بے بس مسلمان ملکوں میں غزہ پر
اسرا ئیلی دہشت گر دی کے تا زہ و اقعا ت پر غم و غصہ کی فضا طاری ہے اب تک
کے بحری و فضائی حملے میں 91 فلسطینی شہید کر دئے گئے ہیں ان میں بوڑ ھے ،خوا
تین اور وہ شیر خوار بچے بھی شا مل ہیں جو ابھی اس دنیا کو اپنی آنکھوں سے
دیکھنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکنے کے قابل بھی نہیں تھے جن کا گنا ہ صرف
یہی تھا کہ انھوں نے ایک فلسطینی مسلمان کے گھر جنم لیا اقوام متحدہ کے
چارٹر آف انسانی حقو ق میں بھی تما م انسانوں کو اپنی زندگی جینے کا حق حا
صل ہے یہ وہ حق ہے جسے کسی طور پر بھی ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن فلسطین کی
سر زمین پر مسلمانوں کی زند گیاں چھینے کی جنگ شروع ہو ئے ایک صدی سے زیا
دہ عرصہ ہو گیا ہے۔
فلسطین کا شہر جو پیغمبروں اور انبیاءکی سر زمین مانی جاتی ہے جویہو دیوں ،
عیسا ئیوں اور مسلما نوں تینوں کے لیے محترم ومقدس سر زمین کی حیثیت رکھتا
ہے جس میں حضرت سلیما ن ُ علیہ السلام کی تعمیر کر دہ معبد ہیں جو بنی اسرا
ئیل کے نبیوں کا قبلہ سمجھا جا تا ہے یہی شہر حضرت عیسیٰ علیہٰ سلا م کی جا
ئے ولا دت ہے اور انھوں نے اپنی تبلیغ کا مر کز بھی اسی شہر کو بنا ئے رکھا
ہم مسلما نو ں کا کامل عقیدہ ہے کہ چٹان سے نیچے معراج کی رات ہما رے پیارے
نبی ﷺ حضرت جبرا ئیل امین کے ہمراہ براق پر سوار ہو کر آسمان پر گئے جہا ں
اللہ سبحان وتعا لیٰ نے انھیں نماز کا تحفہ عنا یت فرما یا مسلما نوں نے
قبلہ کی تبد یلی سے پہلے تک اسی طرف رخ کر کے نما ز یں ادا کی۔ 2 ھجری 624
ءھجری تک یہ مسلمانوں کا قبلہ اول رہا بیت المقدس جسے القدس بھی کہتے ہیں
سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ سلام اور ان کے بھتیجے حضرت لو ط علیہ سلا م
نے عراق سے ہجرت کر نے کے بعد یہاں بیت المقدس کی تعمیر کی حضرت یعقوب علیہ
سلا م نے وحی الہیٰ کے حکم سے مسجد بیت المقدس ( مسجد اقصیٰ ) کی بنیاد
ڈالی جب نبی کر یم ﷺ معراج کو جا تے ہو ئے بیت الصخرہ پر پہنچے تو وہا ں نہ
کو ئی مسجد تھی نہ کو ئی ہیکل تھا اس لیے قرآن مجید میں اس جگہ کو مسجد
اقصیٰ کہا گیا ۔17ھجری 630ءمیں عہد فا روقی ؓمیں بیت المقدس پرمسلما نوں کا
قبضہ ہوا تو اس علا قے کو صا ف کیا گیا وہا ں ایک چٹان نظر آئی اس چٹا ن کے
ساتھ ایک مسجد بنا ئی گئی جو مسجدا قصیٰ کہلا ئی خلیفہ عبدالما ک بن مروان
کے عہد میں685 ءمیں691 ء کے درمیا ں کثیر سر ما ئے سے چٹان کے اوپر صخرہ
معراج پر قبلہ الصخرہ تعمیر کیا گیا جو اس وقت کے فن تعمیر کا اعلیٰ نمو نہ
تھی یہ ہشت پہلو عمارت پچھلی تیرہ صدیوں سے دنیا کی خو بصور ت ترین عما
رتوں میں شمار کی جا تی ہے ۔ 1099ءپہلی صلیبی جنگوں کے مو قع پر یو رپی
صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے ایک لاکھ کے قریب مسلما نوں کو شہید
کیا 1187ءمیں سلطا ن صلا ح الدین ایو بی نے بیت المقدس کو دوبا رہ عیسا
ئیوں کے قبضے سے چھڑا لیا ۔پہلی جنگ عظیم د سمبر 1917ءمیں جنرل اسمبلی نے
دھا ندلی سے کا م لے کر فلسطین عربوں اور یہو دیوں میں تقسیم کر دیا اس کے
نتیجے میں 78 فی صد علا قے پر اسرائیل قابض ہو گیا تیسری عرب اسرا ئیل جنگ
جون 1967میں اسر ئیلیوں نے بقیہ فلسطین پر بھی قبضہ کر لیا یہ امریکہ اور
بر طا نیہ ہی تھے جنھوں نے پہلی جنگ عظیم سے پہلے اسرا ئیلیوں کو فلسطین
میں بسا نے کی کوشش میں پیش پیش رہے اور فلسطینی عوا م کو ان کی زمین سے بے
دخل کر نے میں ہر طر یقہ کی تعا ون اور مد د اسر ائیل کو دیتے رہے ، آج بر
طا نیہ کی اسی شہ کی بنا ءپر فلسطینی مسلما ن اپنے ہی وطن میں مہا جرین کی
زند گی گز ارنے پر مجبو رہیں ۔1948ءمیں فلسطینی سر زمین پر اسرا ئیل نے
اپنی ریا ست بنا نے کا اعلا ن کیاتو امر یکہ اور بر طا نیہ نے بھر پو رتعا
ون کیا بر طا نیہ کے اسی تعا ون کی وجہ سے اسے ” اسر ئیل کا خنجر “ کے خطا
ب سے بھی نو ازا گیا بر طا نیہ اورامریکہ میں قا ئم ہونے وا لی ہر حکو مت
نے فلسطین ،اسرا ئیل مسئلہ کو حل کر نے کا دعو یٰ بڑے زورشورسے کیے، مگر
عملی ا قدما ت پر عمل کبھی نہیں کیا گیا ۔اسرا ئیل کی ہرظا لما نہ کا روا
ئی کو نظر اندا زکر نے کی پا لیسی نے اسے اس قدر دلیر بنا دیاہے کہ اسکا جب
جی چا ہتا ہے نہتے فلسطینیوںپر بکتر بند ٹینکوں اور گن شپ ہیلی کا پٹروں سے
گولیوں کی بو چھا ڑ کر دیتا ہیں ہم آئے دن ان کی بر بریت کامنہ بو لتا ثبو
ت ف ¾سطینی شہید بچوں ،نو جوانوں اور روتی التجا کرتی ماؤں کی صو رت میں
میڈیا اور اخبا رات میں دیکھتے ہیں مگرانسا نی حقو ق کی بین الا قوامی
تنظیمو ں کے کا نوں میں جو ں تک نہیں رینگتی مسلما نوں کے قبلہ اول مسجد
اقصیٰ میں نمازپڑھنے کی اجا زت نہیں اسر ائیلی ،مغر بی قو مو ں سے اپنی ہر
جا ئز ونا جا ئز با ت منو انے پر قادر ہیں ۔
جب تک پوری امت مسلمہ اسرا ئیل کے خلاف متحد ہو کر فلسطینی مسلما نوں کا
ساتھ نہیں دیتی اس وقت تک اسر ائیل کے ظلم کم ہو نے والے نہیں پوری دنیا
میںجب تک ہم خود متحد نہ ہوں گے انسانی حقوق کے علم بر دار مغربی ممالک
کواسرا ئیلی سر پرستی کے خلا ف آواز بلند کرنے کے لیے کیسے اقدامات پر اکسا
سکتے ہیں ترکی جو اسلا می ممالک میں وا حد ملک ہے جس نے اسرا ئیل کو تسلیم
کیا لیکن کچھ عر صے قبل ترکی کے امدادی ساما ن پر ہو نے والے حملہ کے بعد
اس کی طرف سے فلسطینی مسلما نوں پر ہو نے والے مظالم کے خلاف شدت آئی ہےقا
ہرہ یورنیور سٹی میں خطاب کرتے ہو ئے ترک وزیر اعظم رجب طبیباردوان نے
کہاکہ غزہ میں غیر انسانی طر یقے سے شہید کئے جانے والے فلسطینی بچون کے قا
تلوں سے جلد یا بدیر ضرور حساب لیا جائے گا اسرائیل نے معا ہدہ کیمپ ڈیوڈ
اور معا ہدہ اوسلو کے تحت مذاکرات میں آزاد فلسطینی ریا ست کے حق کو تسلیم
کیا تھا وہ اس سے اب منکر ہے دیگرممالک کے شرکا ءمیں بر طا نیہ اور امریکہ
شامل تھے جنھوں نے اس معاہدے کی رضا مندی دی تھی ا ٓج یہ ممالک بھی خاموشی
اختیار کئے ہو ئے ہیں اس وقت عالم اسلا م اہم سنگین مسئلوں سے دوچار ہے
قبلہ اول کی آزادی صلب ہو ئے مدت ہو ئی فلسطین نے آزدی کے لیے ایک طویل جنگ
لڑی آج ان کا اپنا وجود لہو لہو ہے نقل مکا نی کیے کئی عشرے گذر گئے وہ
کیمپوںمیں زندگی گز ارنے پر مجبور ہیں آج پوری امت مسلمہ کو اپنی ذمہ داری
کا احساس کر تے ہو ئے قبلہ اول کو ان کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے متحد ہو
کر نتیجہ خیز اقداما ت کرنے ہوں گے تما م عالم اسلام کے مسلما نوں کو
اسرائیل کی غاصبا نہ قبضے سے رہا ئی دلا نے کے لیے سو چنا ہوگاکچھ کرنا ہو
گا ۔ |