شہادت حسین دراصل مرگ یزیز ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ۔محرم اسلامی کیلنڈر کا پہلا مقدس ترین
مہینہ ہے محرم نہ ہوتا تو یوم عاشور نہ ہوتا اگر یوم عاشور نہ ہوتا تو شائد
اسلام نہ ہوتا۔ ہر سو بدی اور ظلمت کا راج ہوتا۔ محرم الحرام کی پہلی دہائی
جہاں ایک طرف ہمیں اہل بیت کی لازوال قربانیوں شہادت حسین اور باطل کی عبرت
ناک شکست کی داستان خونچکاں کی یاد دلاتی ہے تو وہاں امریکی غلامی کی دلدل
میں دھنسی ہوئی ملت اسلامیہ کو فلسفہ عاشور کے تناظر میں حسینیت کی
پیروکاری کا درس دے رہی ہے کہ افکار حسینی کو نسخہ کیمیا بنا کر امت مسلمہ
اپنی سلب کردہ خود داری آزادی کی بحالی اور یہود و نصاری کی غلامی کی
ہتھکڑیوں سے رہائی کو یقینی بنا سکتی ہے۔ محرم نام ہے حسین کا جس نے اپنے
خون سے شجر اسلام کی ابیاری کی اپ نے ایک طرف اپنے نانا ﷺ کے دین متین کو
مٹنے سے بچایا تودوسری طرف ثابت کیا کہ جیت ہمیشہ حق سچ کی ہوتی ہے باطل کو
آخر کار ایک نہ ایک دن مٹنا ہوتا ہے۔ حضرت امام حسین شیر خدا حضرت علی کے
ارجمند سیدالنسا حضرت فاطمہ زہری کے فرزند اور جگر گوشہ رسول ﷺ کے نواسے
اور شہید مظلومیت حضرت امام حسن کے بھائی تھے۔ آپ 3 شعبان 4 کو پیدا ہوئے
پیغمبر انسانیتﷺ نے اپکو گود میں لیا۔ایک کان میں آواز اوردوسرے میں اقامت
کہی۔ ام فضل کا کہا اسلامی مورخ نے یوں احاطہ کیا۔انکے مطابق ایک روز حضرت
امام کربلا آپکی اغوش میں اٹکھیلیاں کررہے تھے مگر اللہ کا نبیﷺ مایوسیت
اور نراسیت کی عملی تصویر بنے ہوئے تھے۔ام فضل نے وجہ پوچھی تو حضرت محمدﷺ
گلوگیر لہجے میں گویا ہوئے کہ ابھی حضرت جبرائیل میرے پاس ائے تھے اور مجھے
بتایا کہ اپکی امت اپکے لاڈلے نواسے کو شہید کردیگی۔ جبرائیل نے مجھے مقام
شہادت والی سرخ مٹی بھی دی ہے۔ حضرت امام حسین کا بچپن تین عظیم المرتبت
ہستیوں خاتم المرسلینﷺ اور سید المرتضی اور فاطمہ الازہرا کی تعلیم و تربیت
اوردست شفقت میں گزارا۔ حضرت محمدﷺ نے سید الشہدا کے متعلق جو کچھ فرمایا
وہ آپکی حسن و حسین سے عقیدت و الفت کا عظیم شاہکار ہے۔آپ حضرت ﷺ نے فرمایا
حسن و حسین جنت کے سردار ہیں۔ دوسری احادیث کے مطابق حضرت محمد صلعم نے
فرمایا ائے لوگو میں حسین میں سے ہوں جبکہ حسین مجھ سے ہے۔آپﷺ کا ارشاد ہے
رب العالمین اسے دوست بنائے جو حسین کا دوست ہوگا۔حضرت امام حسین اپنے نانا
حضرت محمد صلعمﷺًًًًًًًًًًًً کی رحلت سے لیکر امام حسن کی حیات تک کئی
معرکوں میں جہاد کے جواہر دکھا چکے تھے اور وہ اپنی زندگی کے اخری ایام تک
مصائب و الام کے ساحل سے کھیلتے ہوئے زندگی کے ان ایام میں داخل ہوئے جب
اپکا سفینہ خود گردمصائب کی زد میں تھے۔یذیذیت کا خوگر یذیذ خلیفہ بنا تو
مدینہ کے گورنر ولید بن عقبہ کو حکم دیا کہ امام حسین کو بیعت پر امادہ کیا
جائے۔ دوسری طرف اپکو کوفیوں کے سینکڑوں خطوط روزانہ موصول ہوتے تھے۔خطوط
میں کوفیوں نے لکھا کہ وہ سارا دن مدینے سے انے والے راستے کی راہ تکتے
رہتے ہیں کہ کب قافلہ امام نمودار ہوتا ہے۔کوفی درد و فغاں تھے کہ اسلام
خطرے میں ہے صرف اپ ہی شجر اسلام کی نگہبانی کرسکتے ہیں۔اپ28 رجب سن60 ہجری
کو مدینے سے مکہ پہنچے۔ یذیذی شیطانوں نے اپکو خانہ کعبہ کے طواف کے دوران
قتل کرنے کی منصوبہ بندی کررکھی تھے مگرامام کو بھنک پڑگئی اور اپ نے حج کی
بجائے عمرہ کیا اور فوری طور پر عراق کی طرف رخت سفر باندھا۔ موسمی بکھیڑوں
اور پر خطرراستوں کی ہولناکی کا مقابلہ کرتے ہوئے اہل بیت کے دستے نے عراق
میں قدمہ رنجہ فرمایا تو یذیذ نے کوفی گورنر ابن زیاد کو حکم دیا کہ دستے
کو میدان کربلا میںمحبوس کردو۔یوں قافلہ حسین دو محرم کو کربلا میں دریائے
فرات کے کنارے خیمہ زن ہوا۔حر اور ابن زیاد کی نگرانی میں پیدل گھوڑوں
تلواروں نیزوں اور کیل کانٹوں سے لیس50 ہزار یذیذی فوجی لشکر نے ایک طرف
کربلا کو چاروں اطراف سے گھیر لیا تو دوسری جانب دریائے فرات پر سنگینوں کے
پہرے بٹھادئیے گئے تاکہ اہل بیت کو پانی کی ایک بوند تک نہ مل سکے۔ اپ سے
بیعت کے مطالبے کئے جانے لگے۔ اپ نے یذیذی لشکر کو حقائق سے اگاہ کیا کہ
میں حضرت محمد صلعمﷺ کا نواسہ ہوں میں خون خرابہ نہیں چاہتا۔اپ نے تمام حجت
تمام کرلی مگر یذیذی لشکر فرعونیت کا آئینہ دار بنا ہوا تھا۔اپ نے عمرو بن
سعد سے نو محرم کو ایک رات کی مہلت مانگی۔دس محرم الحرام کو افتاب کی پہلی
کرن کے ساتھ اہل بیت پر تیروں کی بارش شروع ہوگئی۔یذیذیت کی فتح کے لئے
بیقرار اور انعام کی لالچ میں ڈوبے ہوئے لشکر کی تعداد اسی ہزار سے زائد
تھی جبکہ مقابلے میں72 رکنی قافلہ تھا۔ جانثاران حسین نے جسطرح خون سے
کربلا کی پیاس بجھائی حق و صداقت کا تحفظہ کیا وہ تاریخ اسلام میں سنہری
حروف میں تاابد زندہ و پائندہ رہے گا اور امت مسلمہ کو ہردور میں معرکہ
کربلا توانائی اور دوام دیتا رہے گا۔ اپ کے سرفروش وقفے وقفے سے شجر اسلام
کی خون جگر سے آبیاری کرتے رہے۔ سارے پیاروں کی شہادت کے بعد امام اکیلا
سپاہی تھا جس کی ہیبت اور ولولہ یذیذوں کی آنکھیں چندھیادیا کرتا۔ میدان
جنگ میں عصر کی نماز کا وقت ہوا تو سیدالشہدا نے وضو کیا اور اللہ کے حضور
سجدے میں تھے کہ شمر نے تلوار کے وار سے گردن علحیدہ کردی۔واقعہ کربلا نیکی
بدی حق و باطل نور و ظلمت غلامی اور حریت کے مابین جنگ کا وہی قدیم باب ہے
جو شروع سے چلا ارہا ہے مگر ابتدائے افرینش سے لیکر اج تک سانحہ کربلا ہی
ایسا دلسوز و زی وقار معرکہ ہے جسے کے سامنے تاریخ عالم کے تمام واقعات ہیج
نظر اتے ہیں۔اہل بیت نے جس شجاعت و صداقت سے مسلمانوں اور حریت پسندوں کی
عظمت کو چار چاند لگادئیے وہ صرف واقعہ کربلا کا طرہ امتیاز ہے۔ کربلا کی
شام غریباں اور اہل بیت کے لشکر میں جن صفت مااب خواتین نے نہ صرف اسیری کا
ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ وہ صبر و تحمل کے ساتھ بیٹوں بھائیوں اور شوہر کی
شہادت کے درد کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کرتی رہیں۔ حضرت فاطمہ کبری
سیدالشہدا کی بیٹی اور بھتیجے حضرت قاسم کی بیوی تھیں۔آپ امام حسین کی وہ
بیٹی ہیں جو کربلا میں بیوہ ہوئیں اور یذیذ کی اسیری سے رہائی کے بعد قافلہ
حسین کے ساتھ واپس آئیں۔حضرت ام کلثوم حضرت علی کی لاڈلی بیٹی ہیں۔وہ زیادہ
تر والد حضرت علی اور بھائی امام کربلا کے ساتھ رہیں۔ یذیذی دربار میں بی
بی ام کلثوم نے ایسا روح پرور خطاب کیا کہ درباری رونے لگے۔ بی بی زینب اہل
بیت اور اسیران اسلام کی وہ بلند قامت خاتون تھیں جسے ارض کربلا کی تندو
تیز ہوائیں کوفے کے سیاہ بادل شام کی بجلیاں اور انکی مجموعی قوت بھی ہلانے
میں ناکام ہوئیں۔آپ حضرت علی اور خاتون جنت فاطمہ کی بیٹی تھیں جسکی
استقامت میں امام حسین کی جھلک ہویدا تھی۔اپ نے ہی جابر سلطان کے دربار میں
کلمہ حق کہا۔ حضرت بی بی زینب نے یذیذی دربار میں یذیذ کو للکارتی رہی۔آئے
یذیذ تو نے وقتی طور پر کامیابی حاصل کرلی ہے مگر تجھے زلت آمیز شکست ہوئی
ہے تاریخ میں تیرا نام لینے والہ کوئی نہیں ہوگا۔ بی بی زینب دھاڑیں آئے
دشمن اسلام عنقریب وہ وقت انے والہ ہے جب اللہ کی عدالت میں واقعہ کربلا کا
فیصلہ ہوگا اس کیس میں حضرت محمد صلعم مدعی اور حضرت جبرائیل علیہ اسلام
گواہ ہونگے تو دنیا و آخرت میں نفرت و حقارت کا نشان بن جائےگا۔بی بی زینب
نے درست ہی کہا تھا یذیذیت ہمیشہ کے لئے پاش پاش ہوچکی ۔ یذیذ کا نام آتے
ہی اس پر لعنت پر اورتھو تھو کی جاتی ہے جبکہ سید الشہدا اور اہل بیت کا
نام چودہویں کے چاند کی طرح جگمگاتا رہے گا۔ کوفیوں نے احسان فراموشی کرتے
ہوئے نہ صرف خطوط میں لغوبیانی کی بلکہ حضرت مسلم بن عقیل کو شہید
کردیا۔1400 سال بعداسی مڈل ایسٹ کا یذیذ و شمر اسرائیل غزہ پر بارود
برسارہا ہے۔ حضرت علی اصغر ایسے کم سن بچوں کو شہید کیا جارہا ہے مگر دکھ
تو یہ ہے کہ مسلم حکمران کوفی بنے ہوئے ہیں۔ مسلم حکمران اور عرب بادشاہ
سپرپاور یذیذ اور شمر نیتن یاہو کے سامنے بے بس و کم مایہ دکھائی دے رہے
ہیں۔ ملت اسلامیہ نے اگر غزہ پر اسرائیلی جارہیت کا ہاتھ نہ روکا تو پھر
مستقبل کا مورخ یذیذوں کی تعداد57 لکھنے پر مجبور ہوگا ویسے کوفی کا خطاب
بھی تو کچھ کم نہیں؟ |