رِشتہ اَزدواج میںبھی منسلِک ہو گئے۔

فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 349501 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.