’وائس آف امریکہ‘ نہ صرف یہ کہ
امریکی کا سرکاری ریڈیو ہے بلکہ امریکہ کا اہم ادارہ اس کا کنٹرول سنبھالے
ہوئے ہے۔خاص طور پر مختلف زبانوں میں نشر ہونے والی ’وی او اے‘ کی نشریات
امریکی حکومت کی پالیسیوں کا ترجمان ہیں۔ایک مرتبہ ’وی او اے‘ کے ایک
پروگرام میں میرے فون کرنے پر کمپیئر نے میرے اس سوال کہ امریکی حکومت اس
ریڈیو کے ذریعے آنے والی پاکستانی عوام کی رائے کو کوئی نوٹس بھی لیتی ہے
یا نہیں،جواب دیا کہ کبھی مائیک کے اس طرف بات ہوئی تو آپ کو بتائیں گے کہ
امریکی انتظامیہ اس کا کس حد تک نوٹس لیتی ہے۔گزشتہ ماہ ’وائس آف امریکہ‘
نے ایک پروگرام میںمسئلہ کشمیر سے متعلق ایک تجویز دی ہے،یوں کشمیر کے
دیرینہ سنگین مسئلے کے پیش نظر ’وی او اے‘ کی اس تجویز کو بلاشبہ امریکی
حکومت کے کشمیر کے حوالے سے کام کرنے کے خطوط کا اظہار ہوتا ہے۔
امریکی ریڈیو کا کہنا ہے کہ ” مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل میں غیر معمولی
تاخیر کے پیش نظر کشمیر سے متعلق انسانی ہمدردی کی بنیادوں پہ اقدامات کے
ضرورت ہے“۔کشمیر سے متعلق انسانی ہمدردی کی بنیادوں کی تشریح اب نہ جانے
امریکی حکام کیا کرتے ہیں لیکن بادی النظر میں اس کا مطلب یہی ہے کہ
کشمیریوں پر سختی کا روئیہ تبدیل کیا جائے،کشمیریوں کی شہری آزادیاں بحال
کی جائیں، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کشمیریوں کے بنیادی حقوق کا
احترام کیا جائے،کشمیریوں پر اپنی ریاست میں آمد ورفت کی پابندیاں ختم کی
جائیں،اور ان سے اقدامات سے ہی اس سوچ کو تقویت مل سکتی ہے کہ مسئلہ کشمیر
کو انسانی بنیادوں پرمنصفانہ طریقے سے حل کرنے کے حوالے سے دونوں ملک اپنے
اعلانات کی تکمیل میں مخلص ہیں ۔لیکن بھارت اور پاکستان کا ایک دوسرے سے
مزاکرات و تجارتی تعلقات کے باوجود واضح طور پر نظر آتا ہے کہ دونوں ملک
ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے دو دو کشتیوں پر سوار ہیں۔ تاہم
امریکہ کی طرف سے ایسی کسی تجویز سے دونوں ملکوں بلخصوص بھارت کے لئے ممکن
نہیں ہو گا کہ وہ کشمیر سے متعلق انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اقدامات کی
راہ میں مسلسل رکاوٹ بن سکے۔
گزشتہ دنوں بھارتی حکام کے ایک اجلاس میں متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کو
اور کشمیریوں تقسیم کرنے والی سیز فائر لائین(جسے دونوں ملکوں نے لائین آف
کنٹرول کا نام دے رکھا ہے)پر کنکریٹ کی ویوار پر خار دار تاروں کی باڑ
تعمیر کرنے کے منصوبے کا جائزہ لیا گیا ۔پاکستان کے سابق ’کرتا دھرتا‘ جنرل
مشرف کے دور حکومت میںبھارت کے ساتھ’ ایل او سی‘ پر فائر بندی کی گئی،آزاد
کشمیر وغیرہ میں قائم کشمیری حریت پسندوں کے دفاتر و تربیتی مراکزکو بند کر
دیا اور بھارت کو یہ اجازت دے دی کہ وہ ’ ایل او سی‘ پر خار دار تاروں کی
باڑ قائم کر کے ریاست کشمیر کو تقسیم کرنے والی غیر مرئی لکیر کو مادی
حقیقت میں تبدیل کر دے۔اس وقت ایک ملاقات میں کشمیری رہنماﺅں کی طرف سے اس
معاملے پر تشویش کے اظہار پر صدرجنرل مشرف نے جواب دیا کہ تاروں کی باڑ سے
کوئی فرق نہیں پڑے گا،تارتو کاٹی بھی جا سکتی ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اگر
پاکستان بھارت کو کنٹرول لائین پر باڑ لگانے کی اجازت نہ دیتا تو بھار ت کے
لئے یہ ممکن نہ رہوتا کہ وہ کشمیر کی تقسیم کو حقیقی شکل دے سکے۔بھارت نے
’ایل او سی ‘ پر دوروئیہ خار دار تاروں کی آٹھ سے بارہ فٹ بلند باڑ نصب کر
دی جس کے ساتھ موشن سینسرز،تھرمل امیجزڈیوائسز،لائیٹنگ سسٹم اور الارم نصب
ہیں۔تاروں کی قطاروں کے درمیان بڑی تعداد میں بارودی سرنگیں بھی نصب
ہیں۔اور اب بھارتی حکومت ریاست کشمیرمیں کنکریٹ کی مستقل باڑ قائم کر کے
کشمیر کی موجودہ تقسیم کی بنیاد پر ’بندر بانٹ‘ کی پالیسی اپنائے نظر آتی
ہے۔
یہاں اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اتنے
اختلافات نہیں ہیں جتنی دشمنی یورپی ممالک کے درمیان تھی،پہلی عالمی جنگ
میں کروڑوں افراد ہلاک ہوئے،دوسری جنگ میں پانچ چھ کروڑ افراد مارے
گئے،یورپ تباہ ہو کر ملبے کا ڈھیر بن گیا،تب انہیں احساس ہوا کہ یہ ”
اپروچ“ درست نہیں ہے،آج اس کے نتیجے میں یورپ دنیا کا خوشحال ترین خطہ ہے
اور کسی بھی یورپی ملک کا شہری بغیر کسی رکاوٹ کے پورے یورپ میں اپنے ملک
کی طرح جا سکتا ہے۔اس کے مقابلے میں جنوبی ایشیا میںانسانوں کو جانوروں کی
طرح خار دار تاروں،رکاوٹوں کی باڑوں میں جانوروں کی طرح قید رکھا گیا ہے۔
لہذا جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ پاکستا ن اور بھارت باہمی تنازعات پر امن
طور پر مزاکرات سے حل کریں اور اس بات کا دونوں ملک عہد بھی رکھتے
ہیں،تودونوں ملکوں کو اپنے باہمی معاملات آپس میں حل کر نے ہی ہوں گے،سنگین
تنازعات کو وقت کے دھارے پر چھوڑ دینا دونوں ملکوں بلخصوص بھارت کی بڑی
سیاسی ناکامی ثابت ہو گا اور اس صورت دونوں ملکوں کا تسلیم کردہ علاقائی
مسئلہ اب بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔دونوں ملکوں کے عوام باہمی
وجنوبی ایشیا کے وسیع پر مفاد ات کو دیکھتے ہوئے دشمنی اور مخالفت کا سفر
ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ فیصلہ دونوں ملکوں کے سیاسی قائدین نے کرنا
ہے۔ا س وقت تک تو یہی نظر آ رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے سیاسی نمائندے دونوں
ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کا عزم تو رکھتے ہیں لیکن دونوں ملکوں کی
خفیہ ایجنسیاںاس طرح کے معاملات کو خود ہی کنٹرول کئے ہوئے دونوں ملکوں کی
اس دوستی کے قیام میں سدراہ ہیں۔دونوں ملکوں نے خلوص نیت سے دوستی کرنے یا
نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے،دوستی کی کوششوں کے ساتھ دشمنی کے عزائم بھی جاری
رکھنے سے پاکستان بھارت تعلقات کی” بیل منڈھیر “ نہیں چڑھ سکتی۔تاریخ جنوبی
ایشیا کے ” سیاہ و سفید“ کے اختیارت رکھنے والوں کے فیصلے کی منتظر ہے کہ
وہ خطے کے لئے انسانی احترام،امن اور ترقی کا انتخاب کرتے ہیں یا ایسی
لڑائی میں ملوث ہونا چاہتے ہیں جس کا فاتح بھی تادیر اپنے زخم چاٹتا رہتا
ہے۔ |