جمہوری نظام میں حقِ رائے دہی کو
ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے ۔حق رائے دہی انسان کا وُہ حق ہے جس کے
استعمال سے وُہ اپنی پسند کے حکمران کیلئے اپنی رائے صادر کرتا ہے ۔مگر
المیہ یہ ہے کی وجود ِ پاکستان سے لیکر آج تک یہ حق رائے دہی کا نظام غیر
شفافیت کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے۔یعنی عرصہ سے زر و اقتدار کے پجاری ہماری
عوام کو اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہیں۔کیونکہ خواندگی کی شرح زیادہ نہ ہونے
کی وجہ سے عوام اِس اندھے کنوئے میں قید رہی ہے۔ضرورت شعور کی تھی جو گزرنے
ہوئے وقت اور موجود وقت نے عوام میں کسی حد تک پھونکی ہے۔ووٹ کی اہمیت کا
اندازہ جس قدر ہونا چاہیئے وُہ نہیں ہو پایامگر ملکی حالات نے عوام پر اِس
کی اہمیت کافی حد تک عیاں کی ہے۔یہ بات میں سو فیصد صداقت ہے کہ ووٹ اِنسان
کی زندگی میں تبدیلی لا سکتا ہے اوراِس کا معیار زندگی بلند کر سکتا ہے ۔جو
ممالک ترقی کی اوج پہ ہیں وہاں کی عوام خوش اسلوبی سے ووٹ کا حق استعمال
کرتی ہے۔تاریخ سے ثابت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں حکومتی و سیاسی مسائل
ایسے نہیں ہوتے جیسے کہ ترقی پذیر ممالک میں ہوتے ہیں ۔اگر امریکہ کی ہی
بات کی جائے جس کی آبادی 31کروڑ ہے مگر وہاں حق رائے دہی کا بہت اچھا نظام
ہے۔جہاں عوام الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کرتی ہے۔وہاں یہ
کام نہایت نظم و نسق کے ساتھ ترتیب پاتا ہے ۔کروڑوں کی آبادی والے ملک میں
پولنگ بوتھ کے لیے عوام رضا کارانہ طور پر جگہ فراہم کرتی ہے جیسے کہ اپنے
گیراج یا کوئی اور کھلی جگہ جس کو الیکشن کمیشن پاس کرنے کے بعد وہاں
الیکٹرونک مشین اور دیگر ضروری سامان سیٹ کرتی ہے اور بعد ازں اُس جگہ کے
مالک کو معاوضہ بھی ملتا ہے۔الیکٹرونک مشین کے ذریعے عوام اپنی پسند کے
امیدوار پر مارک کرتی ہے جہاں غیر شفافیت و دھندلی کاا مکان نہیں ہوتا ۔عوام
اپنی مصروفیت کے باعث بھی اپنا قیمتی وقت نکال کر ووٹ کاسٹ کرتی ہے ۔گزشتہ
دِنوں ایک حیران کن واقع سامنے آیاجب امریکی ریاست شکاگو کی21 سالہ گالیشیا
مالون نے ڈلیوری کے لیے ہسپتال جانے سے قبل پولنگ سٹیشن میں جا کے اپنا ووٹ
کاسٹ کیا ۔ اِس مثال نے زمانے میں ووٹ کی اہمیت کو واضح کر دیا ہے۔وہاں لوگ
پولنگ بوتھ کے آگے لوگ جمع نہیں ہوتے جیسے کہ ایشائی ممالک میں ہوتاہے۔اور
نہ ہی اسلحہ سرے عام سڑکوں پر لیے گھومتے ہیں ۔ترقی یافتہ ممالک کی عوام
بھی با شعور ہوتی ہے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وُہ ووٹ کاسٹ کرے۔امریکہ
میںہر چار سال بعد صدارتی الیکشن ہوتا ہے ۔جب صدر نامزد ہو جاتا ہے پھر وُہ
اپنی کابینہ تشکیل دیتا ہے۔وہاں کابینہ کے الیکشن نہیں ہوتے۔صدر چاہے تو
کسی عام شہری کو اپنی کابنیہ کا ممبر بنا لے ۔مگر وُہ شہری کسی جماعت کا
رکن نہیں ہونا چاہئے اگر ہو گا تو پہلے اُسے وُہ پارٹی چھوڑنا ہو گی پھر
وُہ کابینہ میں شامل ہوگا۔اس سے یہ سمجھ آتی ہے کہ امریکی کابینہ کا ممبر
کسی پارٹی کے لیے نہیں بلکہ صرف اپنے ملک کے لیے کام کرے گا اور ملک کی ہی
خدمت کرے گاوُہ برائے راست عوام کو جواب دہ ہوگا نہ کی کسی پارٹی کو۔اِسی
لیے ایسے ممالک میں کرپشن،دھندلی ،و دیگر سکینڈلز نہیں ہوتے۔پاکستان میں
ایسا نظام نہیں ہے جیسا امریکہ میں ہے یہاں بیلٹ پیپر کے ذریعے حق رائے دہی
استعمال کیا جاتا ہے۔جس میں ہمیشہ دھاندلی ہوتی ہے ۔ گزشتہ الیکشن کے بارے
میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بتایا کہ80 ملین میں سے37ملین بوگس ووٹ
کاسٹ ہوئے ۔ہماری 18کروڑ کی آبادی میں سے گزشتہ الیکشن میں 60 فیصد آبادی
بھی ووٹ کاسٹ کرنے نہ گئی۔صرف 43.65فیصد آبادی نے اِس حق کا استعمال کیا ۔اِس
کے برعکس بھارت کی 60 فیصد آبادی نے اور بنگلہ دیش کی 70فیصد آبادی نے حق
رائے دہی استعمال کیا۔مگر پاکستانی عوام نے 15منٹ بھی ملکی فلاح و بہتری
کیلئے نہیں نکالے ۔حالانکہ یہ 15منٹ عوام کی زندگیاں بدلنے کیلئے کافی تھے
اگر یہ سوچا جائے کہ عوام صرف15منٹ ملکی و عوامی فلاح کے لیے نکالتی تو
سالہا سال حکومتی گورننس کا رونا نہ روتی ۔ عوام کو پہلے ووٹ کا حق استعمال
کرنا چاہیے جو ضابطہ ہے پھر اُس کے بعد تنقید کرے تو حق بھی بنتا ہے ۔مگر
یہاں ووٹ کاسٹ بھی نہیں کیا جاتا اور حکمائءکو بھی برُا کہا جاتا ہے۔ہمارے
ملک کی 74فیصد آبادی پڑھی لکھی ہے مگر افسوس یہ ہے کہ وُہ بھی اِس عمل میں
اِن پڑھوں جیسا کردار ادا کرتی ہے۔ووٹ قوم کا قیمتی سرمایہ ہے جسکا صحیح
استعمال ملک کی ترقی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ہر سال ساٹھ ہزار نوجوان اٹھارہ
سال کی عمر کے ہوتے ہیں مگر اِن میں سے دس ہزار بھی ووٹ کاسٹ نہیں کرتے ۔ضرورت
خود میں شعور لانے اور ووٹ کی طاقت کو سمجھنے کی ہے۔پھر ہمارے ووٹ کاسٹنگ
کے نظام میں بھی مزید بہتری کی ضرورت ہے جسکی بنا پر عوام ووٹ کاسٹ کرنے سے
قاصر رہتی ہے ۔اول تو یہ کہ ملک کی وُہ آبادی جو اپنے آبائی علاقے سے دور
کسی جگہ مقیم ہو وُہ ووٹ کاسٹ کرنے سے محروم ہو جاتی ہے جس کی وجہ یہ کہ
اُن کا ووٹ اُس علاقے میں بنا ہوتا ہے جو اُن کا آبائی علاقہ ہے مگر کام
کاج یا دیگر مصروفیت کی وجہ سے شہری و دوسرے علاقوں میں ہونے کی وجہ سے حق
رائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔اس مسلئے کی وجہ سے پاکستان کی کافی آبادی ووٹ
کاسٹ کرنے سے محروم رہتی ہے۔اگلا مسئلہ شفافیت اور الیکشن میں دھاندلی کا
ہے کہ ہماری عوام یہ ذہن میں رکھ کے بھی ووٹ نہیں ڈالتی کہ ہمارے ڈالنے نہ
ڈالنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جو کہ غلط تاثر ہے۔اِس کے علاوہ کیونکہ
پاکستان میں بیلٹ سسٹم ہے اور اِس میں دھاندلی کا عنصر موجود ہوتا ہے جس کے
لیے حکومت کوہر پولنگ سٹیشن پر ہائی سیکورٹی ،غیر جانبدار و دیانت دار
پولنگ سٹاف مہیا کرنا چاہیے اورعوام کو اُن کی مرضی کے حلقے میں جہاں وُہ
چاہیں ووٹ ڈالنے کا حق ملنا چاہیے تو انشااللہ ملک و قوم کو اسکا کافی فیصد
تک رزلٹ ملے گا ۔یہاں مشہور فلسفی خلیل جبران کا قول معزز قارئین کی نذر
کرتا ہوں ”کہ یہ مت پوچھو کہ تمہارا ملک تمہارے لیے کیا کر سکتا ہے بلکہ یہ
بتاؤ کہ تم اپنے ملک کیلئے کیا کر سکتے ہو“۔ |