2011میں ایرانی وزیر خارجہ نے
افغانستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک معاہدہ کی مخالفت کا اعادہ کیا ۔
جس میں ہمسایہ ملکوں سے امداد لینے کی بجائے ایک نہایت ہی پیچیدہ حل پیش
کیا گیا۔گو کہ اس سے امریکہ اور ایران میں کچھ معمو لی قسم کا تعاون بھی
دیکھنے میں آسکتا تھا۔ایران اگر افغانستان کی امداد جاری رکھتا ہے تو اپنے
آپ کو ایک فعال اور اور ذمہ دار ریاست ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ
سٹریٹیجک معاملات بھی در پردہ موجود تھے۔اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ
پاکستان کے بعد ایران ہی افغانستان کا ایک اہم پڑوسی ملک ہے۔ان دونوں ممالک
کے درمیان 382 میل طویل سرحد اس بات کی مظہر ہے کہ کیسے ایران میں امن کا
دارو مدار افغانستان کے استحکام سے منسلک ہے خاص طور پر جب نیٹو اور اس کے
اتحادی افغانستان میں موجود ہیں۔ایران میں موجود افغان پناہ گزین بھی لگ
بھگ 3 ملین ہیں۔ایران نے اپنی سرحد جو کہ افغانستان سے منسلک ہے اپنی خاص
نگاہ میں رکھی ہوئی ہے مگر با وجود اس کے ابھی بھی 145میٹرک ٹن ہیروئین آج
بھی استعمال اور سمگلنگ کے لیے بارڈر پار نکل جاتی ہے۔منشیات کا بڑا حصہ
نمروز صوبے کے راستے سے باہر جاتا ہے۔جہاں ایران اور افغانستان کی سیکیورٹی
فورسس آج بھی جھڑپوں میں مصروف ہیں۔اپنی سرحد کومحفوظ کرنا ایران کو کافی
مہنگا پڑا۔ایران نے صرف اس ایک سرحد پر انقریب ایک ارب ڈالر خرچ کر ڈالے۔اس
کے علاوہ اس کی آرمی کو بھی خاصہ جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔جس کا
اندازا اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1979 سے اب تک قریب کوئی 3700محافظ
ہلاک ہوئے ہیں۔اور زخمیوں کی تعداد 12000 لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔مگر اس سے
ایران میں منشیات کے استعمال اور فروغ میں ایک واضح فرق دیکھنے کو ملا
ہے۔اگرچہ ایران کی تجارت کا یک چھوٹا سے حصہ ہی افغانستان میں بھیجی جانے
والی بر امدات تھیں مگر ماہرین اقتصادیات کے مطابق اس میں بھی 40فیصد تک
اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔اس سے ایران اور افغانستان کے باہمی تعلق پر ایک
واضح کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔علاوہ ازیں 2011 میں ایران نے اعلان کیا
تھا کہ انہوں نے افغانستان کے بنیادی ڈھانچے پر 60ملین کی رقم خرچ کر دی
ہے۔جس کے پیچھے محض افغانستان کی مدد ہی ایک عنصر نہ تھی اصل وجہ یہ بھی ہے
کہ ایران کی اکثر و بیشتر مشرقی صوبوں کی زمین ناکارہ اور بنجر تصور کی
جاتی ہے ۔مگر افغانستان سے آنےوالے برساتی ندی نالوں کا پانی اگر افغانستان
میں نہ روکا جائے اور اسے ایران تک آنے دیا جائے تو وہ یہاں امید کی ایک
کرن ثابت ہوتا ہے۔اور ایران کی زمین کو سیراب کرکے اسے خود کفیل بنانے میں
اپنا بھی ایک کردار ادا کرتا ہے۔درحقیقت مغربی افغانستان بھی ایک وقت میں
ایران کا حصہ رہا ہے۔اس کے علاوہ سرحدی علاقوں میں بولی جانے والی زبانیں ،
نسلی اور مذہبی تعلقات بھی کافی حد تک ایران کو افغانستان کے ساتھ جو ڑتی
ہیں۔جس کے فروغ میں میڈیا اور تعلیم میں تعاون ایک اہم کردار ادا کر رہے
ہیں۔نیز میڈیا اپنی آگاہی مہم کے ذریعے سے دونوں ممالک کے عوام کو اس حقیقت
سے بھی آگاہ کرنے میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے کہ ایران کی افغانستا ن کے
لیے مدد محض ایک پڑوسی ملک ہونے کے ناطے نہیں بلکہ اس سے ان کا ماضی بھی
کافی حد تک منسلک ہے۔شائد یہی ایک وجہ ہے کہ تین لاکھ سے زائد افغان
طالبعلم ایرانی سکولوں میں اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔جبکہ اعلیٰ تعلیم
کے حصول کی غرض سے افغانستان سے ایران آنے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی موود
ہے ۔جس کا تخمینہ 7000لگایا جاتا ہے۔افغانستان میں بسنے والے اہل تشیع
برادری کے لوگوں کے ساتھ ایران کے مذہبی روابط ہیں اور ایک اچھی خاصی ہم
آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ایران اور افغانستان کے درمیان سیکیورٹی تعاون کا
منصوبہ دراصل اقوام متحدہ کا طے کردہ سہ فریقی ایک معاہدہ تھا۔جو کہ دہشت
گردی ،سمگلنگ اور انسداد منشیات کی غرض سے ایران ، پاکستان اور افغانستان
کے درمیان طے پایا تھا۔جولائی 2011 میں UNODC کے سربراہ نے اپنے ایک خطاب
میں کہا تھا کہ ایران میں موجود انسداد منشیا ت کا منصوبہ دنیا کے کامیاب
ترین منصوبوں میں سے ایک ہے۔ےہی منصوبہ اتحادیوں کے درمیان اعتماد کی بحالی
او ر سہ فریقی معاہدے کے اصل ہدف کے حصول کی وجہ بھی بنا۔ایران متعدد
مقامات پر افغانستا ن میں ایک مشترکہ سیکیورٹی پلان کی حمایت کرتا آیا
ہے۔جو کہ 2014 میں نیٹو اور اس کے اتحادیوں کے افغان سر زمیں سے ممکنہ
انخلاءکی امید پر بنایا جاناتھا۔ایران نے ہمیشہ ایک مضبوط افغانستا ن کی
حمایت کی جس کی وجہ سے انہوں نے اکثر مقامات پر افغان فوج کی مضبوطی اور
تربیت پر بات کی۔کیونکہ ایرانی وزیر دفاع کے نزدیک ایک مضبوط و مستحکم
افغانستا ن ہی ایک مستحکم اور کامیاب ایران کی ضمانت ہے۔اور شائد ایران کی
افغانستان کو امداد بھی اسی تناظر میں ایک حکمت عملی کے تحت ہے۔جون 2011میں
دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات ہوئے جس میں سیکیورٹی تعاون
بڑھانے پرغور کیا۔معاہدے طے پائے اور سیکیورٹی کے نفاذ کے باہمی منصوبوں کا
بھی اعلان کیا گیا۔ایران وزیر دفاع نے سمگلنگ کو روکنے انسداد منشیات اور
اور نیٹو کے ممکنہ انخلاءکی صورت میں بننے والے سیکیورٹی پلان کے متعلق
18منصوبوں پر دستخط کیے۔چند ہی دنوں میں ایران کے وزیر داخلہ نے اپنے افغان
ہم منصب سے ملاقات کی اور انٹیلی جنس شیرنگ جیسے حساس معاملات پر ان کے
درمیاں معاہدے طے پائے۔جس میں افغان پولیس کی تربیت اورسابقہ سیکیورٹی
اجلاس کی کاروائی کو جاری رکھنے پر بھی غور کیا گیا۔2011 نومبر میں احمدی
نیاد نے سہ فریقی مذاکرات کے فروغ کے لیے پاکستان اور افغانستان کے صدر سے
علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ایران افغانستان سے متعلق قریب ہر میٹنگ کا حصہ
بنتا ہے۔ایران نے 2011دسمبر میں جرمنی میں ہونے والی ایک بہت بڑی غیر ملکی
کانفرنس میں بھی شمولیت اختیار کی جو کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے
بلائی گئی تھی۔غرض یہ کہ ایران نے افغانستان میں امن کے قیام کا کوئی بھی
موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیا اور اس میں جتنا بھی ہو سکا اپنا حصہ بھی
شامل کیا۔ایران امریکہ کے افغانستان میں کردار کی مذمت کرتا ہے۔اور یہاں تک
کہ اس کے سیکیورٹی آپریشن پر بھی سخت قسم کے مذمتی بیان عالمی سطح پر دینے
سے بھی باز نہیں آتا۔ایسے حالات میں افغان حکومت اور افغان حامی ایران کو
کس نظر سے دیکھتے ہیں یہ ایک اہم سوال ہے۔کیا ایران اپنے ملک میں امن کے
قیام کی خاطر افغانستان کا ساتھ دی رہا ہے؟ےا محض پڑوسی ہونے کے ناطے
امریکہ سے دشمنی میںاضافہ کیا جا رہاہے؟ان سوالوں کا جواب ہی ایران اور
پاکستان کے تعلق کی ایک صحیح تشریح پیش کر سکتا ہے۔ |