قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ کے پیارے حبیب محمد مصطفی ﷺ کے دین اسلام کو
اللہ نے پسند فرمایا ، اس حقیقت کو عالم دنیا کے غیر مسلم اسکالرز، تاریخ
دان، مفکر اور مذہبی پیشواﺅں نے بھی قبول کیا، آپ ﷺ کی حیات طیبہ کا جب بھی
غیر مسلم نے مطالعہ کیا تو آپ ﷺ کو کائنات میں سب سے اعلیٰ پایا۔گمراہ اور
بھٹکے ہوئے اُن ہی لوگوں کو کہا جاتا ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی انکار کر
بیٹھیں اُن میں مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ دنیا میں دو ریاست خالصتاً اسلام کے
نام پر وجود میں آئیں ایک مدینتہ المنورہ دوسری اسلامی جمہوریہ پاکستان۔
مدینہ منورہ کی ریاست نبی پاک حضور کائنات محمد مصطفی ﷺ نے اللہ کے دین
اسلام پر مکمل رکھی اور پاکستان کو عاشقان و غلامان رسول ﷺ نے رکھی ۔ ۔۔۔مدینتہ
المنورہ کی ریاست کافروں ، مشرکوں اور منافقوں کو برداشت نہ تھی اسی لیئے
وہ اس ریاست کے خلاف سرگرم رہتے تھے لیکن یہ معجزیہ نبی ﷺ تھا کہ تمام
مخالفین کی کوششوں کے باوجود مدینہ کی اعلیٰ ترین ریاست پوری دنیا میں
چمکنے دمکنے لگی۔ ریاست پاکستان کو بنانے والے بھی حضور ﷺ کی غلامی کا دم
بھرنے والے مدینتہ المنورہ کے نقش قدم جیسی ریاست بنانا چاہتے تھے اسی جذبہ
کے تحت ہندوستان کے مسلمانوں نے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا اور ہر طرح
کی قربانی دیکر یہ وطن عزیز پاکستان معروض وجود میں لائے۔ ۔۔اکثر و بیشر یہ
بھی سنا گیا ہے کہ کیا ضرورت تھی اس خطہ میں پاکستان بنانے کی ، بھارت میں
رہ کر ہی پاکستان کا حصہ بنالیتے ، شائد منشائے خداوندی یہی تھا اگر اس خطہ
کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بھارت سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کو پاکستان
بننے دیا تو یہ ان کی انتہائی غلط فہمی ہوگی کیونکہ جب بھی اللہ اور اس کے
رسول ﷺ کی محبت میں قربانی دیکر خالصتاً نیت نیتی کے ساتھ عمل کیا جائے گا
تو وہ یقینا رضائے خدا وندی میں شمار ہوتا ہے اور اللہ کی رضا کا انکار
اللہ سے جنگ کے مترادف ہے یقینا اللہ سے جنگ کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے
اسی لیئے اپنے ایمان کوسلامت اور قائم رکھنے کیلئے علم دین رکھنا بہت ضروری
ہے۔ پاکستان خالصتاً اسلام کے نام پر معروض وجود میں آیا ہے اور موجودہ
حالات میں غیر مسلم ممالک پاکستان میں سیکولر نظام کی ہوا دیتے ہیں اور
پاکستانی سیاستدانوں سے بیانات کراکے اپنی طاقت اور گرفت کا اظہار کرتے ہیں
، کل بھی پاکستان میں سب مسلمان ایک تھے اور آج بھی ہیں ۔ مسلکوں ، قومیتوں
اور تعصب کی جنگ میں مبتلا کرکے بیرون ممالک یہ نہ سمجھیں کہ وہ کامیاب
ہوجائیں گے یہ عوام ایسے لیڈروں کو ضرور نیست و نابود کردیں گے جو دین
اسلام کی آڑ یا پاکستان کی سلامتی کی باعث نقصان ہوں۔ پاکستان جب وجود میں
آیا تھا اُس وقت وہ لوگ زندہ تھے اور اُن کی نسلیں جوان تھیں جنھوں نے اس
وطن عزیز کے تعمیر و ترقی کیلئے اپنی تمام تر کوششیں اور کاوشیں صرف کردیں
اور ایک پر امن بہترین ریاست کی شکل میں اسلامی جمہوریہ پاکستان نظر آیا،
یہاں ہر نسل، ہر قوم اور ہر فقہ و مسلک کا انسان اپنی مذہبی تہوار آزادانہ
طور پر ادا کرتا تھا حتیٰ کہ غیر مسلم بھی اسی قدر آزاد تھے۔ وقت کے گزرنے
کے ساتھ ساتھ سر زمین پاکستان میں بسنے والے شریف النفس ، سچے و سادے
سیاستدان اپنی زندگی سے دور جانے لگے تو ایسے لوگوں کو داخلہ شروع ہوگیا کہ
جنھیں اپنی عزت و آبرو کی پروا نہیں بس دولت و عیش کیلئے ہر جائز و نا جائز
لازم بن گیا ان لوگوں کیلئے ۔ ان میں سیاست سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں تو
مذہبی ٹھیکیدار۔۔۔ دین اسلام میں کہیں بھی اور کسی بھی جگہ نبی پاک حضور
کائنات محمد مصطفی ﷺ اور مقرب خلفائے راشدین نے ایک مسلمان کو جان سے مارنے
اور کافر کہنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کا فرمان عالی
شان یہی ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری دنیا کی انسانیت کے قتل کے مترادف ہے
پھر بھلا پاکستان میں بے قصور لوگوں کو قتل کرنا، بم بلاسٹ کرنا، خود کش
حملے کرنا، مساجد و مدارس، امام بارگاہ و مزارات ، بازار ہو یا تعلیم گاہ
گو کہ جہاں موقع آجائے وہیں پاکستانیوں کی لاشیں بکھیردی جاتی ہیں ۔ یہ
سلسلہ اُس وقت تک نہیں تھمے گا جب تک ہر پاکستانی اپنی صفوں میں چھپے ہوئے
دشمنوں کا نکال باہر نہ کرے ۔ حیرت و تعجب کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں
صرف زبان اور قوم کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے کہ وہ ان ہی کے درماین مین رہ
کر آزادانہ حملے کرتے ہیں ۔ اگر خیبر پختونخوا کی انتظامیہ ایسے منحرف اور
دشمنان پاکستان کو وہیں روک دیں تو تقینا یہ اپنے منفی عزائم میں کبھی بھی
کامیاب نہ ہوسکیں گےیہی معاملہ پنجاب اور بلوچستان کے ساتھ سندھ کو بھی
کرنا پڑیگا ورنہ انتظامیہ و پولیس کچھ بھی نہ کر پائے گی سوائے بیانات کے۔۔۔!!ٹارگٹ
کلنگ ہو یا بم بلاسٹ یا پھر آپس کی سیاسی جنگ یہ سراسر پاکستان کی عوام کو
نقصان پہنچانے کے مترادف ہے ، آج پاکستان ان ہی حالات کی بناءپرمعاشی و
اقتصادی، صنعتی و پیداواری، تعلیمی و فنی اور دیگر تمام معاملات میں ناپید
و ناکارہ ہوکر رہ گئی ہے شائد اس کی وجہ ہمارا نظام ریاست ہو بلکہ یہی ہے ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج پاکستان کا شہری محفوظ نہیں، نہ جان سے اور
نہ مال سے ۔۔۔ عدالت عظمیٰ اگر عوام کی حالت کو بیان کرنے پر اپنی بے عزتی
محسوس کرتی رہے گی تو انصاف کیلئے کسے کہا جائیگا اور اگر افواج حفاظت
کیلئے معزرت کرلے تو محافظ کہاں تلاش کریں گے ، اگر ووٹنگ کے نظام کو اسکنگ
سے مشروط نہ کیا گیا تو شفاف و انصاف کودکھا سکیں گے۔ اس ملک میں اب حالت
یہ ہوچلی ہے کہ سیاست دان ہوں یا مذہبی ٹھیکیدار ایک مافیا کی شکل اختیار
کرگیا ہے کوئی بھی ان پر تنقید نہیں کرسکتا کیونکہ نعوذباللہ یہ طاقت میں
اس قدر ہیں کہ ۔۔۔۔!! کوئی سچ و حق کہ نہیں سکتا ۔ یاد رکھئے خلفائے راشدین
سے بڑا مقرب آج کا مولوی ملا یا سیاستدان نہیں ہوسکتا پھر کس بات کا گھمنڈ
اور اکڑہے کہ پاکستان آئے روز جھلس رہا ہے اور یہ آپس میں نوراکشی کھیل رہے
ہیں ، عوام کو بڑی بڑی باتیں نہیں بلکہ صحیح اور سیدھا عمل چاہیے لیکن شرم
کی بات تو یہ ہے کہ جو کچھ پاکستان میں تھا سب برباد کرڈالا ۔۔۔ پاکستان کو
ہر کوئی اپنے باپ کی جائیداد سمجھتے ہوئے بے دردی سے اپنا حکم چلارہا ہے
کسی کو بھی حقیقی طور پر عوام کے دکھ و درد اور مسائل سے دلچسپی نہیں ۔ اس
وقت نیا سال شروع ہوچکا ہے اور ہم نئی سن ہجری ایک ہزار چار سو چونتیس میں
داخل ہوگئے اور اب کہیں بم بلاسٹ ہورہے ہیں تو کہیں ٹارگٹ کلنگ اور
دہشتگردیاں۔ اسٹریٹ کرائم انتہا کو پہنچ گیا اور عیاشی کے اڈے عیاں ہوگئے
جیسے کوئی پوچھنے والا نہیں ، یہاں ہر سمت نظر آتا ہے مافیا ہی مافیا۔۔۔
پاکستانی ریاست اور محرام الحرام کے حوالے سے اگر غور کیا جائے تو ہم
انتہائی شرمندگی سے اپنا سر جھکا لیتے ہیں کیونکہ اس مہینہ کی افضلیت خود
رب العزت اپنی مقدس کتاب الٰہی میں فرماتا ہے کہ ” بیشک مہینوں کی تعداد
اللہ کے نزدیک اللہ کے حکم میں بارہ ہے جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو
پیدا کیا ان میں چار حرمت والے مہینے ہیں “(سورة توبہ آیت 36) ان میں سے
محرم کا مہینہ بڑ ا ہی قابل احترام ہے اس کا احترام جاہلیت کے تاریک ترین
زمانے میں بھی باقی تھا ریگزار عرب کے بدو جو علم سے دور اور عقل سے
بیگانہ، وحشت سے قریب اور جنگ وجدال کے رسیا ودلدادہ تھے وہ بھی ان مہینوں
کے احترام میں قتل وقتال، جنگ وجدال، کشت وخون، لوٹ مار اور غارت گری
ورہزنی سے باز رہتے تھے یہی وجہ ہے کہ محرم کے مہینہ کو محرم الحرام کہا
جاتا ہے کہ اس میں معرکہ کارزار گرم کرنا اور انسانوں کے خون کی ہولی
کھیلنا حرام ہے۔اس مبارک مہینہ کی دسویں تاریخ تو گویا خوبیوں اور فضیلتوں
کا گلدستہ ہے کہ اسی دن پیغمبر جلیل موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ نے اپنی
قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظالمانہ وجابرانہ شکنجہ اور غلامی کی ذلت
آمیزقید وسلاسل سے آزاد کرایا۔اس دن کی فضیلت کیلئے اس سے بڑ ھ کر اور کیا
شہادت ہو سکتی ہے کہ رمضان کے بعد اسی دن کے روزہ کو افضلیت حاصل ہے چنانچہ
ریاض محبت کی بہار جاوداں کا آخری نغمہ خواں عندلیب اور مستور ازل کے چیرہ
زیر نقاب پہلا بند کشا ، پیغمبر اسلام محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح
بیان فرماتے ہیں۔”رمضان کے مہینہ کے بعد محرم کے مہینہ کا روزہ افضل ترین
روزہ ہے۔“(صحیح مسلم)لہذا یہ دن تو وہ دن ہے کہ اللہ کا بندہ کمال بندگی کے
ساتھ اپنے رب کی محبت میں سرشار ہوکر اس کی اطاعت وفرمانبرداری میں ہمہ تن
مشغول ہوجائے انتہائی عجز ونیاز کے ساتھ اپنی عبادت اور اعمال صالحہ کا
نذرانہ اس کے دربار عالی میں پیش کرے اور روزہ ونماز ذکر وتسبیح کے ذریعے
اس کی خوشنودی ورضا مندی کا جویا وطلبگار ہو۔ رسول ا کرم نے حج کے خطبہ میں
فرمایا۔ زمانہ گھوم کر اپنی اصلیت پر آ گیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے
ہیں جن میں سے چار حرمت وادب والے ہیں تین تو پے درپے ذوالقعدہ ، ذوالحجہ،
محرم الحرام اور چوتھا رجب المرجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے
(بخاری ومسلم)۔اسلام سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور اس کے خاتمہ
پر عید کرتے تھے۔ ابتدائے اسلام میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا جب رمضان کے
روزے فرض ہوگئے تب عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی جس کا دل چاہے رکھے
جی نہ چاہے تو نہ رکھے۔جب آنحضرت مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ
تشریف لے گئے تو یہودیوں کو محرم کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ” تم
اس روزکیوں روزہ رکھتے ہو؟“ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہماری نجات کا دن ہے۔
اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی اس دن حضرت موسیٰ
علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے ساتھ ہم تم سے زیادہ موافقت رکھنے کے حقدار ہیں اس لئے نبی ا کرم
نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کا
حکم دیا۔ (بخاری ومسلم)لیکن یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کیلئے آپ نے فرمایا
کہ ”اگر میں زندہ رہا تو محرم کی نویں اور دسویں کا روزہ رکھوں گا۔ “مگر
آئندہ سال آپ محرم کے آنے سے پہلے خالق حقیقی سے جاملے لیکن یہ حکم باقی
رہا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمل کیا لہذا محرم کی نویں دسویں یا
دسویں گیارہویں یعنی دو دن کا روزہ رکھنا چاہیے۔رسول ا کرم نے
فرمایا”عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو دسویں کے ساتھ ایک
دن اور روزہ رکھو چاہے ایک دن پہلے ہو یا ایک دن بعد کا۔“ماہ محرم کی فضیلت
اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ سن ہجری(اسلامی سال) کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد
سرور کائنات کے واقعہ ہجرت پر ہے۔ان تمام دینی اہمیت کے باوجود ریاست
پاکستان میںدیگر اسلامی تہواروں بالخصوص محرم الحرام میں دہشت گردی، قتل و
غارت ، خون ریزی، بم بلاسٹ ، خود کشی کا عمل روز بروز بڑھاتا جارہا ہے ،
کچھ ذاتی مفادات اور دیگر پہلوﺅں کو دیکھ کر ایسے گروہ یا لوگوں کو پناہ
دیتے ہیں وہ بھول گئے کہ یہ دشمنانان اسلام اور پاکستان غیر مسلموں کے آلہ
کار ہیں ، انہیں اسی مد میں استعمال کیا جارہا ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں
دہشت کی علامت بن جائے اور ایٹمی طاقت کا گرفت میں لے کر بے سود کردیا جائے
وقت بہت نازک کی طرف جارہاہے ۔ آخر کیوں حکومت وقت اس اہم بات کی طرف توجہ
نہیں دیتی اور تو اور حلیف ہوں یا حریف دونوں اطراف کی جانب سے مفاہمتی
منظر نظر آتا ہے ، ہر کوئی مال و دولت کی ہوس میں اس مادر وطن کا سودا کرنے
میں پیچھے نظر نہیں آتا۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور آپس میں محبت،
اخوت، بھائی چارگی کا جذبہ ہمیشہ قائم رکھے ، سب انسان ہیں ، پاکستانی ہیں،
مسلمان ہیں ، ایک امتی ہیں اور ایک قوم ہیں ۔۔۔۔۔!!! |