پاکستانی پانی پر بھارتی تسلط؟

بھارت نے دریائے چناب کے پانی کا بہاؤ کا رخ موڑ دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی زرعی زمین کا بڑے پیمانے پر رقبہ بنجر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ پاکستان میں ہیڈمرالہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ انتہائی کم ہو گیا ہے اور بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ بھارت پاکستان میں آنے والے دریاؤں کے پانی کو کنٹرول کر کے جب مرضی ہوتی ہے پانی روک دیتا ہے اور جب چاہتا ہے زیادہ مقدار میں پانی چھوڑ کر پاکستان میں سیلاب کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔

عالمی بینک کی ثالثی عدالت نے پاکستانی حکام کو کشن گنگا ڈیم کے معائنے کی اجازت دینے کا حکم جاری کیا۔ ثالثی عدالت نے وولر بیراج اور ٹلبل نیوی گیشن پراجیکٹس کے معائنے کی بھی اجازت دی ہے۔ عدالت نے پاکستان کو یہ اجازت پاکستان کی درخواست پر دی جس میں کہا گیا تھا کہ ثالثی عدالت کی طرف سے یکم ستمبر کو حکم امتناع جاری ہونے کے باوجود بھارت نے غیرقانونی تعمیر جاری رکھی ہوئی ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے پاکستان اور بھارت کے مابین پانی کے تنازع پر الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ دونوں اطراف پاکستان کے دریاؤں پر بندھ باندھنے کے مسئلے پر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ پاکستان کا اصولی مؤقف ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت پاکستان کے دریاؤں پر ڈیمز نہیں بنا سکتا کیونکہ اس طرح وہ پاکستان کی طرف آنے والے پانی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنی مرضی سے پانی روک کر پاکستان کو ریگستان میں بدلنا چاہتا ہے اور کبھی زیادہ پانی چھوڑ کر پاکستان میں سیلاب لا کر تباہی پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ بھارت عالمی بینک کی ثالثی عدالت کے حکم کیخلاف واویلا کر رہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا میں بھی ایسی کوئی خبر نہیں جاری کی جاتی کہ بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش کے دریاؤں پر انتہائی متنازعہ ڈیمز تعمیر کر رہا ہے اور اس طرح سے وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو اپنے زیرتسلط لانے کی بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ بھارت کا یہ منافقانہ طرز عمل اور دہرا معیار عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کے پانی پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کیلئے بھارتی پالیسی سازوں نے طویل المدتی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ پاکستان کے حکام اور پالیسی سازوں کو بھارتی ہتھکنڈوں پر نہ صرف نظر رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ بھارت کو ہرممکن طریقے سے ایسے گھناؤنے منصوبوں سے باز رکھا جانا چاہئے۔ پاکستان میں آنے والے دریا چونکہ بھارت سے گزر کر آتے ہیں اس لئے بھارت نے ہمیشہ پانی کا تنازع کھڑا کیا اور پانی کو روکا اور اس نے کبھی بھی سندھ طاس معاہدے پر پوری طرح سے عملدرآمد نہیں کیا۔ بھارت کی ان حرکتوں کے باعث پاکستان میں ماحولیات کو بھی شدید خطرات درپیش ہیں۔ برسات کے موسم میں بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچایا اور مشرقی دریاؤں میں زیادہ پانی چھوڑ دیا جس سے پاکستان کے بڑے علاقے میں سیلاب نے تباہی مچائی۔ گزشتہ دو سے تین دہائیوں کے دوران بھارت نے مغربی دریاؤں جو پاکستان کے حصے میں ہیں کے پانی پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے جو سراسر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کے ان دریاؤں پر متعدد چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر مکمل ہونے کے بعد پاکستان کو پانی کی قلت کا شدت سے سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان جو کہ ایک زرعی ملک ہے اور اس کا 90 فیصد انحصار زراعت پر ہے اس کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور ریگستان میں بدل جائیں گی جس سے پاکستان میں ماحولیات، خوراک کی قلت، قحط اور دیگر بے شمار مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ امریکی پالیسی سازوں اور خارجہ تعلقات کی کونسل نے پاکستان اور بھارت کے مابین پانی کے تنازع پر پہلے ہی خبردار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین پانی کا تنازع مسلح تصادم کو جنم دے سکتا ہے جس سے جنوبی ایشیا میں تباہی ہو سکتی ہے۔ بھارت کشن گنگا پراجیکٹ کے ذریعے سے دریائے نیلم کے پانی کا رخ موڑ رہا ہے۔ دریائے نیلم دریائے جہلم کا ایک معاون دریا ہے۔ اس پراجیکٹ کو بھارتی سپریم کورٹ کی حمایت حاصل ہے کیونکہ بھارتی عدالت عظمیٰ کے اس پراجیکٹ کو بھارتی سپریم کورٹ کی حمایت حاصل ہے کیونکہ بھارتی عدالت عظمیٰ نے اس پراجیکٹ کو 2016ءتک مکمل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ بھارتی حکومت بھی اس پراجیکٹ کو جلد سے جلد مکمل کرنا چاہتی ہے جس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پاکستان کے دریائے جہلم میں پانی کی شدید کمی ہو جائے گی۔ پاکستان کیخلاف پانی کے حوالے سے بھارت کے ہتھکنڈے روایتی جنگ سے بھی خطرناک ہیں۔ پاکستانی حکومت اور عوام کو اس سلسلے میں باخبر رہ کر بھارت کو روکنا چاہئے۔
Shumaila Javaid Bhatti
About the Author: Shumaila Javaid Bhatti Read More Articles by Shumaila Javaid Bhatti: 15 Articles with 10645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.